خواجہ رضی حیدر/سابق ڈائریکٹر قائداعظم اکیڈمی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تربر اور فراست کا مجسمہ تھے۔ آپ کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ آپ جو اقدام کرتے اُس پر پہلے اچھی طرح غور و فکر کر لیتے تھے، اس کے بعد اسے عملی صورت دیا کرتے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران متعدد مراحل پر آپ نے فیصلے میں تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ جس سے جزوی طور پر مسلمانوں پر مایوسی پیدا ہوئی، لیکن جب آپ نے فیصلے کا اعلان کیا تو ہر شخص نے آپ کے تدبراور فراست کی داد دی۔ خصوصاََ 1928ء میں نہرو رپورٹ کے موقع پر آپ کی طویل خاموشی تشویش کا باعث تھی۔ اکتوبر1928ء میں انگلستان سے واپسی پر جب آپ نے اخباری نمائندوں سے اس رپورٹ پر اظہارِ خیال کے لیے کہا تو آپ نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ابھی مجھے اس رپورٹ کے تفصیلی مطالعے کا وقت نہیں ملا ہے۔ لیکن آپ نے اس موقع پر مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ پریشان نہ ہوں اور متحد رہیں، کیونکہ مسائل حل ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ پھر31 دسمبر 1928ء کو کلکتہ کے مقام پر کل جماعتی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے آئینی اور قانونی طور پر نہرو رپورٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور واضح طور پر کنونشن سے کہا:
’’نہر و رپورٹ کو جناح کی تائید کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی تائید کی ضرورت ہے۔ اگر اقلیتوں کا مسئلہ آپ نے آج حل نہیں کیا تو لازماََ اسے کل حل کرنا پڑے گا۔ ہندو اور مسلمان اسی ملک کے باشندے ہیں۔ اگر ان کے درمیان باہمی اختلافات ہیں بھی، تو ان اختلافات کی وجہ سے دشمنی اور عداوت مول نہ لیجیے۔ اگر وہ باہم اتفاق اور یگانگت پیدا کرنے سے معذور ہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ دشمنوں کی مانند ایک دوسرے کا سر پھوڑ کر نہیں بلکہ دوستوں کی طرح آپس میں مصافحہ کر کے جدا ہوں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد اورمتفق دیکھنا میری زندگی کی ایک بڑی آرزو ہے۔ اس اتحاد کے راستے میں کسی منطق، نا انصافی اور کسی کشمکش کو حائل نہ ہونے دیجیے‘‘۔
قائد اعظم کی اس درد مندانہ اپیل کے باوجود کانگریس کی ہندو قیادت نے قائد اعظم کی ترمیم کو مسترد کرتے ہوئے نہرو رپورٹ جس میں مسلمانوں کے آئینی حقوق کو نظر انداز کردیا گیا تھا، منظوری دے دی۔
مسلمانوں کے مسائل اور مطالبات کے سلسلے میں ہندو قیادت کا رویہ ہمیشہ ہٹ دھرمی اور نا انصافی پر مبنی رہا جس کی بناہ پر مسلمانوں کے ہاں یہ خیال تقویت پکڑتا چلا گیا کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ایک علیحدہ مسلم ریاست تشکیل دینا پڑے گی۔ کل جماعتی کنونشن سے واپسی پر قائد اعظم نے اپنے ایک دوست سے فرمایا: ’’آج ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا اس طرح جدا ہو رہے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی باہم متحد نہیں ہوں گئے‘‘۔ قائد اعظم کا یہ تجزیہ ایک پیشن گوئی ثابت ہوا اور مارچ 1940ء میں مسلمانانِ ہند نے ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ نہ صرف پیش کیا بلکہ اس مطالبے کی منظوری کے لیے من حیث القوم خود کو وقف کر دیا۔ قائد اعظم نے اپنے تجربے کی روشنی میں ہمیشہ کانگریس کو ایک ہندو جماعت قرار دیا، اور کانگریس بھی برابر اپنے ہندو جماعت ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہی۔ قائد اعظم نے اسی مطالعے کی روشنی میں جون 1940ء میں وائسرائے ہند سے واضح طور پر کہا کہ آئندہ جو بھی دستوری خاکے مرتب کیا جائے اُس میں دو خود مختار آزاد ریاستوں کا اصول شامل کیا جائے‘‘۔
