November 23rd, 2024 (1446جمادى الأولى21)

انٹرویو محترمہ امت الرقیب صاحبہ

نائب نگران جامعات المحصنات پاکستان

تعارف

میرا تعلق ڈسکہ شہر سے تعلق ہے۔ابتدائی تعلیم پنجاب سے حاصل کی پھر مدرسے میں داخلہ لے لیا۔1947میں شادی ہوگئی۔دو جڑواں بیٹے ہیں،شادی کے پانچ سال بعد شوہر داغ مفارقت دے گئے۔میری بہن جو میری جٹھانی بھی ہیں، اورجیٹھ میرے کزن اور بہنوئی ہیں،انھوں نے میرے بچوں کا  بہت خیال رکھا۔بچوں کی پرورش، تعلیم وتربیت اور شادیاں تک جیٹھ جٹھانی نے کیں۔میرے بچوں کو کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ماں باپ بن کر پالا۔بیٹے بڑے ہوئے تو انہوں نے بھی میرے ساتھ دین کے راستے میں بہت تعاون کیا۔

سوال: جماعت اسلامی سے کیسے متعارف ہوئیں؟

*جواب*شادی کے بعد رکن جماعت اسلامی سلیمہ آپا سے قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھا ایک دن وہ مجھے نعمت اللہ خان صاحب کے گھر ہونے والی عائشہ منور کی قرآن کی کلاس میں لے گئیں۔وہاں تحسین فاطمہ لٹریچر کی کلاس لیتی تھیں۔ جس سے میرے اندر ایک تحریک پیدا ہوتی تھی۔ ایک بار الیکشن کے دنوں میں تحسین فاطمہ کلاس لے رہی تھیں وہاں کسی نے سوال کیا کہ اگر ہمیں جیتنا ہے تو جعلی ووٹ ڈال سکتے ہیں،تحسین فاطمہ کی آواز میرے کانوں میں آئی، کہ یہاں کوئی جعلی ووٹ نہیں ڈالے گا اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ایسے ہی لوگوں کی تلاش تھی وہ دن اور آج کا دن میں نے کلاسز سے کبھی چھٹی نہیں کی۔

سوال: جماعت اسلامی کی کون سی روایات آپ کو پسند ہیں اور کس روایت کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں؟

*جواب* میں سمجھتی ہوں دو ایسی باتیں ہیں جب تک وہ ہمارے اندر رہیں گی ہم خیر پر رہیں گے، ایک ہمارے باہمی تعلقات کی مضبوطی اور دوسری چیز اطاعت امر۔ اس حوالے سے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔2005کے زلزلے کے بعد کشمیر میں ساڑھے نو ماہ ہماری ڈیوٹی لگی تھی اس وقت وہاں بڑا عجیب منظر تھا تا لوگ ہیلی کاپٹر سے سے لائے جا رہے تھے تھے ان میں زخمی بھی شامل تھے۔کوثرفردوس اس وقت قیمہ تھیں۔ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ آپ واپس اسلام آباد چلی جائیں باقی لوگوں کے ساتھ انھوں نے آگے کیمپوں میں جانا تھا۔ مجھے بھی تجسس تھا کہ کشمیر میں آگے بھی دیکھا جائے کہ کیا کیا ہوا ہے۔یہ سوچ کر میں نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔اور کہا کہ میں آپ کی ساتھ جاؤں گی۔گاڑی میں جگہ چوں کہ کم تھی اس لیے توانہوں نے اپنی چھوٹی بیٹی کو اتارا اور ڈرائیور سے کہا کہ ا سے اسلام آباد جانے والی گاڑی میں سوار کروا کر آجاؤ۔یہ دیکھ کر میں دھک سے رہ گئی اور کہا کہ نہیں میں واپس چلی جاتی ہے لیکن اس وقت کوثر نے کہا کہ نہیں اب آپ ہمارے ساتھ جائیں ہی گی لیکن اس واقعہ نے میرے دل پر بڑا گہرا کیا۔ یہ واقعہ مجھے نہیں بھولتا میری کلاس کی پڑھی ہوئی طالبات اگر ناظمہ بن جائیں تو میں ان کا ایسے احترام کرتی ہوں کہ مجھ سے ذرا بھی نافرمانی ہوئی تو میری عاقبت خراب ہو جائے گی۔ یہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹی ہیں۔ یہ جب منصب پر آتی ہیں تو میں ازراہ مذاق کہتی ہوں کہ لو اب تم میری عاقبت خراب کرنے آ گئی ہو۔

