October 13th, 2024 (1446ربيع الثاني9)

انٹرویومحترمہ عائشہ منور صاحبہ

یہ محترمہ عائشہ منور ہیں۔ صرف ایک فرد نہیں، بلکہ ایک تاریخ ہیں۔ نو برس تک جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی اہم ترین ذمے داریاں ادا کیں۔ ایک تاریخ دیکھی ہے بلکہ مرتب کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مختصر جملوں میں بات کرنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔ جہدِ مسلسل کا استعارہ ہیں۔ گفتار اور کردار کی غازی ہیں۔ آج کی بزم کے لیے ہم نے ان سے کچھ ہلکے پھلکے سوالات کیے ہیں۔ بڑی مشکل سے انٹرویو پر تیار ہوئیں۔ اس گفتگو سے آپ ان کے بارے میں مزید جان سکیں گے۔ ان کے مختصر سے جملوں میں معنی کا ایک جہان پوشیدہ ہے۔

تو ملیے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا دھڑکتا ہوا دل عائشہ منور صاحبہ سے…!!!

سوال: آپ کا نام؟

جواب: عائشہ منور

سوال: ولدیت؟

جواب: علی مطاہر

سوال: زوجیت؟

جواب: سید منور حسن۔

سوال: بچوں کے بارے میں بتائیے۔

جواب: دو بچے ہیں الحمدللہ۔ بیٹا طلحہ اور بیٹی فاطمہ۔

سوال: آپ کی تعلیم؟

جواب: گریجویشن۔

سوال: آپ کی پسندیدہ کتاب؟

جواب: ’’اسلام اور اجتماعیت‘‘ (امین احسن اصلاحی)، ’’دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی)

سوال: آپ کے پسندیدہ شاعر

جواب: علامہ اقبال

سوال: پسندیدہ کھانا؟

جواب: سبزی پسند کرتی ہوں۔

سوال: آپ کا پسندیدہ موسم؟

جواب: معتدل۔ ہاں سردی کبھی اچھی نہیں لگی۔

سوال: آپ کا پسندیدہ رنگ؟

جواب: برائون۔

سوال: پسندیدہ پھول؟

جواب: موتیا کی کھلتی ہوئی کلی۔

سوال: پسندیدہ شعر

جواب: نہ اِدھر اُدھر کی تُو بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں کی خبر نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

سوال: آپ کی زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا دن؟

جواب: جب بیٹے (طلحہ) نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا۔

سوال: سب سے زیادہ خوشی کا سال؟

جواب: 2013ء، جب جماعت کی مرکزی ذمے داری سے (طویل عرصہ بعد) فراغت ملی۔

سوال: مطالعہ کس وقت کرتی ہیں؟

جواب: بالخصوص صبح کو، باقی تمام دن میں جب وقت میسر آجائے۔

سوال: بازاروں سے کتنی رغبت ہے؟

جواب: کبھی دلچسپی نہیں رہی، مجبوراً جانا بھی پڑا تو ایک ہی دکان سے خریداری کر آئی۔

سوال: زندگی میں کن چیزوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی؟

جواب: پیسہ اور مکان۔

سوال: آپ کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ؟

جواب: جب تفہیم القرآن پڑھنا شروع کی، اس سے قبل عام سی زندگی تھی۔

سوال: دن کی تقسیم کس طرح کرتی ہیں؟

جواب: ہر دن کی مصروفیات الگ ہوتی ہیں، بس بیٹھنا مجھے گوارا نہیں ہوتا۔

سوال: اتنا کام کیسے کرلیا؟

جواب: اللہ کی توفیق اور قائداعظم کے فرمان ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ پر عمل پیرا رہی۔