اسی اصول کی بنیاد پر قائد اعظم نے ما رچ 1946 میں وزیر اعظم برطانیہ کو ایک خط میں لکھا کہ ’’ہندوستان کے مسلمان ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام چاہتے ہیں اور یہی ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل ہے‘‘۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے حصولِ پاکستان کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کی مرحلہ وار سیاسی تربیت کی۔ اگر ہم آپ کی 1937ء سے1947ء تک کی سیاسی زندگی کو دیکھیں تو ہمیں آپ کی تقاریر و بیانات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہوئی نظر آئے گی کہ قائد اعظم کے ذہن میں ابتدا ہی سے مسلمانوں کی آخری منزل تھی۔ 1934ء میں آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی بلکہ مسلمانوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ متحد ہوں جائیں اور کسی حتمی لائحہ عمل کے لیے تیار رہیں۔ فروری 1936ء میں آپ نے لاہور میں ایک تقریر کے دوران مسلمانوں سے کہا: میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ سکون اور امن سے رہیں اور میری کوششوں میں مجھ سے تعاون کریں تا کہ میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ آپ کی خدمت کرسکوں‘‘۔
1937ء میں ہی آپ نے فرمایا:’’اس وقت پورے ہندوستان میں مسلم یکجہتی کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ قومی اصولوں پر یقین رکھتی ہے اس لیے وہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے مسلم حقوق کا تحفظ چاہتی ہے‘‘۔ فروری 1940ء میں آپ نے اینگو اور نیٹل کالج دہلی میں ایک تقریر کے دوران فرمایا:’’جب میں یہ محسوس کروں گا کہ مسلمان جدوجہد کے لیے آمادہ ہو گئے ہیں تو پھر میں ان کو آگے بڑھنے کا حکم دوں گا‘‘۔ کسی پر بھی انحصار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم کو اپنی قوت پر انحصار کرنا ہے‘‘۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلسل حوصلہ افزائی اور سیاسی تربیت کے نتیجے میں مسلمانوں نے 23 مارچ 1940ء کو ایک علیحدہ خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ بعد میں یہ مطالبہ’’مطالبہٓ پاکستان‘‘ کے نام سے معروف ہوا اور اس مطالبے کو منظور کرانے کے لیے مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ 3 نومبر 1940ء کو قائد اعظم نے ممبئی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ مسلمان یہ بات ذہن نشین کرلیں گے کہ وہ اقلیت نہیں ہیں، وہ ایک قوم ہیں اور اس لحاظ سے ہمارا ایک علاقہ اور ایک علیحدہ ملک ہونا چاہیے‘‘۔ دسمبر 1940ء میں ممبئی ہی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’کسی بھی فرقہ یا قوم کی طاقت کا انحصار تین چیزوں پر ہوتا ہے: تعلیم، ترقی یافتہ تجارت اورشجاعت۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان اوصاف سے خود کو لیس کرلیں‘‘۔ 3 جنوری 1941ء کو آپ نے فرمایا:’’میں نے آج تک پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں سنی۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کے قیام سے ہندوستان کی فضا اور صورت حال مزید بہتر ہوجائے گی‘‘۔ مارچ 1941 ء میں کانپور میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’پاکستان کا قیام بہت ضروری ہے۔ اس بات پر جس قدر اصرار کیا جائے وہ کم ہے‘‘جنوری 1942 ء میں کلکتہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’گزشتہ دو صدیوں کے دوران مسلمانوں نے بہت کچھ کھویا اور سختیاں برداشت کیں۔ لیکن اب کھوئی ہوئی چیزوں کو واپس لینے کا وقت آگیا ہے۔ وقت ہمارے دعوے کی صداقت کا ثبوت دے گا‘‘۔
تحریکِ پاکستان کی عظیم ترین جدوجہد میں کامیابی کے بعد پاکستان کا حصول جہاں بانیٓ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور اعلیٰ سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا وہیں اس بے مثال قومی یکجہتی کا بھی مظہر تھا جس کی تعلیم قائد اعظم اپنی قوم کو مسلسل دیا کرتے تھے۔ آپ نے بار بار مسلمانوں سے فرمایا کہ ہماری نجات ہمارے مکمل اتحاد، باہمی اتفاق اور نظم و ضبط میں ہے، ہم امنِ عالم کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی تمام اقوام کے لیے بہت دوستانہ ہوگی۔ دنیا کی کوئی طاقت کسی منظّم قوم کے درست فیصلے کی مزاحمت نہیں کرسکتی۔ 30 اکتوبر1947 ء کو آپ نے یونیورسٹی اسٹیڈیم لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’کوئی قوم ابتلاء اور ایثار کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ ہم شدید دشواریوں اور ناگفتہ بہ مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہم خوف اور اذیت کے تاریک ایام سے گزرے ہیں، لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اتحاد، حوصلے، خود اعتمادی اور اللہ کی تائید سے کامیابی ہمارے قدم چومے گی‘‘۔
