November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

تصور حجاب اور تہذیب و تمدن

طہورہ  شعیب

کسی بھی معاشرے یا قوم کی شناخت اس کی تہذیب و تمدن سے ہوتی ہے۔ اور تہذیب و تمدن کی بنیاد اس معاشرے کے اجتماعی مقاصد،لوگوں کے عقائد ونظریات پر انحصار کرتی ہے۔ رہن سہن،طرز گفتگو و طرز معاشرت،اقدار و روایات اور زبان و ملبوسات سمیت بہت سے عناصر تہذیب و تمدن سے لازمی طور پر متاثر ہوتے ہیں،چونکہ ان سب کا اشتراک ہی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے اور یہی تشخص دوسری اقوام یا معاشروں سے ممتاز کرتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ چونکہ یہ ملک کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل ہوا لہذا یہاں قوانین و دستور سے لے کر اصول و اقدار تک،اسلامی نظریات کے پابندی ہوں گے۔سماج میں تمدن بھی شعار اسلامی کا عکاس ہوگا۔مگر صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔اور اس میں ایک افراط و تفریط کا عالم ظاہر ہے۔ایک طرف تہذیب و تمدن میں گاہے بگاہے دانستہ ایسے نظریات اور رسوم کو متعارف کروایا گیا جن کی نسبت یا تو ہندوانہ معاشرت سے ہے یا پھر مغربی افکار سے متاثر شدہ۔اور دوسری طرف ہمارے یہاں دین ہی کے بعض افکار کو اس طرح مترشح کیا گیا ہے کہ اس کا مقصد ہی فوت ہوجائے سو معاشرے کو فوائد حاصل ہونے کے بجائے گویا ان سے نقصان پہنچ رہا ہے۔اس بات کو مذکورہ ذیل مثال سے سمجھتے ہیں۔
عالمی یوم حجاب کا موقع درپیش ہے۔ ہمارے معاشرے میں تصور حجاب کو لے کر بہت سی غلط فہمیاں ہیں جن کا تدارک ضروری ہے۔عموماً حجاب کو صرف خواتین کے لیے ایک حکم اسلامی کی حیثیت دی جاتی ہے۔اور اس پر مستزاد اس کو محض نقاب پوشی،سر اور چہرے کو ڈھانپنے تک محدود سمجھا جاتا ہے۔بعض دینی مکاتب فکر کے ہاں بھی یہی محدود تصور ہے۔جب کہ اس اسلامی شعار یعنی حجاب کے احکامات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق محض خواتین کے ظاہری پردے سے نہیں ہے بل کہ یہ ایک پورا نظام عفت و عصمت ہے جس سے اسلام متعارف کرواتا ہے جس کی بنیاد خوف خدا ہے۔جو انفرادی طور پر نہ صرف عورت و مرد سے علیحدہ علیحدہ تقاضے کرتا ہے بلکہ اجتماعی حیثیت میں سماج کو متاثر کرنے والے ہر ادارے سے مثلاً تعلیمی و تربیتی ادارے،ذرائع ابلاغ،قانونی ادارے اور ایوان،ہر عنصر سے اس نظام کی پاسداری کا مطالبہ کرتا ہے۔
حجاب کا وسیع تر تصور دراصل مکمل تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتا ہے جس میں خیال،سوچ،طرز، فکر،نظریات،حواس خمسہ کا استعمال،لباس،جسمانی زبان (باڈی لینگویج)،رہن سہن،طرز معاشرت، طر ز تکلم یا گفتگو کا طریقہ،اظہار رائے کا اسلوب، اقدار و روایات کے اصول سمیت بہت سے اجزاء شامل ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب تک ہر جز اپنی جگہ اپنا متعین کردہ کام مکمل نہیں کرے گا،اس صورت میں نہ تو فرد فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ معاشرہ۔افسوس کا مقام ہے کہ بہت سے لوگ آج بھی گناہ یا بدی کے کاموں کے لیے چہرے چھپانے کے لیے “ڈھاٹا” کا معیوب لفظ استعمال کرکے اس کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔اور اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ یہ مکروہ کام پروفیشنل انداز میں ہو رہا ہے۔حجاب جیسے مقدس اسلامی شعار کی روح سے ناواقف لوگ ایسا نفرت آمیز مواد تخلیق و نشر کرتے ہیں جو بجائے نظام عفت و عصمت کو سپورٹ کرنے کے،حجاب سے متنفر کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔(ویب سیریز چڑیلز اور اس سے ملتے جلتے اسکرپٹ اس کی بدنما مثال ہیں)