سوال: امورِ خانہ داری سے کتنی دلچسپی رہی؟

جواب: جتنی عورت کو ہونی چاہیے۔

سوال: کھانا پکانے سے دلچسپی ہے آپ کو؟

جواب: الحمدللہ سب کام آتے ہیں مجھے۔ جب ضرورت ہوتی ہے ہر کام خود کرلیتی ہوں۔

سوال: دماغی صحت کا راز کیا ہے؟

جواب: مطالعہ قرآن۔

سوال: کیا چیز ڈپریشن کا سبب بن سکتی ہے؟

جواب: منفی سوچیں، اللہ پر توکل کی کمی۔

سوال: بچوں کو کیا بنانے کی خواہش تھی؟

جواب: پڑھے لکھے اور باشعور ہوں۔

سوال: آپ کے بچوں میں مطالعہ کا کتنا رجحان ہے؟

جواب: رجحان تو ہے مگر جتنا میں چاہتی تھی شاید اتنا نہیں۔

سوال: بچوں کو جو بنانا چاہتی تھیں وہ بن گئے؟

جواب: زندگی خود ہی بڑی استاد ہے۔

سوال: بچوں کی تربیت میں کس چیز کو بالخصوص مدنظر رکھا؟

جواب: غصہ آنے کے باوجود اظہار نہیں کیا کبھی، میرا خیال ہے تربیت ویسی کر نہیں سکی جیسی مطلوب تھی۔

سوال: کوئی نصیحت جو بار بار بچوں کو کرتی ہوں؟

جواب: قرآن سے جڑے رہنے کی نصیحت۔

سوال: بچوں کو قرآن کس سے پڑھوایا؟

جواب: جب تک بچے چھوٹے تھے خود ہی پڑھایا اور سمجھانے کی پوری کوشش کی۔

سوال: آپ کا بچپن کیسا تھا؟

جواب: بچپن کنٹرولڈ تھا، والدین کی پابندی سختی کی حد تک نہیں تھی۔

سوال: آپ بچپن میں کیا بننے کا خواب دیکھتی تھیں؟

جواب: ایسا کوئی خاص خواب نہیں دیکھا، بس بڑے ہوتے گئے جو بننا تھا بنتے گئے۔ الحمدللہ!

سوال: آپ کے والدین میں کون زیادہ اصول پسند تھا؟

جواب: اصولوں پر دونوں ہی کمپرومائز نہیں کرتے تھے۔

سوال: آپ کے والدین کے گھر کا ماحول علمی تھا؟

جواب: ہاں خاص علمی تھا جسے ہم نے قبول نہیں کیا، جزوی سا تعلق تھا کتاب کے ساتھ۔

سوال: زندگی بھر اتنے سارے تعلقات کو کیسے نبھایا؟

جواب: انفرادی روابط کم ہی ہیں، اجتماعی زیادہ ہیں۔

سوال: ادبی ذوق کتنا ہے؟

جواب: ہمیشہ سے تاریخ پڑھنے اور سمجھنے کی طرف رجحان رہا، وہی ذوق ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں فرد کو بدلا جاسکتا ہے؟

جواب: کچھ لوگ ضرور بدلے جاسکتے ہیں۔

سوال: آپ کی لائبریری میں کتنی کتب ہیں؟

جواب: بہت زیادہ، اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے الحمدللہ۔

سوال: تحفہ میں عموماً کیا دیتی ہیں؟

جواب: کتابیں زیادہ شوق سے دیتی ہوں۔

سوال: نجی تقریبات میں شرکت کرتی ہیں؟

جواب: بہت کوشش رہتی ہے، اکثر شرکت ہوجاتی ہے۔

سوال: گھومنے پھرنے کا شوق رہا ہے؟

جواب: تفریحاً تو کم ہی گئے ہوں گے، ہاں تنظیمی ذمے داریوں سے جہاں گئے، انجوائے بھی کیا۔

سوال: آپ کے بہن بھائی آپ کو قابلِ رشک سمجھتے ہیں؟

جواب: پتا نہیں۔ شاید ایسا نہیں، ہر ایک کے اپنے حالات ہیں۔

سوال: آپ کی دلچسپیاں اور مشاغل؟

جواب: مطالعہ ہی دلچسپی بھی اور مشغلہ بھی۔

سوال: تھکن اتارنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟

جواب: آرام کے بجائے مزید کام سے اترتی ہے میری تھکن۔

سوال: آپ کی کوئی عادت جو آپ کے لیے مشکل بن جاتی ہو؟

جواب: ہر کام کو بہت آرگنائز طریقے سے کرنا اور کروانا چاہتی ہوں۔

سوال: کوئی خوبی جو آپ نے مشکل سے پیدا کی ہو؟

جواب: قوتِ برداشت۔

سوال: اگر جماعت اسلامی میں نہ ہوتیں؟

جواب: خدانخواستہ سیکولر ذہن ہوتا۔ ورکنگ وومن تو ضرور ہوتی، کام کی عادت تھی۔

سوال: جب آپ مرکزی ذمے داری پر تھیں تو گھر اور دفتر میں کیسے توازن رکھا؟

جواب: گھر کو ہی دفتر بنالیا۔ خانگی امور بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے، سہولت رہی۔

