اس وقت میدان سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہورہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کون فتح یاب ہوگا؟ علم غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوۂ صبر و رضا پہ کاربند ہوں اور اس ارشاد خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں ۔ہم تعداد میں کم ہونے کے باجود فتح یاب ہونگے اور اسی طرح فتح یاب ہونگے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و رو م کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے تھے۔ ( حیدر آباد دکن میں جلسۂ عام سے خطاب 11جولائی 1946 ء )
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنۂ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرؐ اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات و اصولوں پر رکھیں ( شاہی دربار ، سبی بلوچستان میں خطاب 14فروری1948 ء)
یاد رکھیے کہ پاکستان کا قیام ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں مل سکتی۔یہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہے اور اگر ہم نے دیانت داری ، تن دہی اور بے غرضی کے ساتھ کام کریں تو یہ بھی سال بہ سال شاندار ترقی کرتی رہے گی۔مجھے عوام پر کامل بھروسہ ہے اور یقین ہے کہ ہر موقع پر وہ اسلام کی تاریخ، شان وشوکت اور روایات کے مطابق عمل پیرا ہونگے۔ ( پاکستان کی پہلی سالگرہ14اگست 1948 ء پر قائد اعظم ؒ کا بیان )
پاک سرزمین پاکستان کا 70واں یوم آزادی منایا جارہا ہے۔میں نے مضمون کی ابتدا حضرت قائد اعظم ؒ کے تین اقوال سے کی ہے۔ ان تنیوں میں اسلام، اسوۂ رسولؐ ، امت اور اسلامی اصولوں کی بات کی گئی ہے۔ یہ اقوال تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کی بات کرتے یں، جشن آزادی مناتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ اس کی غرض و غایت یہی تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق قانون سازی کرکے ایک عظیم اسلامی مملکت قائم کی جائے۔
ارض وطن جس کے حصول کے لیے دہائیوں تک جدو جہد کی گئی ، گردنیں کٹوائی گئیں،عصمتیں لٹیں،جوا ن اولاد کے لاشے اٹھائے ، صرف اس لیے کہ ہم ایک آزاد اسلامی ملک قائم کرسکیں لیکن بد قسمتی ۔۔۔۔۔۔ بد قسمتی سے حضرت قائد اعظمؒ قیام پاکستان کے بعد زیاد ہ عرصہ حیات نہ رہے۔موت نے ان کو مہلت نہ دی اور وہ پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر میں تبدیل نہ کرسکے۔ان کے بعد ان کے دیرینہ رفیق اور تحریک آزادی کے ساتھی قائد ملت خان لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیا۔
اس کے بعد عنان حکومت لبرل، سیکولر،عناصر کے ہاتھوں میں آگئی۔ان مفاد پرست لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کیا،ملک کو انتشار میں مبتلا کیا۔وہ پاکستان جسے ملک دنیا کے لیڈر کا کردار ادا کرنا تھا، جسے عالمی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا تھا اسے امریکہ اور مغربی طاقتوں کا باج گزار بنا دیا گیا۔وہ پاکستان جسے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانی تھی، وہ اپنے ہی ایک حصے کشمیر کو بھارت سے آزاد نہیں کر اسکا ہے۔
میڈیا پر آج کل ایک بات کا بڑی شدو مد سے چرچا کیا جاتا ہے کہ ’’ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے ‘‘ ایسا کہنے والے قائد اعظم کے لاتعداد اقوا ل اور تقاریر جو کہ اسلام، اسوہ حسنہ ، امت مسلمہ اور اسلامی بھائی چارے سے متعلق ہیں ان اقوال کو چھوڑ کر ان کے چند ایک ایسے اقوال کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں جس میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کی گئی ،یہ سیکولر عناصر ان اقوال کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ قائد اعظم اسلامی ملک کے بجائے سیکولر اسٹیٹ حاصل کرنے چاہتے تھے۔ایسے تمام افراد کی خدمت میں ہم قائد اعظمؒ کے ایک انٹرویو کا اقتباس پیش کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے آسٹریلیا کے ایک نامہ نگار کو 30اکتوبر 1947 ء میں دیا تھا۔آپ نے فرمایا ’’ پاکستان دنیا کے نقشے پر جو لاتعداد ممالک سے بھرا پڑا ہے، محض ایک اور نام کا اضافہ نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کی طویل صف میں ایک نہایت اہم اضافہ ہے۔آسٹریلیا کے پیغامات اور مراسلات بحیرہ روم اور یورپ تک اسلامی دنیا سے ہی گذر کر ہی پہنچ سکتے ہیں۔پاکستان قدرتی طور پر اسلامی ممالک سے بہتر قریبی تعلق رکھتا ہے۔( آسٹریلیا کے نامہ نگار کو انٹرویو30اکتوبر1947 ء)