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر باطنی مقاصد ظاہری مقصد کے ساتھ نہیں مل رہے تو دراصل مرکزی مقصد پورا ہی نہ ہوا۔اور نہ ہی ایسے تہذیب و تمدن میں کوء برگ و بار پیدا ہوسکتا ہے۔ان پہلوؤں پر توجہ کیے بغیر پھر ہمارے نام نہاد دانشور یہ تخمینے لگاتے ہیں کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں کتنی رکاوٹ ہے۔یا حجاب عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے میں کتنا مزاحم ہے۔حجاب کی صورت میں عورت معاشرے کو اپنی ذات سے کوء فائدہ نہیں دے سکتی۔جب کہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ معاشرے میں خواتین کا بہت بڑا طبقہ ایسا موجود ہے جو ظاہری اور باطنی احکامات حجاب کی پاسداری کرتے ہوئے تعلیمی،تربیتی،قانونی،سیاسی،ابلاغی و تکنیکی سمیت سماجی اور فلاحی اداروں سے وابستہ ہے اور زندگی کے ہر میدان میں اپنی صلاحیت و علم سے اپنے خاندان اور معاشرے کو مستفید کر رہی ہیں۔ ان اداروں میں سر فہرست ویمن اینڈ فیملی کمیشن،الخدمت فاؤنڈیشن وومن ونگ، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن، وومن ایڈ ٹرسٹ، پاکستان اسلامک لائرز فورم وومن ونگ،جے آء یوتھ پاکستان ویمن ونگ سمیت دیگر ادارہ جات شامل ہیں۔ان اداروں سے وابستہ خواتین کی سرگرمیوں سے اگر معاشرے کا ہر گھرانہ واقف نہیں ہے تو یقیناً یہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے اداروں پر سوالیہ نشان ہے کہ اپنی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتی ہوء ایسی خواتین کو نمایاں کیوں نہیں کیا جاتا۔اور ایسے مواد کو اہمیت کیوں کر حاصل ہے جو لان اور جوتے کے اشتہار سے لے کر ڈراموں کے پلانٹڈ اسکرپٹ تک،سماجی ویب سائٹس سے لے کر سلیبرٹی شخصیات کے پرسنل اکاؤنٹس تک،اخبار و جرائد کے اشتہار سے لے کر کالمز اور اداریوں تک ہر جگہ یہی باور کروانے میں مصروف عمل ہے کہ ستر و حجاب صرف ذاتی پسند کا معاملہ ہے۔انتخاب حجاب ایک نفرت آمیز ڈھنگ ہے۔شخصیت اور معاشرے کی ترقی میں جمود کا آہنگ ہے۔اس تناقض پر ارباب فکر کو ضرور سوچنا چاہیے۔ البتہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد،ارباب فکر و دانش جہاں بھی اس تناقض کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور حجاب کے نظام کو اس کی روح کے ساتھ سمجھتے ہیں،اس کی ترویج کر رہے ہیں یقیناً وہ اپنے حصے کی شمع جلانے کا جرأت مندانہ کام کر رہے ہیں جو قابل ستائش ہے۔
ایک اور اہم پہلو جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اگرچہ پاکستان میں خواتین کی اکثریت حجاب (پردے) کے کسی نہ کسی درجے کو استعمال کرتی ہے۔لیکن اس سے معاشرت پر وہ خوش گوار اثرات مرتب نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔اس کا غیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے تو کء وجوہات کے علاؤہ یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ ہم نے معاشرتی برائیوں کی وجہ کو عورت کے ساتھ منسوب کردیا۔اسلام کا تصور حجاب جو نظریہ پیش کرتا ہے اس میں عورت کے ساتھ کماحقہ مرد بھی ذمہ دار ہے۔نگاہوں کی حفاظت کا حکم پہلے مرد کو بعد میں خواتین کو دیا گیا۔ اگرچہ عورت کا مقام و مرتبہ حجاب لینے سے مزید بڑھ جاتا ہے۔اور یہ سند امتیاز اسلام نے ہی اسے عطا کی مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ غیر حجابی عورت کی حرمت کوء معانی نہیں رکھتی اور مرد پر حلال ہے۔مرد کا احساس ذمہ داری اور عورت کے لیے محافظ بن کر رہنا اس کی غیرت و حیا کی تکمیل ہے۔اور عورت کے لیے اپنے حسن و محاسن،عزت و حرمت کو محفوظ و مخفی رکھنے رکھنے کا ہر ممکن(ظاہری و باطنی) ذریعہ اختیار کرنا اس کے لیے حجاب کی تکمیل ہے۔ہمارے یہاں عموماً مرد کو اس کی سماجی حیثیت کی بنا پر براء کے ارتکاب پر سزاوار ٹہرانے اور اس کے احتساب کی روایت و رجحان نہیں پایا جاتا۔