سوال: آپ کے قریبی رشتے دار پسند کرتے ہیں جماعت اسلامی کو؟

جواب: ہاں، مگر قلیل تعداد۔

سوال: اپنی بیٹی کو قیّمہ دیکھنا چاہیں گی؟

جواب: ہرگز نہیں، بہت بھاری ذمے داری ہے۔ اپنے لیے بھی نہیں چاہی کوئی ذمے دای۔ یہاں چاہتوں سے کچھ ہوتا بھی نہیں ہے۔

سوال: منور صاحب کراچی کے امیر، آپ ناظمہ منتخب ہوئیں۔ اعتراض تو نہیں کیا انہوں نے؟

جواب: انہوں نے کہا اپنی شوریٰ سے پوچھ لو، ویسے کوئی دستوری قباحت تو نہیں تھی۔

سوال: آپ نے تحریکی زندگی سے کیا سیکھا؟

جواب: وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا، جو کرسکتے ہیں کر گزریں۔

سوال: جماعت اسلامی کا سفر آگے بڑھا ہے یا تھم گیا ہے؟

جواب: مسلسل پیش رفت ہے، مگر سیاسی کامیابی کا نتیجہ وقت اور حالات ہی بتاتے ہیں۔

سوال: تحریکی زندگی میں آپ کی خوش بختی؟

جواب: کام کرنے والے، ساتھ نبھانے والے ساتھی ہمیشہ بہت اچھے ملے۔

سوال: آپ کو صحت کے مسائل درپیش رہے، کچھ بتائیے۔

جواب: 20 برس کی عمر سے بیٹھ کر نماز پڑھتی ہوں، صحت کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملی، جماعت نے الحمدللہ اتنا مصروف رکھا۔

سوال: جماعت کے تربیتی نظام سے مطمئن ہیں؟

جواب: کام پھیل رہا ہے، افراد بڑھتے ہیں تو تربیت کا نظام بھی مزید توجہ چاہتا ہے۔

سوال: آپ نے طویل ذمے داری میں ملک کے چپے چپے کا دورہ کیا، دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا؟

جواب: جی ہاں! ستّر فیصد آبادی تو رہتی ہی دیہات میں ہے۔

سوال: دیہاتی عورت کی بڑی خوبی کیا ہے؟

جواب: مذہب پسند ہے۔

سوال: دین کا فہم رکھتی ہے؟

جواب: جتنا فہم ہے اور دین کو جتنا سمجھتی ہے دینی قدروں سے پیار کرتی ہے۔

سوال: خواندگی کا تناسب کیا ہے؟

جواب: بے انتہا جہالت، دین کی بنیادی قدروں کا علم بھی کم ہی کسی کے پاس ہے۔

سوال: معاشرے کی عام عورت جماعت اسلامی کی طرف رجوع کرتی ہے؟

جواب: جی ہاں، عام عورت جب اقامتِ دین کا مشن اپنا لیتی ہے تو وہ خاص بن جاتی ہے۔

سوال: کبھی لگا کہ تھک گئی ہوں؟

جواب: اب لگتا ہے، وجہ صحت کی مسلسل خرابی ہے۔

سوال: تنظیمی ذمے داریوں نے گھر کو متاثر کیا ہوگا؟

جواب: کوئی کام پڑا نہیں رہنے دیا، کوئی نہیں میسر تو خود کرلیا، بیزاری نہیں آنے دی گھر کے ماحول میں۔

سوال: میاں بیوی دونوں اتنی بڑی ذمے داریوں پر ہوں تو خاندان کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے یا نقصان؟

جواب: شاید فائدہ زیادہ ہوتا ہے، کبھی کبھار نقصان بھی۔

سوال: آپ کیسے کہہ سکتی ہیں عورت گھر سے باہر ہو اور گھر متاثر نہ ہو؟

جواب: عورت کا اصل مقام گھر ہے، اصول متاثر نہیں ہونے چاہئیں، حالتِ اضطرار کے بھی اپنے کچھ تقاضے ہیں۔

