چئیر پرسن المحصنات ٹرسٹ پاکستان
تعارف
۔1967میں گریجویشن مکمل کیا۔لندن سے تین سالہ ٹیکنیکل ڈیزائننگ کا کورس کیا اور پہلی پوزیشن حاصل کی۔میری شادی 1974میں ہوئی۔
سوال1: جماعت اسلامی سے کیسے متعارف ہوئیں؟
*جواب* کالج کے تھرڈ ایئر میں اسلامیات کمپلسری میں پروفیسر خورشید احمد کی کتاب اسلامی نظریہ حیات ہمارے نصاب کا حصہ تھی اس کے مضامین میرے دل کی آواز تھے۔بچپن سے کچھ سوالات ذہن میں تھے، اس کتاب کا مطالعہ کرکے ان کے جوابات ملنا شروع ہو گئے کیمسٹری میں بی ایس سی نوٹس بناتے بناتے نیند آنے لگتی تو میں مطالعہ شروع کر دیتی مطالعہ میری روح کی غذا کی بن گئی۔ اور ان میں موجود مذید کتب کی حوالے دیکھتی تو وہ بھی لائیبریری میں تلاش کرتی یا خرید کر پڑھتی۔ الحمدللہ اتنا مطالعہ ہو گیا تھا کہ میری تشفی ہو جاتی۔ میرے بھائی کا تعلق جمیعت علماء سے تھا وہ نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے، وہ گھر میں جو کتابیں لاتے تو میں ضرور مطالعہ کرتی ایک دن میں نے اخبار والے سے کچھ اچھے رسالے لانے کا کہا اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک بہت اچھا رسالہ لا کر دوں گا اور دوسرے دن ترجمان القرآن لا کر دیا۔ ترجمان القرآن پڑھنے کا آغاز ہوا تو سوچ کے دریچے کھلتے چلے گئے۔
پھر ایک باراس میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ کے مراکش کانفرنس کے بارے میں پڑھا۔ جس میں انہوں نے ذکر کیا تھا کہ ہمارے پاس ایسی خواتین موجود ہیں جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیا کی جدید تعلیم سے بھی آراستہ ہیں۔ اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے میں ہمارے ساتھ ہیں، یہ پڑھ کر مجھے جستجو ہوئی کہ وہ خواتین آخرکہاں ہیں؟ اتفاق سے صفیہ ناہید مرحومہ نے مجھے درس قرآن کی دعوت دی.وہاں جماعت اسلامی کے متفقین کہ فارم دیکھے تو چپ چاپ بھرکر دے دیا، پھر خیال آیا ابا سے پوچھے بغیر یہ کام کیا ہے وہ کیا سوچیں گے اور اس فارم کو بکس میں چھپا دیا، پھر سوچا اس میں اسلامی نظام کے قیام کی بات ہی تو ہے، پوچھیں گے تو بتا دوں گی۔بعد ازاں قرآن کلاسز کا سلسلہ شروع ہوا۔جس کی مدرسہ آپا ام زبیر تھیں۔انہوں نے ہمیں تحریک اسلامی کامیابی کی شرائط گھول کر پلا دی تھی۔ام زبیر آپا نے مجھ سے امیدوار رکنیت کا فارم پر کروایاتو میں نے سوچا کہ رکنیت میں تو سالوں لگتے ہیں لیکن 1976 میں جب میری دوسری بیٹی پیداہوئی، تو میری رکنیت منظور ہوگئی، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ میں تو ابھی سدھری ہی نہیں ہوں یہ کیسے ہوگیا؟ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تو مجھے رکن بنا لیا لیکن میں نے ابھی اپنے آپ کو رکن نہیں بنایا۔ابھی مجھے بہت سدھرنا ہے۔
سوال2: جماعت اسلامی کی کون سی روایات آپ کو پسند ہیں اور کس روایت کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں؟
