December 27th, 2024 (1446جمادى الثانية25)

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی تعلیم و تربیت

تحریر: محمد افضل گُھرکی

علامہ اقبال کے حوالے سے کچھ لکھنے کو دل چاہا‘ سوچا کیا لکھوں؟ جو ہماری نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہو‘ کبھی سوچا کہ علامہ اقبال کی شاعری پہ کچھ لکھوں‘ سیاست پہ لکھوں یا ان کے اس خواب کے بارے میں لکھوں جو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا دیکھا تھا یہ تمام باتیں ایک طرف۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہ یہ کہ میں آج مفکر پاکستان‘ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ’’تعلیم و تربیت‘‘ کے بارے میں قارئین کو آگاہ کروں۔

مرنے والے مرتے ہیں‘ لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ خاندان کو مذہب سے بہت لگائو تھا اقبال کی والدہ ماجدہ ایک دیندار اور سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ بالکل ان پڑھ تھیں‘ مگر ان کی معاملہ فہمی‘ حسن سلوک اور جذبہ خدمت خلق کی وجہ سے پورا محلہ ان کا گرویدہ تھا۔ بچوں کی تربیت بھی وہ نہایت ذمہ داری سے کرتیں اور اس معاملے میں ہمیشہ چوکنا رہتیں۔ علامہ اقبال کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد کے بقول:

’’تربیت کے معاملے میں وہ ایک آمر سے کم نہ تھیں۔‘‘

ایسی والدہ کے گہوارہ تربیت میں پرورش پانے والا بچہ اقبال جس نے برصغیر کے مسلمانوں کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور مختلف طریقوں سے مسلمانوں کی تربیت کی۔ شاعر مشرق کے والد محترم شیخ نور محمد اپنے بیٹے کی تربیت کے لیے کس قدر کوشاں اور سنجیدہ رہے ہوں گے ا س کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے۔

اس واقعہ کا ذکر اقبال نے اپنے ایک دوست سے کیا تھا کہ فجر کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت میرا روز کا معمول تھا۔ والد صاحب نماز کے بعد وظائف سے فارغ ہوکر گھر آتے تو میں اپنے کمرے میں قرآن پاک کی تلاوت کررہا ہوتا۔ مجھے دیکھ کر وہ اپنے کمرے میں چلے جاتے ایک دن حسب معمول تلاوت قرآن پاک میں مشغول تھا کہ و الد صاحب پاس سے گزرے اور فرمایا کبھی فرصت ملے تو میں ایک بات بتائوں گا۔ کچھ دنوں بعد اسی طرح والد صاحب نماز فجر کے بعد میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ میں حسب معمول تلاوت میں مشغول تھا۔ والد صاحب نے پوچھا کیا پڑھ رہے ہو؟ مجھے ان کے اس سوال سے بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں قرآن مجید پڑھ رہا ہوں بہرحال میں نے بڑے ادب سے کہا قرآن مجید‘ کہنے لگے تم جو کچھ پڑھتے ہو اسے سمجھتے بھی ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں! کچھ نہ کچھ سمجھتا ہوں والد صاحب خاموش ہوگئے۔ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

اس واقعے کو چھٹا دن تھا میں حسب معمول تلاوت کررہا تھا جب میں تلاوت سے فارغ ہوا تو والد صاحب نے مجھے اپنے پاس بلایا اور نرمی سے کہنے لگے‘ بیٹے قرآن مجید وہ سمجھ سکتا ہے جس کے دل پر اتر رہا ہو یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے تو یہ تمہاری رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب

گرہ کشا ہے نہ رازی‘ نہ صاحب کشاف

ڈاکٹر علامہ صاحب کے والد محترم نور محمد کے انداز تربیت کا ایک اور واقعہ جو علامہ نے ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں درج کیا ہے کہتے ہیں کہ میں آغاز شباب میں تھا کہ ایک دن ایک بھکاری ہمارے دروازے پر آیا اور اونچی آواز میں بھیک مانگنے لگا میں نے انتظار کیا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ اپنی صدا بلند کرتا رہا‘ مجھے غصہ آگیا اور اچھے برے کی تمیز نہ رہی‘ میں نے اس کے سر پر لاٹھی دے ماری اس نے جو بھیک مانگی تھی وہ گر پڑی‘ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے‘ میری اس حرکت سے وہ بے حد ناراض ہوئے ان کے چہرے پر افسردگی چھا گئی اور ان کا دل سینے میں تڑپ اٹھا‘ آنکھوں سے آنسو نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گر گیا یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت ندامت ہوئی کہ میں نے اپنے والد محترم کو بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ اس کیفیت میں والد ماجد کہنے لگے جب امت مسلمہ کل اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جمع ہوگی ان میں ہر طبقے کے لوگ ہوں گے۔ اس موقع پر بھکاری کی صدا بلند ہوگی کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے اس دن نبیصلی اللہ علیہ وسلممجھ سے مخاطب ہوں گے کہ حق تعالیٰ نے ایک نوجوان مسلمان تیرے سپرد کیا کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے لیکن اس نوجوان نے تیری ادب گاہ سے کوئی سبق نہ سیکھا‘ بے شک حضورصلی اللہ علیہ وسلمنرم گفتار ہیں لیکن اس دن مجھے سخت شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

دیکھو بیٹا اپنے باپ پر ظلم نہ کرو اور آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرو۔ علامہ کے والد محترم کی گفتگو نے علامہ کے دل و دماغ پر اس قدر اثر کیا کہ ان کے دل میں محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر رچ بس گئی کہ اقبال کی شاعری اور شخصیت میں یہ بیج تن آور‘ بلند و بالا اور گھنا درخت بن کر نمودار ہوا۔