سوال: بچوں کی پڑھائی متاثر ہوئی کبھی ذمے داریوں کے باعث؟

جواب: دورے عموماً چھٹیوں میں کرتی تھی، بچوں کو بھی ساتھ لے جاتی تھی۔

سوال: جماعت اسلامی کو کہاں دیکھ رہی ہیں؟

جواب: نظریاتی حوالے سے اس کی شناخت بحال ہوئی ہے۔

سوال: دوسرے نظاموں اور نظریات کا کیا مستقبل ہے؟

جواب: ان سے لوگ بیزار ہورہے ہیں۔

سوال: تنظیمی زندگی کا کوئی ناخوش گوار واقعہ؟

جواب: میری ذمے داری کے دوران جماعت میں وہ مدوجزر آئے جن کا میں تصور نہیں کرسکتی تھی۔

سوال: جماعتی خاندانوں میں باہم تنازعات ہوتے ہیں؟

جواب: انسانوں کے مابین یہ تو فطری ہے۔ اگر بات زیادہ بڑھتی ہے تو اصلاح کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

سوال: اچھی تقریر اور درس کے لیے آپ کو کتنی محنت کرنی پڑتی تھی؟

جواب: فکر درست ہو تو صلاحیت اللہ رب کریم خود عطا فرمادیتے ہیں۔

سوال: بدلتا ہوا سماج جماعت کے گھرانوںکی اقدار کو کس حد تک متاثر کررہا ہے؟

جواب: بہت حد تک۔ اس وقت ایک بیدار ماں کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

سوال: اس وقت امتِ مسلمہ کو درپیش بڑا چیلنج کیا ہے؟

جواب: کسی خطے میں اسلام بحیثیت نظام زندگی نافذ نہیں، اس طرف پیش رفت کی ضرورت ہے۔

سوال: خارجہ امور میں پیش رفت ہے حلقہ خواتین کی؟

جواب: کسی حد تک۔

سوال: خدمت کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے میں دیر سے قدم رکھا جماعت نے؟

جواب: ہر صلاحیت کے افراد فوراً نہیں مل جاتے، یہاں سب رضاکار ہوتے ہیں۔

سوال: جماعت کی زندگی میں دستور کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: اس کو سمجھے بغیر کوئی انسان حقیقی اجتماعیت اختیار نہیں کرسکتا۔

سوال: حلقہ خواتین کے لیے کیسا تنظیمی ڈھانچہ پسند کرتی ہیں؟

جواب: انتظامی امور مثلاً مالیاتی نظام، گاڑیوں وغیرہ کے نظام سے وقت بچا کر فکری اور تربیتی امور میں لگائیں۔

سوال: کارکن خواتین کو بن سنور کر رہنا چاہیے یا سادہ؟

جواب: اچھی طرح رہنا چاہیے تاکہ اسلام کے بارے میں لوگ اچھی رائے قائم کریں۔

سوال: کیا جماعت اسلامی پر معاشرے کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے؟

جواب: ہمارے ہاں اکثریت دین سے محبت کرتی ہے، وقتی دبائو لوگوں کی رائے متاثر کرتا ہے۔

سوال: میڈیا بے حیائی پھیلا رہا ہے مگر حجاب کی طرف رجوع بھی بڑھ رہا ہے، کیا وجہ ہے؟

جواب: حجاب عورت کی فطرت ہے، معاشرتی دبائو اس کو بے حیائی کی طرف مائل کرنے کا سبب بنتا ہے، مگر اس کی فطرت باحیا ہے۔

سوال: اس وقت پاکستانی عورت کو سب سے بڑا درپیش چیلنج کیا ہے؟

جواب: بچوں کی صحیح خطوط پر تربیت۔

سوال: جو آپ چاہتی تھیں منتقل کرسکیں ذمے داریوں کے تناظر میں؟

جواب: کوشش ضرورکی۔ اطمینان تو بہرحال نہیں ہوسکتا۔

سوال: جماعت کی سرگرمیوں میں عام عورت کے لیے کیا کشش ہے؟

جواب: دعوت یعنی رابطہ عوام اور انسانی خدمت دونوں عمل خواتین کے لیے پُرکشش ہیں۔

سوال: مادیت پرستی سے کیسے بچے آج کی عورت؟

جواب: ہم تعیشات کو ضروریات بناتے چلے جارہے ہیں، قرآن کا مطالعہ حقیقتِ دنیا کے سب راز آشکار کردیتا ہے۔