*جواب* محبت کی روایت بہترین روایت ہے ہم ایسی جماعت ہیں جس میں سے محبت نکل جائے تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔محبت کی روایت گھر اور باہر دونوں کے دونوں جگہ قائم رہنی چاہیئے جو گھر میں فیل ہے وہ باہر بھی اس معاملے میں فیل ہے۔محبت کی چاشنی کے ساتھ ہر کام شاندار ہوتا۔
اللہ کے دین کے راستے میں ایک دوسرے کا خیال اس قدر رکھا جاتا تھا کہ ہماری ایک ساتھی کے شوہر کی جانب سے اجازت نہیں تھی کہ وہ ڈرائیور کے ساتھ اکیلے سفر کریں تو ہماری ایک ساتھی،جو اب اس دنیا سے چلی گئی ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے،وہ ہمیشہ ان کے ساتھ جاتیں اور واپس آتی تھیں، یہ وہ خاموش کارکن ہیں جو ہمیں سہارا دینے ہمارے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، اگر یہ نہ ہو ں تو ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔
سوال3: تنظیمی دوروں کو کس طرح manage کرتی تھیں؟
*جواب* کراچی کی نظامت عائشہ منور کوملی تو میں ان کی ٹیم میں شامل تھی۔ میرے پاس شعبہ تربیت تھا۔اس دوران چوتھے بچے کی پیدائش ہوئی۔ تو عائشہ منور نے کہہ کر امیر جماعت اسلامی کراچی سید منور حسن صاحب سے گاڑی کا انتظام کروادیا۔تا کہ مجھے سہولت ملے۔شعبہ تربیت میں ہم تمام امیدواران کی کلاسز کا انتظام کرتے تھے اللہ تعالی صفیہ ناہید کو غرق کرے، وہ دستور پڑھاتی تھیں اور میں لٹریچر۔۔۔ان دوروں پر نکلنے کے لیے بچوں کو پیچھے چھوڑنا ہوتا تو میری بہنیں میرے بہت کام آتیں۔اور بہت خوشی سے بچوں کے سارے کام کرتیں کہ میں بے فکری سے اپنی تحریکی ذمہ داریاں نبھاتی۔۔۔آج میں سوچتی ہوں ہمارے وہ کارکنان جو گھروں میں آزمائش کے ساتھ کام کرتے ہیں اگر انہیں ایسے افراد مل جائیں جو ان کے بارے میں درست آگاہی یا ادراک نہ رکھتے ہوں ہیں تو یہ قیمتی لوگ پیچھے چلے جاتے ہیں
سوال4:جماعت اسلامی میں record maintenance کو بہت اہمیت دی جاتی ہے آپ اس کو کس طرح maintain کرتی تھیں؟
*جواب* اس کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ ساتھ ساتھ ریکارڈ کو مینٹین کیا جاتا رہے اور جب نئی ناظمہ کام سنبھالے تو پرانی ناظمہ کچھ عرصے اس کے ساتھ ساتھ رہے تا کہ نئی ذمہ داری کی بہترین منتقلی اور تربیت ہو سکے۔
سوال5: آپ آج جماعت اسلامی کو کہاں دیکھتی ہیں؟
*جواب جیسے جیسے جماعت اسلامی کے کام میں وسعت آتی جا رہی ہے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔جو کہ فطری ہے۔
مولانا مودودی فرمایا کرتے تھے کہ جب دریا میں کود دو گے، تیرنا تب ہی آئے گا۔
آج کا سب سے بڑا چیلنج موبائل فون اور سوشل میڈیا ہے۔نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق ہمیں بھی قدم آگے بڑھانا ہوں گے۔ان فتنوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے۔ پہلے ہم گھروں میں بچوں کو تاکید کر کے نکل جاتے تھے کہ کوئی بھی آئے دروازہ نہیں کھولنا کسی غلط صحبت میں مت بیٹھو۔ لیکن اب موبائل کا فتنہ ہر بچے کے ہاتھ میں ہے۔جس پر پوری دنیا میں موجود ہے ہے۔اس لئے امت کی ماؤں پر ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔نئے دور کے چیلنجز کے لیے ماؤں اور بچوں کو تیار کرنا ضروری ہے۔