مسلمان جرنیل اور ان کی فتوحات
بچو آج ہم آپ کو اسلامی تاریخ کے بہت سے بہادر فوجیوں کے بارے میں بتائیں گے، جنہوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی وجہ سے ایسی فتوحات حاصل کیں جو ناقابل تسخیر تھیں اور دنیا کو حیران کر دیا۔ ان بہادر ہستیوں کو تاریخ میں سنہرے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر ہم کر رہے ہیں۔
عمر بن خطابؓ:
حضرت عمر بن خطابؓ کو تو آپ جانتے ہی ہیں یہ اسلامی تاریخ کے دوسرے خلیفہ تھے اور ان کے دورِ خلافت میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں اور دینِ اسلام پوری دنیا میں پھیلا۔ حضرت عمرؓ کے والد کا نام الخطاب تھا۔ یہ تاریخ کے سب سے طاقتور اور با اثر حکمران تھے۔ یہ مکہ میں شروع کے دور میں ہی ایمان لے آئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اسلام دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھرا تھا۔ فارس اور بازنطین (مشرقی رومن) جو دنیا کی بڑی طاقتیں تھیں حضرت عمر کے دورِ خلافت میں فتح ہوئیں صرف دس سال کی مختصر مدت میں فارس، بازنطین، شام، فلسطین، مصر اور ترکی کا کچھ حصہ اسلام کے زیر دست آگیا۔ حضرت عمرؓ محض ایک فاتح ہی نہیں تھے بلکہ بہترین منتظم بھی تھے۔ انہوں نے دنیا کو ایک ایسا زبردست اور منظّم نظام قائم کر کے دکھایا جسے آج بھی دنیا کے بہترین ممالک اپنا کر ترقی کر رہے ہیں۔
ہمارے پیارے نبیﷺ حضرت عمر فاروقؓ سے بے انتہا محبت کیا کرتے تھے۔ ایک بار اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگ رسول نہیں تھے لیکن اس کے باوجود اللہ سے بات کیا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔
حضرت علی ابن طالبؓ:
حضرت علیؓ پیارے نبیﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے۔ انہوں نے نبیﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کی۔ حضرت علیؓ بے حد بہادر انسان تھے، جس کام کو کرنے کا سوچتے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ جنگ کے میدان میں بڑے بڑے بہادر جنگجو بھی حضرت علیؓ کو زیر نہیں کر سکے۔ وہ بے حد عقلمند اور ذہین صحابی تھے۔ ایک بار صحابہ کرام خیبر کی جنگ میں قلعے کو فتح نہیں کر پارے تھے، یہاں تک کہ صحابہ کرام کی ہمت جواب دینے لگی اس وقت حضرت علیؓ کے ہاتھ میں علم آیا اور انہوں نے اپنے بازو سے خیبر کا دروازہ اکھاڑ پھینکا۔ اس دروازے کو کھولنے کے لئے بھی چالیس لوگ درکار ہوتے تھے۔ اس واقعے کے بعد حضرت علیؓ کو حیدر کا خطاب ملا جس کا مطلب ’اللہ کا شیر‘ ہے۔
حضرت خالد بن ولید:
حضرت خالد بن ولیدؓ کا لقب سیف اللہ تھا، سیف اللہ کا مطلب ہے ’اللہ کی تلوار‘۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بہت مختصر افواج کے ساتھ بازنطین اور فارس جیسے عظیم طاقتوں کو اکھاڑ پھینکا۔ ان کی ساری زندگی جنگ کے میدان میں گزری لیکن وہ شہید نہیں ہوئے جس کا انہیں آخری وقت میں بہت دکھ تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی تلوار تھے اور اللہ کی تلوار کبھی ٹوٹ نہیں سکتی۔ وہ جس جنگ میں حصہ لیتے اس جنگ کو جیت جاتے تھے۔
طارق بن زیاد:
طارق بن زیاد موسیٰ بن نُصیر کے غلام تھے، موسیٰ بن نُصیر نے انہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا تھا۔ طارق بن زیاد اپنی فوج لے کر اسپین کے ساحل پر اترے اور اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالیں اوراپنی فوج سے کہا فتح یا شہادت، اسکے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے اور پھر مسلمانوں نے اسپین کو فتح کر لیا۔ یہ مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
محمد بن قاسم:
محمد بن قاسم محض سترہ برس کے تھے جب انہوں نے راجہ داہر کی فوج کو شکست دی۔ راجہ داہر ایک ہندو راجہ تھا اس نے چند مسلم خواتین اور بچوں کو اپنا یرغمال بنا لیا تھا۔ ان خواتین میں سے ایک نے مسلم حکمرانوں کو دہائی دی، جب اس وقت کے مسلم حکمران کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے محمد بن قاسم کو فوج لے کر سندھ کی طرف بھیجا تا کہ وہ ان خواتین اور بچوں کو آذاد کرواسکے۔ محمد بن قاسم وہ سپہ سالار تھا جس نے پہلی بار ایشیا میں اسلام متعارف کروایا۔
محمود غزنوی:
محمود غزنوی غزنی کے حکمران تھے یہ جگہ افغانستان میں واقع ہے۔ انہوں نے برصغیر میں ہندوؤں سے جنگ کی اور ہندوؤں کے سب سے بڑے مندر سومنات پر سترہ حملے کئے اور کامیاب ہو کر مندر میں موجود تمام بت گرا دیئے، ان میں سومنات نامی بت سب سے مشہور ہے۔ اس کے بارے میں ہندوؤں کا کہنا تھا کہ اسے کوئی فتح نہیں کر سکتا اور نہ اسے توڑا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہندوؤں نے محمود غزنوی کو بت نہ توڑنے پر بیش بہا قیمت دینے کی پیش کش کی، جسے انہوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ میں بت فروش نہیں بت شکن کہلانا پسند کروں گا اور سومنات کا بت توڑ دالا۔
نورالدین زنگی:
نورالدین زنگی ترک زنگی خاندان کا ایک بہت طاقتور حکمران تھا۔ اس نے شام میں صیہونیوں کے خلاف جنگ لڑی اور انہیں شکست دی۔ وہ ایک رحم دل اور زیرک بادشاہ تھا۔ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بے شمار کام کئے۔ یونیورسٹیز قائم کیں، ان جامعات میں قرآن اور حدیث کی مکمل تعلیمات دی جاتی تھیں اور وہاں پڑھنے والے طالب علموں کو ڈپلومہ کی ڈگری دی جاتی تھی۔ نور الدین زنگی خود بھی حدیثیں پڑھنے کا شوقین تھا۔ ان کے استادوں نے انہیں حدیث میں ڈپلومہ کی ڈگری سے نوازا تھا۔ اس نے مفت علاج کے لئے شہروں میں ہسپتال قائم کئے۔ حاجیوں کے لئے سڑکیں بنائیں۔ سراگاہیں قائم کیں، ہفتے میں کئی دن عوام کے مسائل سننے کے لئے عدالت قائم کرتا اور لوگوں کو انصاف مہیا کرتا تھا۔ اس کا انصاف امیر غریب سب کے لیے یکساں تھا جو بھی زیادتی کرتا اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی تھی۔
صلاح الدین یوسف ابن عباس:
سلطان یوسف ابن عباس نے مصر، شام اور فلسطین کو متحد کیا۔ ہتھن کی جنگ میں فتح حاصل کی، اس کے علاوہ یروشلیم کے کئی حصے صہیونیوں سے واپس لئے اور مسلمانوں کو ایک نئی طاقت دی۔
ٹیپو سلطان:
ٹیپو سلطان میسور کے ٹائیگر کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ میسور کے حکمران تھے۔ انہوں نے برطانوی فوج کے ساتھ سخت مقابلہ کیا انہوں نے اپنی فوج میں ایک انٹلی جینس بنائی اور کئی سالوں تک برطانوی فوج کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کے اپنے قریبی لوگوں نے انہیں دھوکہ دیا اور برطانوی فوج سے جا ملے اور ٹیپو سلطان کو شہید کردیا۔ ان کی شہادت کے کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود برطانوی فوج خوف سے ان کی لاش کے قریب نہیں آئی۔ سلطان ٹیپو حقیقت میں ایک شیر تھے۔ ان کا قول ہے کہ
گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
سلطان ٹیپو نے اس قول پر عمل کر کے دنیا کو دکھایا۔ وہ ایک بہت بہادر بادشاہ تھے۔