آیئے زرا یہ دیکھیے کہ 24دسمبر 1947 ء کو شرق اوسط کے سفیر کا استقبال کرتے ہوئے کیا کہا تھا۔’’ اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے۔ اسلام نے ثقافتی اور تہذیبی ماضی اور ہماری گذشتہ روایات کو عرب دنیا سے اتنا وابستہ گہرا،قریب کررکھا ہے کہ اس امر میں تو کسی کو شبہ ہی نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عربوں اور ان کے مسائل اور مقاصد سے مکمل ترین ہمدردی رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ذرا یہ بھی دیکھیے کہ قیام کے اگلے سال عید کے موقع پر آپ نے عالم اسلام کو عید کا پیغام کن الفاظ میں دیا تھا۔’’تمام اسلامی مملکتوں کو عید مبارک ہو۔میرا عید کا پیغام سوائے دوستی اور بھائی چارے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ہم سب یکساں طور پر خطرناک اور کٹھن دور سے گذر رہے ہیں۔سیاسی اقتدار کا جو ڈرامہ فلسطین، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جارہا ہے ٗ وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے ۔ ہم اپنے اسلامی اتحاد ہی کے ذریعے دنیا کے مشورہ خانوں میں اپنی آواز کی قوت محسوس کرا سکتے ہیں ( 28اگست1948 ء عالم اسلام کے نام عید کا پیغام )
آج جب دنیا بھر میں مسلمانوں پرہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’ کیا ہم نے پوری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟‘‘ان کی خدمت میں ہم کریں گے کہ ہاں ہم نے پوری دنیا کا تو نہیں لیکن عالم اسلام کا ٹھیکہ ضرور لے رکھا ہے اور یہ درس ہمیں حضرت قائد اعظم ؒ نے ہی دیا ہے۔ آج ہمارا میڈیابرما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی کوریج کا بائیکاٹ کرتا ہے اور کوئی خبر جاری نہیں کی جاتی، فلسطین میں اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا جاتا ہے، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جاتے ہیں، آئے روز کشمیر میں بے گناہوں کو شہید کیا جاتا ہے ، درجنوں افراد زخمی ہوتے ہیں لیکن ہماری حکومت اور ہمارا میڈیا اس پر آوا ز نہیں اُٹھاتا ہے۔ جبکہ بانئ پاکستان قائد اعظمؒ نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے وقت سے ہی اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی تھی جبکہ اس وقت پاکستان قائم بھی نہیں ہوا تھا۔
آیئے دیکھیں کہ فلسطین کے بارے میں قائد اعظم ؒ کے خیالات و نظریات کیا تھے؟’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اللہ خان نے کردی ہے۔مجھے اب بھی یہ امید ہے کہ تقسیم کا منصوبہ مسترد کردیا جائے گا ٗ ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہونا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبۂ تقسیم کو نافذ کرنے والے اختیار کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس کے فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی، کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جاسکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ اس صورت میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خوامخواہ اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروے کار لائے۔ ( رائٹر کے نمائندے کو انٹرویو25اکتوبر1948 ء
یہ سارے اقوال دیکھ لیں، یہ ساری باتیں سن لیں۔ اس کے بعد ہم سیکولر عناصر سے، حکومت سے اور مقتدر قوتوں سے یہی کہیں گے کہ ہاں ’’ ہمیں بھی قائد اعظم کا پاکستان چاہیے‘‘ ان اقوال کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ قائد اعظم ؒ پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ نہیں بلکہ اسلامی سلطنت بنانا چاہتے تھے۔ ہمیں کسی ملا کا ، کسی سیاسی جماعت کا ، کسی فرقے کا پاکستان نہیں چاہئے، ہمیں کوئی امن کی آشا نہیں چاہیے جو دو قومی نظریے کی نفی کرتی ہو،ہمیں سب سے پہلے پاکستان کا گمراہ نعرہ بھی نہیں چاہیے بلکہ قائد اعظم کا پاکستان ہی چاہئے۔ہمیں قائد اعظم کا پاکستان دیدو۔
پاکستان زندہ باد