قائد اعظم محمد علی جناح ہر مشکل مرحلے پر اپنی قوم کا حوصلہ بڑھاتے رہے، اس کے اندر عزم اور یکجہتی کی روح پھونکتے رہے، کیونکہ آپ کا ایمان تھا کہ ہم جس قدر عظیم قربانیاں دیں گے اُسی قدر بہتر عمل اور کردار کا مظاہرہ کریں گے۔ 24 اکتوبر1947 ء کو آپ نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:’’آپ سب کے لیے میرا پیغام امید، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے۔ آئیے ہم باقاعدہ اور منظّم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کریں اور درپیش سنگین مسائل کا ایسے عزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریں جو ایک عظیم قوم کا وتیرہ ہوتا ہے‘‘۔
30 اکتوبر1947 ء کو ہی ریڈیو پاکستان لاہور سے قائد اعظم نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا:’’ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب اور تاریخ ہے، کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ کام، کام اور کام کریں۔ آپ یقیناََ کامیاب ہوں گے۔ اپنا نصب العین یعنی اتحاد، ایمان اور تنظیم کبھی فراموش نہ کیجیے‘‘۔
8 نومبر1947 ء کو قائد اعظم نے ایک بیان میں فرمایا:’’میں چاہتا ہوں کہ باوجود اُن خطرات کے جو ہمیں درپیش ہیں، آپ سب کامل اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کا وقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے ان خطرات کے درمیان سے کامیابی کے ساتھ گزر جائیں گے‘‘۔
بانیٓ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی جدوجہد، آپ کا عزم صمیم، آپ کی دردمندی اور آپ کے تدبر و حکمت کے پیش نظر اکثر سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے یہ بات کہی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کی ملتِ اسلامیہ اور خصوصاََ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام تھے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جب کسی قوم کی تقدیر بدلنا ہو اوراسے دیگر اقوام کے مقابلے میں سربلندی و سرفرازی کے مقام پر پہنچانا ہو تو وہ اُس قوم میں ایسے باکمال اور بلند مرتبت انسان پیدا کرتا ہے جو اپنی جرات و ہمت، تدبر و خلوص اور اصابتِ رائے سے اُس کی تقدیر بدل دیتے ہیں اور وہ قوم زندہ اقوام میں ایسا مقام حاصل کرلیتی ہے جس پر دنیا رشک کرتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایک ایسے ہی خاندان سے تھے جنہوں نے مایوسی اور ناامیدی کی فضا میں عزم و حوصلے کا چراغ جلایا اور اپنی لیاقت و ہمت، معاملہ فہمی، استقامت اور استقلال سے ایک ایسی مملکت وجود میں لانے کا عظیم کام سرانجام دیا جو آج بھی بین الاقوامی امور میں اپنا ایک اہم وجود رکھتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نزدیک پاکستان کا قیام ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ الثانیہ کی سمت میں ایک اوّلین قدم تھا۔ وہ قیام پاکستان کے بعد پورے عالم اسلام کو متحدو منظّم کر کے اس کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنا چاہتے تھے جیسا کہ قائد اعظم کی تقاریر، بیانات اور مختلف تحریروں سے ثابت ہے۔ آپ نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا:’’یاد رکھیے کہ قیام پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تاریخِ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاریخِ عالم کی عظیم ترین مسلم مملکتوں میں اس کا شمار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا شاندار کردار ادا کرنا ہے۔صرف شرط یہ ہے کہ ہم دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔ مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے کہ وہ ہر موقع پر خود کو اسلامی تاریخ، عظمت اور روایات کا امین ثابت کرے گی‘‘۔
آج قیام پاکستان کو 70 سال کا عرصہ گزر چکا ہے،اس دوران ہم نے قائد اعظم کی ہدایت اور خواہش کے مطابق قومی اور بین الاقوامی امور میں کیا وہی کردار ادا کیا ہے جس کی قائد اعظم ہم سے توقع رکھتے تھے؟ اس سوال پر ہم کو بحیثیت قوم ضرور غور کرنا چاہیے۔
پاکستان زندہ باد ۔۔۔