ڈاکٹر محمد اقبال کی تعلیم کا آغاز ایک مکتب سے ہوا ‘ مولوی غلام حسین مواحد مسجد میں خطیب اور امام تھے‘ وہ چھوٹے بچوں کو بھی پڑھاتے تھے۔ ایک دن مولوی صاحب‘ مولوی غلام حسین سے ملنے گئے‘ غلام حسین صاحب بچوں کو پڑھارہے تھے۔ مولوی میر حسن کی نظر اقبال پر پڑی اور پہلی نگاہ ہی میں انہوں نے محسوس کیا:

بالائے سرش زہوشمندی

می تافت ستارہ بلندی

مولوی میر حسن نے پوچھا یہ کس کا بچہ ہے؟ مولوی غلام حسین نے جواب دیا یہ شیخ نور محمد کا لڑکا ہے… اس واقع کے ایک دن بعد مولوی میر حسن کی ملاقات‘ شیخ نور محمد سے ہوئی انہوں نے شیخ صاحب سے کہا کہ اپنے لڑکے کو میرے پاس بھیجو میں اسے تعلیم دینا چاہتا ہوں۔ شیخ صاحب مولوی میر حسن کا بڑا احترام

کرتے تھے چنانچہ اقبال کو میر حسن کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجاگیا۔

مولوی میر حسن کی جوہر شناسی بھی قابل تحسین و ستائش ہے کہ انہوں نے اقبال کو بچپن ہی میں خدادادفراست سے پہلی نظر ہی میں دیکھ کر اندازہ کرلیا کہ یہ جوہر اقبال مستقبل میں بہت کچھ بننے والا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ ان کو آغاز ہی سے لائق معلم اور اچھے مربی ملے۔

تعلیم و تربیت کا واقعہ اس پہلو سے خاص طور پر محفل غور و فکر ہے کہ عموماً اشاگرد استادوں کی جستجو کرتے ہیں مگر یہاں شاگرد کا انتخاب استاد نے کیا۔

علامہ کی تربیت میں ان کے استاد محترم سید میر حسن نے بھی اہم کردار اد اکیا۔ سید میر حسن ایک روشن فکر اہل علم تھے۔ علامہ اقبال سید میر حسن کی تربیت گاہ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے‘ اس دور میں تربیت‘ تعلیم و تدریس کا لازمی جزو تھی‘ اس تربیت میں بہت کچھ شامل تھا‘ جیسے رہن سہن کا طریقہ‘ احساس ذمہ داری‘ مجلس کے آداب‘ والدین اور اساتذہ کا ادب و احترام اور حسن اخلاق کی تعلیم وغیرہ الغرض اقبال نے اپنے استاد محترم سے بہت کچھ سیکھا اور بعد میں اس کا اعتراف یوں کیا۔

وہ شمع بارگہ خاندانِ مرتضوی

رہے گا مثلِ حرم‘ جس کا آستاں مجھ کو

نفس سے جس کے‘ کھلی میری آرزو کی کلی

بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

سید میر حسن بچوں کو تعلیم کی طرف اکساتے جہاں تک ممکن ہوتا بچوں کی مدد کرتے‘ نالائق طالب علم کو بھی تعلیم کی طرف راغب کرتے‘ادھر علامہ اقبال کے والد محترم کو بھی یقین تھا کہ جتنی دیر اقبال میر حسن کی صحبت میں رہتا ہے اس کا وقت ضائع نہیں ہورہا۔ اقبال اپنے والد اور استاد میر حسن کی تعلیم و تربیت سے برابر فیضیاب ہورہے تھے۔

مولوی میر حسن کے علاوہ جن اساتذہ کرام سے اقبال کو استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں مولانا محمد دین‘ مولانا ابوسعید‘ محمد شعیب اور پروفیسر تھامس واکر آرنلڈ تھے۔ پروفیسر آرنلڈ ایک علم دوست انسان تھے۔ علامہ اقبال سے ان کا برتائو استاد کے ساتھ ساتھ ایک دوست کی طرح کا تھا۔ انہوں نے اقبال جیسے جوہر قابل کو اس طرح سے چمکایا کہ خود آرنلڈ کو کہنا پڑا کہ:

’’ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنادیتا ہے‘‘

علامہ اقبال کی تربیت میں ان کے گھر کے افراد جس میں ان کے والد اور والدہ اور گھر سے باہر اساتذہ کرام اقبال کی تربیت میں مصروف عمل تھے اس تربیت ہی کی بدولت علامہ اقبال بلندیوں کی طرف گئے۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ یہی نیک انسان آگے جاکر ایک ایسا شاعر بنے گاج کسی شاعری پر پوری دنیا عش عش کرے گی اور ساتھ ہی برصغیر کے مسلم رہنمائوں کو ایک علیحدہ اسلامی ریاست کی تجویز دے گا جس میں مسلمان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کرسکیں گے۔

اقبال کی تجویز کے مطابق ہمیں علیحدہ ملک تو مل گیا لیکن ذرا سوچیں! کہ ماری زندگی ہمارے قوانین‘ ہمارے رسم و رسواج اور ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت اسلام کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہے تو ہمیں اس مرد مومن کے نظریات کے مطابق اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہوگی تاکہ وہ بھی آگے چل کر ڈاکٹر علامہ اقبال ‘ قائداعظم محمد علی جناح‘ شہید ملت لیاقت علی خان اور سرسید احمد خان جیسے رہنما بن سکیں اور ہمارے پیارے وطن پاکستان کو دنی اکی ایک مضبوط اور طاقت ور اسلامی فلاحی ریاست بناسکیں۔

مجھے اقبال‘ اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے

پلے جو اس کے دامن میں ہیں‘ وہ کچھ بن کے نکلے ہیں