سوال: ٹیکنالوجی کی ترقی نے داعی کا راستہ آسان کیا ہے یا مشکل؟

جواب: نوجوانوں کی تربیت کریں، جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کریں اپنے میدان میں۔

سوال: اس وقت آپ کی تحریکی ذمے داری کیا ہے؟

جواب: سیاسی سیل کا پارلیمنٹری کام کسی حد تک میری ذمے داری ہے۔

سوال: پارلیمنٹ میں عورتوں کی نمائندگی واقعی مسائل کا حل ہے؟

جواب: عورتوں کو حیثیت اور آزادی تو مل جاتی ہے مگر عورتوں کو شامل کرنے سے یہ مسائل کا حل تو نہیں بنا۔

سوال: بحیثیت رکن قومی اسمبلی کیسی یادیں ہیں؟

جواب: اچھی یادیں ہیں، اس ماحول میں کم از کم مذہب کا لحاظ پایا جاتا ہے۔

سوال: زیادہ تر خواتین نماز کی پابند ہیں؟ اسمبلی میں خواتین کو بولنے کا موقع دیا جاتا تھا؟

جواب: ہمارے اسپیکر چودھری امیر حسین صاحب خواتین کا بہت احترام کرتے تھے، نہ صرف بولنے دیتے بلکہ ہر معاملے میں تعاون کرتے تھے۔

سوال: کیا حلقہ خواتین پارلیمنٹ کی ذمے داریوں کی تربیت کرتا ہے؟

جواب: تربیت تو کرتا ہے، مزید ضرورت بھی ہے۔ مگر قانون کی مجبوریاں مستقل شکل اختیار کرلیں تو خود عورتوں کے لیے مشکل ہوجائے گی۔

سوال: پارلیمنٹ میں بیٹھی عورت نے عام عورت کے لیے کیا کیا؟

جواب: جتنا ہم گھر سے دور ہورہے ہیں ہمارے بچے ہاتھوں سے نکلے جارہے ہیں۔

سوال: موجودہ یا سابقہ پارلیمنٹرینز خواتین سے آپ کا رابطہ ہے؟

جواب: کبھی تقریبات میں ملاقات ہوجاتی ہے، اہم مذہبی وقومی مواقع پر ہم ان کو لٹریچر وغیرہ بھیجتے رہتے ہیں۔

سوال: آپ کے خیال میں عورت ان بھاری ذمے داریوں کی مکلف ہے؟

جواب: بہت بھاری ذمے داری ہے، بالخصوص گھروں سے دور رہنا۔

سوال: اگر جماعت کو اقتدار ملا تو کس فرقے کا اسلام نافذ کریں گے؟

جواب: وہ اسلامی نظامی جس کا خاکہ قرار دادِ مقاصد میں دیا گیا ہے۔

سوال: جماعت کے پاس قوم کی تعلیم وتربیت کا کیا پروگرام ہے؟

جواب: تطہیر وتعمیر ِافکار، تعمیرِ سیرت اور تنظیم، اصلاح ِمعاشرہ، اصلاحِ حکومت۔ ہم قیام پاکستان کے وقت سے اسی پروگرام پر عمل پیرا ہیں۔

سوال: جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو پہلا کام کیا کرے گی؟

جواب: قیادت سب سے پہلے خود کو ہر طرح کے احتساب کے لیے پیش کرے گی۔

سوال: جماعت اسلامی کی ترجیحِ اول کیا ہے؟

جواب: ملک میں معاشی عدل وانصاف کا قیام۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ جماعت اقتدار میں آتے ہی عورتوں کو برقع پہنادے گی؟

جواب: یہ مخالفانہ پروپیگنڈہ ہے، جماعت نے خواتین کے حقوق کا چارٹر پیش کیا ہے۔

سوال: ایک قوم کیسے بنیں؟

جواب: جب تک افرادی قوت کی تعلیم وتربیت اور ان کی تنظیم کا بنیادی فریضہ ادا نہیں کریں گے ایک قوم نہیں بن سکتے۔

سوال: حکومت کی اصلاح کے لیے کوئی تجویز ہے آپ کے پاس؟

جواب: امریکا کی غلامی اور بھارت کی بالادستی قبول کرنے کے بجائے قائد اعظم کے وژن پر عمل کیا جائے۔ یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی۔

سوال: سنڈے میگزین کے لیے کوئی پیغام؟

جواب: میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی