November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

پردہ معاشرے میں توازن پیدا کرتا ہے

نبیلہ مسعودعالم

اسلام دین فطرت اور ضابطہ حیات ہے اس ضابطہ حیات میں ہر مخلوق جس میں انسان بھی شامل ہے اس کی حفاظت وہ تکریم کے لیے قواعد مقرر کیے گئے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے میں نہ کوئی دقت پیش آتی ہے اور نہ ہی فطرتِ سلیم انہیں قبول کرنے میں گرانی محسوس کرتی ہے، اسلام ہمیں بہترین اور باوقار زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے جس کے لیے تعزیری قانون نافذ کیے گئے ہیں تاکہ عزت نفس مجروح کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے۔ اسی طرح اسلامی شریعت نے عورت کی حفاظت کے لیے پردے کا حکم دیا جو کہ قابل فخر اور دینی روایت بھی ہے، عورت کو پردے کا حکم دے کر عزت اور تکریم کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کیا۔ سورہ الاحزاب آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی تمام بیویوں اور تمام مسلم عورتوں کے لیے جلباب کا حکم دیا ہے۔ جلباب دراصل ایک بڑی چادر کو کہا جاتا ہے، سیدنا عمرؓ سے جلباب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ایک چادر اپنے اوپر یوں اوڑھ لی جس سے پورا جسم ڈھکا ہوا تھا سواء ِ ایک آنکھ کے جو نظر آرہی تھی۔

آگے آیت میں پردے کی فرضیت میں حکمت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ عورتوں اور مردوں کے دلوں کی پاکیزگی کا باعث ہے اور برائی کے اسباب کو دور کرنے والا ہے۔ نیز یہ کہ اسی ذریعے سے عورتیں امن اور سکون میں رہیں گی تو معاشرے میں بھی امن اور سکون ہوگا۔

اسلام کی نظر میں عصمت، عفت، نیکی اور پاکیزگی کی بہت اہمیت ہے اچھے اخلاق دین اور دنیا کی بڑی دولت ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا امن و سکون ختم ہو جائے اگر حالات کا بہانہ بنا کر عصمت و عفت کے قوانین کو تبدیل کر لیا جائے۔

تاریخ گواہ ہے اس بات کی کہ ایک قوم کی تباہی وہ بربادی میں اس قوم کے اخلاق و اعمال کی پستی کا بڑا دخل ہوتا ہے، وہ معاشرہ بہت جلد رسوائی کا شکار ہوتا ہے جس کے اندر عصمت و عفت اور پاکیزگی کے لیے کوئی استوار قوانین موجود نہیں ہوتے، اسلام نے عورت کی ہر طرح سے رہنمائی کی ہے اس لیے کہ نظام تمدن قائم رہ سکے نیز مرد و عورت اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو ٹھیک ٹھیک ادا کر سکیں شریعت نے جتنی بھی پابندیاں عائد کی ہیں وہ اس کی بہتری کے لیے ہیں جہاں بھی شریعت کے خلاف کام ہو وہاں فتنے پیدا ہوتے ہیں۔

مولانا ماہر القادری نے ایک جگہ تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ: ذوق بے حجابی اور سوچِ تبرج صرف چہرے کی بے نقابی پر ہی قناعت نہیں کرتا، پہلے نقاب اٹھتا ہے، پھر جھکی ہوئی نگاہیں بلند ہوتی ہیں، پھر لباس میں تخفیف ہوتی ہے، پھر آرائش و زیبائش بناؤ سنگھار میں یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے، لوگ دیکھتے ہیں کہ بے اعتدالیوں اور برائیوں کا یہ سلسلہ شاخ در شاخ ہوتا چلا جاتا ہے۔

پردے کا حکم معاشرے کے توازن کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مرد و عورت کا دائرہ عمل الگ الگ کیا گیا تاکہ فطرت کے جو فرائض عورت اور مرد کے سپرد کیے گئے ہیں وہ اطمینان کے ساتھ انجام دے سکیں۔

۱۔ اخلاق کی حفاظت کی جائے۔

۲۔ ان خرابیوں کا سدباب ہو جو ہر مخلوط سوسائٹی میں مرد اور عورتوں کے آزادانہ میل جول سے پیدا ہوتی ہیں۔

۳۔ گھر اور خاندان کے نظام کو محفوظ اور مضبوط کیا جائے۔

اسلام نے معاشرے کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پردے کے قوانین مقرر کیے اگر ان قوانین اور حدود سے ہٹ کر چلا جائے تو معاشرے کا توازن برقرار نہیں رہ سکے گا اسی لیے ایک اسلامی گھرانے، اسلامی ماحول اور اسلامی ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عفت اور حیا کی حفاظت کے لیے پردے کا اہتمام کریں تاکہ وہ اپنی نسل کو اس کی افادیت سے آگاہ کر سکیں۔

                                                                                                                                                                                           بشکریہ جسارت