December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

’’ پاکستان کا قیام اسلامی نظام‘‘

محمد یوسف منصوری

قائد اعظم نے سیکڑوں بار اپنی تقاریر میں اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان کا قیام صرف اور صرف اسلام کا عملی نفاذ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی آرزو تھی کہ خلافت راشدہ کی طرز پر ریاست قائم ہو۔ جس کا بار بار اپنے عمل سے اظہار کرتے رہے، کبھی شاہ اسماعیل شہید ؒ تحریکِ مجاہدین کی شکل میں تو کبھی 1857ء کی جنگ آزادی کی صورت میں، اور آخر کار مولانا محمد علی جوہر ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریکِ خلافت کی صورت میں، جو تحریک پاکستان کی بنیاد بنی اور 23مارچ کو قرار داد پاکستان منظور کر کے اپنی آرزو کو ایک مجسم شکل دے دی۔ یہ تحریک اقلیتی صوبوں میں شروع ہوتی ہے اور پورے برصغیر میں پھیل جاتی ہے اور صرف 7سا ل کی مدت میں برطانیہ اور برہمن سامراج کے مقابلے میں پاکستان بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یہاں خلافت راشدہ کی طرز پر اسلامی حکومت کیوں قائم نہیں ہوئی؟ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کی دعوت اس خطے سے زیادہ تر داتا گنج بخش ؒ ، نظام الدین اولیا ؒ ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ  اور دیگر صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کے ذریعے پھیلی، اسی وجہ سے عبادات اور اوردوظائف پر زور دیا گیا اور چند اسلامی رسوم اختیار کیا گیا، مکمل اسلامی نظام کی شکل میں اس پر عمل کرنے کی پیاس پیدا نہیں ہوسکی، وقتی جوش کی وجہ سے بار بار دبی ہوئی خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد مقتدر قوتوں نے اس مغربی جمہوریت کے طرز پر چلانے کا فیصلہ کیا، انگریز نے ان کو یہی سبق پڑھایا تھا۔ 1946ء کے انتخابات میں وڈیرے، جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کی ابھرتی لہر کو اپنے قابو میں لینے کے لیے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ ان عناصر نے افسر شاہی اور فوجی افسر کو اپنے ساتھ ملا کر جمہوریت کے ذریعے ملک پر قبضہ کر لیا، لیاقت علی خان ؒ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے تو بھرے جلسے میں ان کو شہید کر دیا گیا، 1958ء میں فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا اور بنیادی جمہوریت کے خود ساختہ نظام کے ذریعہ اپنے قبضے کو دوام دینے کی کوشش کی، جس کو ملک کی اکثریت نے دل سے قبول نہیں کیا۔ 68ء میں عوام نے زبردست تحریک چلا کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اب ذولفقار علی بھٹو جو بہت بڑا جاگیردار تھا، نے جمہوریت کے ذریعے ملک پر قبضہ کر کے اس میں اشتراکیت کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی پھر عوام نے نظام الشان اور شان دار تحریک چلا کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ اب شیطانی قوتوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ یہ ملک اسلام کا گہوارہ بن جائے گا۔ چنانچہ باطل قوتیں پھر حرکت میں آ گئی اور مذاکرات کے تقریباََ کامیاب ہوجانے کے باوجود جنرل ضیاء الحق نے ملک پر قبضہ کر لیا اور دکھاوے کے لیے چند اسلامی اصلاحات کر کے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کر دیا۔ مجبوراََ غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس سے علاقی اور لسانی تعصّبات نے فروغ پایا۔ افغان جہاد کی وجہ سے فوج کے خلاف لوگ تحریک نہ چلا سکے مگر امریکا نے اپنے مرضی کے فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے جنرل کو مروا دیا۔ اس کے نتیجے میں سیاست قیادت حکومت کرنے لگی اب امکانات پیدا ہوئے کہ ملک صحیح راستے پر چل پڑے گا تو پھر افسر شاہی سے ملی بھگت کرکے فوج نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں ملک پر کنٹرول حاصل کرلیا اور پورا ملک امریکا کے لیے نرم چارہ بنا دیا گیا۔
سیاسی قوتوں نے سمجھ داری سے کام لے کر جنرل کو ملک سے باہر نکال دیا۔ جب فوجی سربراہ پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تو اندر اور باہر کی قوتوں نے جنرل کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ فوج کے آنے کے امکانات بالکل معدوم نہ ہوجائیں۔
ملک میں مختلف قسم اسلامی قوتیں پائی جاتی ہیں۔ جو اپنے اپنے طور پر اسلامی حکومت اور اسلامی طرز زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ منتشر ہونے کی وجہ سے یہ قوتیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ جماعت اسلامی خالصتاََ نبی اکرم ﷺ کے طریقے پر نظام حکومت قائم کرنے میں کوشش کر رہی ہے اس کے پلے چند سیٹوں کے علاوہ کوئی کامیاب نہیں ہوئی۔ تبلیغی جماعت اپنے مخصوص انداز پر اصلاح معاشرہ کا کام کر رہی ہے۔ اسی طرح تنظیم اسلامی، جمعیت علماء اسلام کے مختلف گروپس اور جمعیت علماء پاکستانی، سنی تحریک اور اہل سنت وغیرہ قوتیں کام کر رہے ہیں۔ اگر یہ سب قوتیں مل کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں یا اسلامی عناصر اتنا فیصلہ کر لیں کہ ایک دوسرے کے خلاف کام نہیں کریں گے تو بھی معاشرہ کی اصلاح کو عمل تیز رفتار ہوجائے گا۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی تکمیل ہوجائے گی۔