سوال: تنظیمی دوروں کو کس طرح manage کرتی تھیں؟

*جواب* مجھے گھر سے کوئی روک ٹوک نہ تھی بس میرے جیٹھ  نے مجھے اتنی تاکید کی ہوئی تھی کہ تم گھر سے دین کے کام کے لیے ضرور نکلو لیکن مغرب سے پہلے گھر واپس آجاؤ۔علاقے کی ذمہ داری تک تو ٹھیک تھا لیکن جب ضلعی،کراچی اور صوبائی ذمہ داریوں میں شوراؤں میں جاناہوا تو بتدریج سہولت ملتی گئی۔میری ہر ذمہ داری 20 سال پر محیط رہی، چترال،بلوچستان، شعبہ دیہات، شعبہ جامعات اور 10سال ذیلی جامعات کی ذمہ داریاں رہیں۔ ان کی ساری بلڈنگز کھڑے ہو کر بنوائیں ان دنوں بسوں اور ٹرینوں میں سفر کیا کرتے تھے۔ دیہاتوں میں کٹائی کے موسم میں لوگ نہیں آتے تھے تو ہم کھیتوں میں ان کے پاس چل کر جاتے اور درانتی پکڑ کر ان کے ساتھ کام شروع کر دیتے۔ بہت محبت اور دوستانہ تعلق قائم ہو جاتا اورلوگ  اسی محبت میں ہمارے دروس میں شریک ہوجاتے تھے۔

سوال: جماعت اسلامی میں record maintenance کو بہت اہمیت دی جاتی ہے آپ اس کو کس طرح maintain کرتی تھیں؟

*جواب* میرے ساتھ کام کرنے والی ٹیم ہمیشہ بہت اچھی رہی ہے۔پہلے ہم  گھروں میں ہی کام کیا کرتے تھے۔ریکارڈ گھروں میں ہی مینٹین رکھتے۔میرا ریکارڈ ہمیشہ مینٹین رہتا۔بچوں اور گھر کے ماحول کے ساتھ سارا کام ہوتا۔اس لیے ہر ایک کا بچہ میرا بچہ ہوتا تھا، رقیہ فردوس آپا  ہماری ناظمہ تھیں وہ جب دورے پر جاتیں تو پیچھے سے ان کے بچوں کو ہم دیکھتے۔بچے مجھے ان کے پیچھے قائم مقام امی کہتے تھے۔اور چھوٹے موٹے بچوں کے جھگڑے میں دوڑے ہوئے میرے گھر آتے۔

سوال: آپ آج جماعت اسلامی کو کہاں دیکھتی ہیں؟

*جواب* میں لوگوں کو اپنے حساب سے نہیں تو لتی لوگوں کے حالات اور میرے حالات میں بہت فرق ہو سکتا ہے، اس لیے ہر آدمی کے گھر کے حالات اور ذمہ داریاں مختلف ہوتی ہیں۔ ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

ایک اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ہمارے پاس لوگ بھی ہیں  اور صلاحیت بھی بہت اچھی ہے مگر دوسری جانب کئی گنا بھاری طاقت ہے۔لیکن یہ ہمارا یقین ہونا چاہیے کہ  ہمارا ایک بھی سو پر بھاری ہوتا ہے۔

ہم نے لوگوں کی تیاری کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر کام کیا۔ کتابیں پڑھانا،ارکان بنانے سے قبل بہت اچھی طرح دستور کا مطالعہ کروانا۔جامعات کی بچیوں کے ساتھ مل کر مٹھائیاں کھانا،ان سے کہانیاں سننا، اس طرح ہم نے جامعات میں بہت سے ارکان بنائے جو بعد میں بڑی ذمہ داریوں پر رہے۔