سلیم اللہ شیخ
آج یومِ آزادی منائی جارہی ہے۔ ہر سال جب اگست کا مہینہ آتا ہے تو اہلِ وطن جشنِ آزادی کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں، گلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں جھنڈیوں اور بیجز کے اسٹال لگ جاتے ہیں، ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار آجاتی ہے، لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر ذوق و شوق سے جھنڈے لگاتے ہیں، گلیاں جھنڈیوں سے سجائی جاتی ہیں، کئی علاقوں میں 13 اور 14 اگست کی رات کو چراغاں کیا جاتا ہے۔ بیشتر علاقوں میں نوجوان بڑی عقیدت اور جوش و جذبے اور محنت سے پاکستان کے نقشے بناتے تھے، اس کو مختلف رنگوں سے سجا کر پاکستانی ثقافت اور وطنِ عزیز کے مختلف خطوں کے ماڈل بنا کر عام نمائش کے لیے رکھ دیتے ہیں، یہ ایک بہت اچھی اور مثبت سرگرمی ہوتی ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب 13 اور 14 اگست کی راتوں کو گھی کے چراغ جلائے جاتے تھے، کراچی کے کئی علاقوں میں چندہ جمع کرکے ’’پردے ‘‘ پر پاکستانی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ پردے پر فلم دکھانے کا رواج تو عرصہ ہوا ختم ہوا لیکن دیگر تقریبات اسی طرح جاری و ساری تھیں لیکن رفتہ رفتہ اس میں بھی کمی ہوتی گئی۔
مجھے جشن آزادی کے موقع پر اب وہ روایتی جوش خروش نظر نہیں آتا جو کہ اس دن کے لیے مخصوص ہے، ہاں اب چند برسوں سے اگر نظر آتا ہے تو وہ نوجوانوں کا بے ہنگم شور شرابہ ہے، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ جشن آزادی منانے کا یہ کون سا طریقہ ہے کہ موٹر سائیکلز کے سائلنسر نکال کر کانوں کو پھاڑ دینے والا شور برپا کردیا جائے، لاؤڈ اسپیکر پر اونچی آواز میں بھارتی گانے بجائے جائیں، سڑکوں پر اوور اسپیڈ اور ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جائے۔ کیبل کلچر، نجی چینلز پر بھارتی ثقافت کے پرچار اور امن کی آشا کے راگ الاپنے سے یہ نقصان ہورہا ہے کہ اب ہم 14 اگست کو محض ایک عام تعطیل سمجھ کر مناتے ہیں صرف ایک چھٹی کا دن۔
ہم یہ بھولتے جارہے ہیں کہ اس تاریخی دن کا پس منظر کیا ہے؟؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارے آباؤ اجداد نے کتنی جدوجہد، کتنی محنت، سے یہ وطن حاصل کیا تھا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطے کو حاصل کرنے کے لیے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی۔ لوگوں نے اپنے بھرے پورے مکانات چھوڑ دیے، ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کردیں، ہزاروں عفت مآب خواتین کی چادرِ عصمت کو تار تار کردیا گیا، ماؤں کے سامنے ان کے ننھے منے اور معصوم جگر گوشوں کو ذبح کیا گیا۔ یہ سب کس کے لیے کیا گیا تھا؟؟
یہ سب کلمہ لا اِلہ الا اللہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس وقت گلی گلی میں نعرہ گونجتا تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلہ الا اللہ ‘‘ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پورے برصغیر کے مسلمان ایک ہوگئے تھے، اس وقت کوئی بنگالی، سندھی، بلوچ، پٹھان، گجراتی، میمن، پنجابی اردو بولنے والا نہیں تھا بلکہ صرف مسلمان تھا، اسی جذبے کے تحت لوگوں نے قربانیاں دیں، اسی جذبے کے تحت برصغیر کے مسلمانوں نے ہجرت کی، انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی ایک سنت پر عمل کیا تو دوسری طرف کے مسلمانوں نے انصار کے جذبے کی یاد تازہ کردی اور اپنے لٹے پٹے بھائیوں کو گلے سے لگایا، ان کے زخموں پر مرہم رکھا، ان کی دلجوئی کی اور ان کے دکھ درد کو بانٹنے کی کوشش کی۔
لیکن اب پتہ نہیں وہ جذبہ کہاں چلا گیا ہے؟؟ اب وہ جوش و خروش، وہ جذبہ وہ جنون کچھ ماند پڑ گیا ہے۔ اور اس کی وجہ بھائیوں کے درمیان پھیلائی گئی غلط فہمیاں ہیں۔ ہمارے درمیان عصبیتوں کی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں، ہم ذات پات، فرقے اور مسلکوں میں بٹ گئے ہیں۔ اس پر مستزاد دہشت گردی کی وارداتوں میں معصوم اور بے گناہوں کا اجتماعی قتل، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، خود کش حملے۔ پے درپے سانحات کے باعث اب لوگ کسی بھی سانحے پر زیادہ بات نہیں کرتے کہ اب یہ معمول کی بات بن گئی ہے۔
ان باتوں سے حوصلہ پاکر ازلی دشمن کو بھی یہ حوصلہ ہوا کہ ایک بار پھر سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ اب اس ملک میں کوئی متحد قوم، کوئی ملت نہیں رہتی بلکہ منتشر انسانوں کا ایک مجمع ہے اور میں بہت آسانی سے ان کو ایک بار پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لوں گا۔ لیکن وہ بھول گیا کہ یہ قوم پے در پے سانحات کے باعث صدمے کی کیفیت میں ضرور ہے لیکن بے حس نہیں ہوئی ہے، ہمارا جذبہء جنوں کچھ کمزور ضرور ہوا ہے لیکن ختم نہیں ہے۔ آئیے 14 اگست کو ہم عہد وفا کی تجدید کریں، اپنے رب کے حضور یہ وعدہ کریں کہ یہ ملک جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا ان مقاصد کو پورا کریں گے۔ آئیے 14 اگست کے دن ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عصبیت، فرقہ واریت، لسانیت کے بتوں کو توڑ ڈالیں اور سب یک زبان ہوکر کہیں کہ
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں
آئیے ملک کر نعرہ لگائیں
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلہ الا اللہ
تیرا میرا رشتہ کیا ؟ لا اِلہ الا اللہ
تمام اہل وطن اور دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو جشنِ آزادی مبارک ہو۔ پاکستان زندہ باد