December 18th, 2025 (1447جمادى الثانية27)

قصہ ایک قیمتی ملاقات کا

 ربیعہ علی

گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے اجتماع کی سب سے نمایاں اور خاص بات اسلامی ممالک کے مندوبین کی کہکشاں تھی، ایک ایسا اکٹھ جس کی کوششیں برسوں سے جاری تھیں،مگر کوئی ملک تیار نا تھا اتنی بڑی تعداد میں مختلف قومیتوں کے تحریکی لوگوں کی میزبانی کے لیے۔ بالآخر یہ اعزاز وطن عزیز کے حصے میں آیا (لاکھ برا کہہ لیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ امت کے ساتھ کھڑا رہا ہے) ، سہرا جماعت اسلامی اور حکومت پاکستان کے نام جنھوں نے اسے ممکن بنایا۔ دل سے شکریہ!
تو اس کہکشاں کا سب سے روشن ستارہ وہ تھے جو ارض قبلہ اول سے آئے تھے
ڈاکٹر ابو عاصم مروان ابو راس، ف۔ل۔س۔طی۔ینی پارلیمنٹ کا حصہ (گو کہ حکومت معزول کردی گئی ہے، مگر گزشتہ حکومت اسے غیر قانونی سمجھتی ہے، اس لیے اپنے آپ کو حاضر سروس ہی شمار کرتے ہیں)۔ ڈاکٹر مروان کا تعلق دلیروں کے شہر غ سے ہے، وہاں وہ غ اسلامک یونیورسٹی میں اصول الدین(اسلامیات) فیکلٹی کے ڈین ہیں۔ ایک متحرک علمی اور جہاندیدہ شخصیت۔ ان کا ایک کارنامہ جانبازوں کے سیاسی اور عسکری ونگ میں اتحاد کروانا ہے (یہ ذرا حساس کہانی ہے،پھر سہی)، جس کی پاداش میں  2003 میں دشمن نے ان کے گھر پر ایک میٹنگ کے دوران ڈائریکٹ ایف 16 سے حملہ کیا تھا، جس میں ڈاکٹر صاحب شدید زخمی ہوگئے تھے۔ مگر اللہ تعالی نے ان سے کام لینا تھا،چنانچہ شفایاب ہوگئے۔
ڈاکٹر صاحب مختلف ممالک میں علمی دوروں پر جاتے ہیں، جنگ سے چار ماہ قبل دو تین ممالک کے دورے پر تھے، مگر واپسی چاہی تو مصری حکومت نے انکار کردیا، بھاگ دوڑ کے بعد وہ اس پر راضی ہوئے کہ ایک ماہ بعد آپ غ جاسکیں گے، ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ اس وقت اسطنبول میں تھے، چنانچہ ایک ماہ بعد کی واپسی کی سیٹ کروائی گئی ،7 اکتوبر 2023 دوپہر ایک بجے ان کی فلائٹ تھی، سامان سب بندھا ہوا تھا، ادھر ان کے بچے منتظر تھے، مگر صبح چھ بجے جانبازوں نے تاریخ کا دھارا بدلنے کی ٹھان لی تھی۔ چنانچہ سامان بندھا کا بندھا رہ گیا، اور تب سے ڈاکٹر صاحب اپنی بیگم کے ساتھ ترکیا میں ہی قیام پذیر ہیں۔ وہیں سے یہ اپنے ڈین ہونے کی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔ساتھ ساتھ ترکیا کے ایک ادارے لجنۃ القدس کے ممبر ہیں، جس کے تحت مختلف رفاہی اور تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ قطر، مصر، لیبیا، اردن وغیرہ کے بھی چکر لگاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا سب سے بڑا بیٹا عاصم جانبازوں کے ایک انجنئیرنگ یونٹ کا اہم حصہ تھا، اور 2006 میں محض بیس سال کی عمر میں دشمن کے میز۔ا۔ئل کا شکار ہوکر امر ہوگیا تھا (اس کی کہانی ایک علیحدہ مضمون میں)۔
بہرحال اجتماع سے اگلے دن بطور مترجم ڈاکٹر ابو عاصم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، مختصر سی بیٹھک تھی، تیس پینتیس افراد، سفید عربی ثوب میں ملبوس ڈاکٹر صاحب سے نور پھوٹتا محسوس ہورہا تھا (میرا ایسا پہلا تجربہ تھا) اتنا کہ آپ انھیں نظر بھر کا نا دیکھ سکیں۔ بات شروع کی، شکریہ ادا کیا، اہل غ کی جانب سے ہمیں سلام پہنچایا، اور کہا کہ پاکستان پہلی بار آیا ہوں، اور جیسا سوچتا تھا پاکستانیوں کے بارے میں ،جیسی توقعات تھیں اس سے بڑھ کر پایا سب کچھ، حسین ملک، خوبصورت لوگ (ڈاکٹر صاحب اسلام آباد اور پشاور کی سیر کے بعد لاہور آئے تھے)۔ پاکستان opportunities سے بھرا ملک ہے۔ اہل ف۔لس۔ط۔ی۔ن آپ سے محبت کرتے ہیں۔ پھر انھوں نے مسجد اقصی اور سررزمین قبلہ اول کی اہمیت بیان کی۔ اور یہ کہ کس طرح دشمن کھلم کھلا وہاں دراندازیاں کرتا پھرتا ہے۔ کتنے سالوں سے اہل غ دہائیاں دے رہے تھے، خبردار کررہے تھے کہ قبلہ اول کو بچالو، دشمن اس کی بنیادیں کمزور کررہا ہے، مگر امت کے ان پر جوں تک نا رینگی، اور پھر جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تو طوفان کا آغاز ہوا، جانبازوں نے سوچا تھا کہ ہم میدان تیار کردیں گے، تو مسلمان دوڑے آئیں گے، مگر افسوس مسلمان بیدار نا ہوسکے، اور غ تباہ و برباد ہوگیا۔ کوئی عمارت ،کوئی ہسپتال، کوئی سکول، یونیورسٹی کچھ سلامت نہیں رہا۔ 
یہ سب بتانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جوش سے کہا مگر میں آپ کو بتادوں کہ م۔۔ج۔۔ا۔۔۔د۔۔ین خیریت سے ہیں، ان کی ہمت جوان اور عزم توانا ہے، وہ آپ سے محبت کرتے ہیں، جب جب آپ ان کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، ان کے لیے نکلتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں، تو ان کی ہمت طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
لوگوں نے پوچھا ہم کیا کرسکتے ہیں ان کے لیے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا بس آپ ان کا ساتھ دیتے رہیں، یہی درکار ہے، ان کی آواز بنے رہیں، انھیں بھلائیں نا۔
جاری ہے
لا غالب الا اللہ