April 25th, 2024 (1445شوال17)

علامہ اقبال کی شاعری

تحریر: ڈاکٹر ممتاز عمر

اگر ہم ڈاکٹر سرشیخ محمد اقبال کے نظریۂ قومیت کا جائزہ لیں تو ہمیں علامہ کے افکار کو ان کی زندگی کے مختلف ادوار کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ سہولت کے اعتبار سے ہم اگر چار ادوار میں تقسیم کرلیں تو بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

پہلا دور 1905ء تک کا دور، یعنی یورپ جانے سے پہلے کا دور۔ اس دور میں بھی ان کی شاعری گل و بلبل کی رنگین داستان نہیں بلکہ مقصدی شاعری ہے۔ اس ابتدائی دور میں وہ ہندوستانی قومیت کے پرچارک نظر آتے ہیں۔ ’’ترانہ ہندی‘‘ میں وہ کھلے لفظوں میں بیان کرتے ہیں:

ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

جب کہ ’’نیا شوالہ‘‘ میں کہتے ہیں:

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

حالیؔ اور آزادؔ کے یہاں بھی وطنیت و قومیت کا یہی تصور تھا، یعنی ایک ملک میں رہنے والے سب ایک قومیت کے حامل ہیں۔ ابتداء میں سرسید کے بھی یہی خیالات تھے۔ ’’حیاتِ جاوید‘‘ کے مطابق ہندی سے ان کی مراد ہندوستان کے تمام باشندے تھے۔ بعد میں ہندی اور اردو زبان کے تنازع نے دونوں اقوام میں تفریق پیدا کردی۔1857ء کے بعد سرسید نے محسوس کیاکہ ہندوؤں کے عزائم کچھ اور ہیں، اس لیے اُس دور میں علامہ اقبال بھی وطن کا تصور جغرافیائی مفہوم میں لیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نظم ’’ترانۂ ہندی‘‘ میں اس تصور کو کچھ اس طرح پیش کیا تھا:

پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا

وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا

گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں

گلشن ہے جس کے دم سے رشکِ جہاں ہمارا

اے آبِ رودِ گنگا وہ دن ہے یاد تجھ کو

اترا تِرے کنارے جب کارواں ہمارا

یہ وطن اور قومیت کا ایک طرح سے آریائی تصور ہے، مگر اس وقت بھی علامہ کہتے ہیں کہ:

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تُو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

قومیت کے اس تصور میں ریاست سے مذہب کو لازمی طور پر الگ تصور کیا گیا ہے۔ جلد ہی علامہ اقبال اس حصار سے نکل کر ہندی مسلمانوں کے لیے ایک الگ علاقے کا حصول لازمی اور اٹل تصور کرنے لگے۔ وہ ہندوؤں کی معاندانہ ذہنیت کو بھانپ گئے تھے۔ ’’صدائے درد‘‘ میں غالباً وہ پہلی بار اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔

دوسرے دور یعنی 1905ء سے 1908ء تک یورپ کے قیام کی مدت میں ہمیں اس موضوع پر یعنی وطنیت و قومیت کے تصور پر کوئی نظم نہیں ملتی۔ اول تو اس دور میں اشعار ہی بہت کم کہے بلکہ شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ رکھتے تھے مگر سر عبدالقادر کے کہنے پر انہوں نے اپنے اس ارادے کو ترک کردیا۔ یہ دور ان کے ذہنی انقلاب کے اعتبار سے بہت ہی اہم دور ہے۔ فکر میں ایک اضطراب اور پھر انقلاب نظر آتا ہے۔ یورپ کی چمک دمک اور مادی ترقی میں روحانیت کا فقدان دیکھ کر ان کے اپنے خیالات میں زبردست تبدیلی آئی۔ یہاں ان کو انسان کی ہولناکی کا تماشا دیکھنے کا موقع ملا اور وہ نئے نصب العین اور نئے افق کی تلاش کرنے لگے۔

آرزو ہر کیفیت میں اک نئے جلوے کی ہے

مضطرب ہوں، دل سکوں ناآشنا رکھتا ہوں میں

یورپ سے واپسی کے بعد 1908ء سے 1926ء کا وہ دور ہے جس میں علامہ اقبال پان اسلام ازم کی طرف جھکتے ہیں اور اسلام ان کے نزدیک اخلاقی اور سیاسی دونوں اعتبار سے ایک مکمل دین کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور کی ہندوستان کی سیاست کو سامنے رکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاست تبدیل ہورہی ہے۔ چنانچہ اس طرح ہندوستان میں دو قومی جماعتوں کی بنیاد پڑجاتی ہے۔ یورپ سے علامہ اقبال دوسرے ہی خیالات و تاثرات لے کر واپس آئے تھے، اب علامہ اقبال کی شاعری کا ساز بدلا اور ’’ترانۂ ہندی‘‘ ترانۂ ملّی سے بدل گیا جو انہیں مسلمانوں کے لیے زہرِ ہلاہل نظر آتا ہے۔ اب قومیت اور وطنیت کا ہندی تصور ان کے نزدیک سب سے بڑی لعنت بن جاتا ہے۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے

کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

علامہ اقبال نے اپنے مشہور مضمون ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اپنے اس نقطۂ نظر کی وضاحت زیادہ بہتر طو رپر کی ہے۔ اس میں وہ قومیت کے اسلامی تصور اور دوسری قوموں کے وطنی تصور کا فرق بتاتے ہیں کہ ’’ہم لوگ مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک خدا کے ماننے والے اور ایک رسولؐکے پیروکار ہونے کی بناپر ایک دوسرے سے قریب ہیں نہ کہ اقتصادی‘ لسانی اور جغرافیائی اعتبار سے۔

ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے

اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اپنے اس خطے سے جہاں انسان رہتا ہے، محبت نہ ہو اور اپنی سرزمین سے کوئی محبت نہ رکھے۔ چنانچہ ایک مسلمان کو اپنے وطن سے جو محبت ہونی چاہیے اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’وطن سے محبت رکھنا اور اس کی عزت کے لیے مرنا مسلمانوں کے لیے جزوِ ایمان ہے، مگر وطنیت اُس وقت اسلام سے ٹکراتی ہے جب وہ ایک سیاسی تصور کی حیثیت سے کام کرتی ہے اور انسانی اجتماعیت کا اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور وہ بھی اس مطالبے کے ساتھ کہ اسلام پیچھے ہٹ کر محض ایک انفرادی رائے کی حیثیت سے پس منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک عامل کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔‘‘

اقبال وطنیت کے اس تصور کی نفی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک جغرافیائی حدود مسلمانوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس کو سب کچھ سمجھ لینا کسی طور بھی مسلمانوں کے اتحاد کے لیے سود مند نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

پھر 1926 ء سے 1938 ء تک کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ سیاست میں عملی طو رسے حصہ لیتے ہیں اور سوسائٹی کی اصلاح کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔ یہ تاریخ میں مسلمانوں کے لیے ایک پُرآشوب اور فیصلہ کن دور تھا۔ اپنے ملازم علی بخش سے وہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے سرکاری نوکری چھوڑ کر غلامی کی گھٹن سے اپنے آپ کو آزاد کرلیا ہے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (Resdution of Religious Thoughts Islam)کے ذریعہ مجھے اپنی قوم کو ایک الگ مقام دینا ہے۔ اگر میں سرکار کا نمک خوار رہتا تو یہ پیغام کھل کر اپنی قوم کو نہیں دے سکتا تھا۔‘‘ اس دور میں اقبال اسلام کی بین الاقومیت پر زور دیتے ہیں:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر

آل انڈیا مسلم لیگ کے الٰہ آباد کے سالانہ جلسے میں اپنے صدارتی خطبہ میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کرتے ہیں جسے ہم اساسِ پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہیں اور مخلوط انتخاب کی جگہ جداگانہ انتخابات کا مطالبہ شدت سے کرتے ہیں‘ احمدیت کی تکذیب کرتے ہیں اور اسلام کی وحدت پر زور دیتے ہیں۔۔۔ اور ایک سلسلہ ہے ان کی کوششوں کا۔ وہ مسلمانوں کی قومیت اور ان کی الگ حیثیت تسلیم کرانے کے لیے ہر طرح سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قومیت کے اس تصور کو بہت پہلے پیش کیا تھا۔ خود ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’میں قومیت کے تصور کی وطنیت کے ساتھ اُس وقت سے نفی کرتا آیا ہوں جس وقت یہ مسئلہ ہندوستان اور اسلامی دنیا میں غیر معروف تھا۔‘‘

علامہ اقبال کا خیال تھا کہ جب تک قوموں کی خودی قانونِ الٰہی کے ساتھ پیوست نہیں ہوتی دنیا میں امن کی صورت ہی نہیں پیدا ہوسکتی۔‘‘

ایک بات اور قابلِ غور ہے کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے۔ ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرازم میں انہیں اپنی قومی انفرادیت اور اپنے مذہب کی بنیاد پر سیاسی استحکام و قومی اتحاد کو خیرباد کہنا پڑتا۔ اگر انہیں مسلم قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا تھا تو علیحدہ تشخص برقرار رکھنا ضروری تھا۔ علامہ اقبال کے ہاں اسلامی معیشت کا نظام اور نظام اخلاق دونوں سیاست کا جزو ہیں، اس لحاظ سے انہوں نے جداگانہ قومیت کا تصور پیش کیا اور ایسے وقت میں مسلمانوں کی رہبری کی جبکہ ان پر نہایت کڑا وقت آن پڑا تھا۔ علامہ اقبال کا ہماری قوم پر یہ ایک عظیم احسان ہے کہ انہوں نے اس وقت جداگانہ مسلم قومیت کے خطوط کو روشن کیا جب دیگر مسلمان زعماء اور عمائدین ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہندوستانی قومیت کے مکر و فریب کا شکار ہوگئے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی جیسے جید عالم نے جب کہا کہ اقوام اوطان سے بنتی ہیں تو علامہ اقبال نے نہایت بروقت اس خدشے کا نوٹس لیا اور کہا ’’قومیں اوطان سے نہیں ادیان سے بنتی ہیں۔‘‘ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک قومی ریاست بنانے اور ہندوستانی قومیت میں مسلم قومیت کے ضم ہونے کے خدشے کی جس طرح علامہ نے نشاندہی کی اس نے جنوب مشرقی ایشیاء کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم و کرم پر پڑے رہنے سے بچالیا اور مسلمانوں کو خلفشار و انتشار سے نکال کر ایک مثبت سیاسی لائحہ عمل عطا کرکے حصولِ پاکستان کی جدوجہد کی راہ پر ڈال دیا۔ علامہ اقبال نے جداگانہ انتخاب کو مسلمانوں کا لائحہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا تھا:

