مدیحہ صدیقی
کلمے کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست کلمے کے تحفظ کی بھی جوابدہ ہے۔ جو ملک لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد وجود میں آئے اس کی بنیادوں میں شہداء کا لہو شامل ہو اس ملک کا نظریاتی بنیادوں پر چلتے رہنا اس کے قیام کے جتنا ہی اہم ہے ،پاکستان حاملین قرآن کی امانت وہ قرآن جس کے پیغام زندگیوں کے سنوارنے کی پوری رہنمائی موجود ہے جو پاکبازی و حیا کو خوبصورت احساس دیتا ہے جو زمین پر ایسی قوم کھڑا کرتا ہے جو اقوام عالم کے لیئے نمونہ بن جائے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر عظیم الشان کتاب کی حامل مسلمان پاکستانی قوم ان اعلی اقدار پر مبنی تہذیب کی نمائندہ کیوں نہیں،جس حجاب کی ہم بات کرتے ہیں وہ ایک الگ ہی معاشرے کا نقشہ پیش کرتا ہے، جائزہ لینے پر بہت سارے عوامل سامنے آتے ہیں جس میں حکومت وقت سے لے کر تربیتی و تعلیمی اداروں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے لیکن آگے بڑھیں تو، پاکستانی معاشرے کو اس وقت جو چیز سب سے، ذیادہ نقصان پہنچا رہی ہے وہ اس کا میڈیا ہے، جس کی نشریات نے تمام تر اعلیٰ اقدار کی بنیادوں پر ضرب لگائی ہے، معاشرے میں مغربی و ہندوانہ تہذیب کے جو اثرات نظر آرہے ہیں وہ میڈیا ہی کا کمال ہے۔
ہندوانہ مزاج و فکر پر مبنی ڈراموں نے گھروں میں سیاست سکھادی، رشتوں کی بے اعتباری نفرت،حسد کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا رشتوں کی حرمت و پاکیزگی کو آلودہ کرنے کی مذموم کوشش نظر آتی ہے، یہ جس معاشرے کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے اس کے برعکس سورہ نور ، سورہ احزاب و سورہ حجرات۔ ہمارے معاشرے کو تحفظ دیتی ہیں ،سو اگر ہمارا میڈیا قرآن کے دیئے ہوئے اصولوں پر ضرب لگارہا ہے۔ تو اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
مزید یہ کہ بے حجاب اشتہارات کہ جن میں بین السطور بے حیائی کی دعوت دی جائے اور بے باکی کے مناظر پیش کیئے جائیں، عورت کو چیز مشتہر کرنے کا ذریعہ بناتے بناتے خود اسی کو شکار کرلیا جائے ،نامکمل و نازیبا لباس و الفاظ کو اگر اشتہار کہا جاتا ہے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ معاشرے میں عصمت دری کے واقعات کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہمارا میڈیا ہے تو غلط نہ ہوگا
کیونکہ میڈیا ذہن سازی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو راہیں متعین کرتا ہے راستوں کی رہنمائی کرتا ہے ۔ہر عمر اور ہر طرح کے عوام کا مزاج میڈیا ہی ڈھال رہا ہے، عورت مرد نوجوان بچہ بوڑھا نشریات سے ہی زبان و انداز اٹھارہا ہے۔ ٹاک شوز کے تماشے بھی سب پر خوب واضح ہیں اخلاقیات کے بگاڑ میں اس کا خوب ہی حصہ ہے، مختصر یہ کہ میڈیا کا جو حال ہے اس سے سب ہی خوب واقف ہیں لیکن وہ ادارے کہاں ہیں جن کی ذمہ داری میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا تھا۔ ان پر نظر رکھنا تھا ان کی رہنمائی و گرفت کرنا تھا ہر کچھ عرصے بعد ایسا ڈرامہ نشر ہونا شروع ہوتا ہے۔جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کی طرف ایک اور قدم بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔
معاشرے کا ایک حساس طبقہ اس کی گرفت کرتا ہے کچھ شور اٹھتا ہے پھر بے نتیجہ سی بات دب جاتی ہے۔ بے حیائی و بے راہ روی کے بعد اب LGBT کے موضوعات اپنے رنگوں کے ساتھ نمودار ہونے لگے ہیں اور کتنوں ہی کے لیئے باعث اذیت و کوفت ہیں۔
مسلمان قوم کی حیثیت سے اور مسلمان ملک کے میڈیا کے کچھ اصول و قوانین ہیں بالخصوص جو ملک ہی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو اس کے نظریے پر ہی ضرب لگائی جائے یہ بہت بڑا جرم ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو ان قوانین کا پابند کیا جائے جو نظریہ پاکستان کے مطابق وضع کیئے گئے تھے اور اصولوں کی خلاف ورزی پر گرفت کی جائے کہ یہ مادر پدر آزاد مملکت نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اسی طرح ہم ایک باحجاب معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
بشکریہ جسارت