’’مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ ابھی ایک عرصے تک مسلمانانِ ہند کا مستقبل جداگانہ انتخاب سے وابستہ ہے۔ میرے نزدیک جداگانہ انتخاب قومیت کے مغربی تصور سے بھی (قومیت کا مغربی تخیل ایک روحانی بیماری ہے) متناقص نہیں۔‘‘

چنانچہ اس طرح علامہ اقبال نے جداگانہ انتخاب کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کو ایک نیا قومی تشخص دیا۔ اس کی نسبت علامہ کہتے ہیں کہ ’’میں قومیت کے تصور کی بیخ کنی کے لیے اُس وقت سے جدوجہد کررہا ہوں جبکہ ہندوستان اور عالم اسلامی میں اسے پوری طرح سمجھا نہیں جارہا تھا۔‘‘

اس طرح علامہ اقبال کا تصورِ قومیت مذہب اور سیاست میں دوئی کو قبول نہیں کرتا۔ مذہب اور سیاست میں جس دم جدائی ہوتی ہے تو بقول علامہ صاحب:

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی اسیری، ہوس کی وزیری

علامہ اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس کے لیے انگلستان تشریف لے گئے تو وہاں کی انڈیا سوسائٹی نے آپ کو مدعو کیا۔ اس انجمن سے خطاب کرنے کے بعد جب ان سے اہلِ یورپ کو پیغام دینے کی فرمائش کی گئی تو اُس وقت انہوں نے اپنا یہ شعر پڑھا تھا:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

یورپ میں اب تہذیب کی ضرورت محسوس ہورہی ہے اور سیاست و مذہب کی تفریق کم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایک یورپی مصنف نے یورپی انتشار اور بحران کو دور کرنے کے لیے مذہبی قوانین کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

الٰہ آباد کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے واشگاف الفاظ میں قومیت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ فرانسیسی فلسفی رینان کے مطابق ’’ضرب کلیم‘‘ سے بہت ہی قریب ہے۔ علامہ صاحب کے نزدیک دو قومی نظریے کی بنیاد حق خود ارادیت کی بنیاد ہے اور اسلامی جمہوریت میں مساوات اور اخوت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے ایک مرکز سے وابستہ رہیں۔

قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی

ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے خدائی

علامہ اقبال کی یہاں اس سے مراد خانۂ کعبہ ہے جو ہمارے ایمان‘ اتحاد اور قوت کا منبع و مرکز ہے، وہ کہتے ہیں

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ بنی نوع انسان کو ایک حیاتِ نو کا پیغام دیا اور اس کو اپنی حقیقت و عظمت سے روشناس کرایا۔ اقبال سے قبل ہماری شاعری میں ایک ایسا پیغام اس جوش و خروش اور سوزو درد کے ساتھ کسی شاعر نے نہ دیا تھا، کیونکہ ہمارے شاعر یا تو دربار کے ساتھ وابستہ رہے یا خانقاہ سے۔ اسی سبب سے ان کے یہاں یا تو حسن و جوانی کے تذکرے اور سازِ عشرت پر چھیڑے ہوئے گیت تھے یا پھر روحانیت و تصوف اور بے ثباتی عالم کے مضامین کے انبار۔ لیکن اقبال نے قوم کے خوابِ گراں کو جذبۂ بیدار میں بدل دیا‘ قوم کے رگ و پے میں زندگی کی ایک لہر دوڑا دی اور مسلمانوں کو قوم و وطن کے حقیقی تصور سے روشنا کرادیا۔

اُس کی رحمت کے سائبان میں ہوں

شہرِ قاتل میں بھی امان میں ہوں

ساری دنیا ہے آشنا مجھ سے

اجنبی اپنے خاندان میں ہوں

آسمانوں پہ خاک ڈال چکا

اپنے وجدان کی اڑان میں ہوں

کب تراشے گا وقت کا آذر

قید حالات کی چٹان میں ہوں

وقت اور فاصلوں سے ہوں آزاد

میں زمیں پر نہ آسمان میں ہوں

کھو گئے مجھ کو ڈھونڈنے والے

میں کسی اور ہی جہان میں ہوں

میری قیمت کوئی چکا نہ سکا

کب سے رکھا ہوا دکان میں ہوں

ایک کردار ہوں لہو میں تر

ہر قبیلے کی داستان میں ہوں

اپنے ہونے پہ ہے یقین عارفؔ

میں ابھی تک اسی گمان میں ہوں