بلکہ کسی غیر اخلاقی معاملے میں مرد کے تربیتی نقص پر توجہ دینے کے بجائے خواتین کو ہی مطابقت کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اسباب میں بھی خواتین کو مورد الزام ٹھہرایا جانا عام ہے۔ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ خواتین کے لباس اور دیگر معاملات کو مرد کے برے عمل کے لیے جواز بنانا درست رویہ نہیں ہے۔سادہ الفاظ میں سمجھا جائے تو اللہ کے نزدیک عمل کے باب میں دونوں اصناف برابر ہیں اور دونوں ہی سے حجاب کے احکامات متقاضی ہیں کہ حیا اور غیرت کا شعار سوچ، گفتگو، لباس، چال، رویوں میں برتے جائیں۔سر سے پاؤں تک پردے میں مخفی خاتون جب غلط نگاہوں یا دست درازی کی اذیت برداشت کرتی ہے، نیچی نگاہ کے ساتھ شریف الطبع مرد جب کبھی عورت کے بے باکانہ انداز اور بے تکلف گفتگو کو نظر انداز کرنے پہ مجبور ہوتا ہے،دونوں صورتوں میں ہی احکام حجاب سے عہد برآ نہ ہونا ہی سبب ہے جو فرد کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام پر داغ لگا دیتا ہے۔
تیسرا پہلو جس پر توجہ ضروری ہے وہ خواتین کے اندر اظہار حسن پر ستائش وصول کرنے کی خواہش ہے جو ایک حد تک فطری بھی ہے۔مگر جہاں یہ خالق کائنات کی متعین کردہ حد سے تجاوز کر جاتی ہے وہاں اخلاقی زوال کو پیدا ہونے سے کوء روک نہیں سکتا۔یہاں تک کہ یہ اظہار حسن سے شروع ہوکر بے لباسی کی منزل تک پہنچا کر دم لیتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ صاحب جمال ہے اور جمالیت کو پسند کرتا ہے،اس نے انسان کی سرشت میں جمالیاتی حس خود ودیعت کی ہے مگر اس حس کے استعمال کو حلال و پاکیزہ رشتوں کی ڈور کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ اس نے عورت کو یہ مقام دیا ہے کہ اس کی حیثیت آب گینے جیسی خوب صورت اور نازک ہے۔اسے ذوق جمال اور حسن کا اظہار انہی لوگوں کے سامنے کرنے کی اجازت دی گء جو اس ذوق سے پاکیزہ تسکین پائیں نہ کہ حیوانی صفات سے متصف ہوکر رشتوں اور سماج میں زہر گھولیں۔ خواتین کی اسی فطری جبلت کو استعمال کرتے ہوئے جو راہ فنون لطیفہ، تفریح اور ٹیلنٹ و آرٹ کے نام پر دکھائی جارہی ہے اس سے سوا مقام و مرتبے کے زوال کے عورت کے لیے کچھ بھی حاصل حصول نہیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ اپنی تہذیب و تمدن میں اخلاقی انحطاط سے بچاؤ کا اگر کوء موثر ذریعہ ہے تو وہ ہے اس کی بنیاد پر توجہ۔ہمیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تہذیب و تمدن کے جھول کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوانہ اور مغربی تہذیب سے مرعوب و متاثر شدہ روایات مثلاً خوشی و غمی کی رسومات میں ان کے کلچر کو فروغ دینا، نظریات، لباس و دیگر معاملات کو ذاتی پسند قرار دینا،مرد و زن کے اختلاط کو فروغ دینا،اظہار فن اور آرٹ کے نام پر فحاشی اور عریانی کو جگہ دینا،یہ تمام چیزیں ہمارے تمدن کا حصہ اس لیے بن رہی ہیں کہ جس بنیاد پر بحیثیت مسلمان ہماری تہذیب و تمدن کا شیرازہ قائم ہونا چاہیے وہ عدم توجہی کا شکار ہے۔ اللّٰہ کے آگے جواب دہی کا احساس،خوف آخرت ہی وہ عقیدہ ہے جو ہمارے سماج میں تہذیب و تمدن کا قبلہ درست کرسکتا ہے اور فرد و معاشرت کو احکام حجاب،نظام عفت و عصمت کی حفاظت پر پابند کرسکتا ہے۔حجاب کی اخلاقی قوت حاصل ہوجائے خواہ خاتون کی حیا کی صورت میں ہو یا مرد کی غیرت و حمیت کی صورت میں، معاشرتی قوانین پر عملدرآمد کیا جائے تو کوء وجہ نہیں کہ ہمارا معاشرہ دنیا بھر کی معاشرت کے لیے مثال نہ بن جائے۔احکام حجاب پر عمل درآمد کی ترغیب کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ
نو آموز مسلم خواتین کے سفر حجاب پر ڈاکیومنٹری پروگرام بنا کر الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر نشر کیے جائیں۔
باحجاب ورکنگ وومن کے انٹرویوز نشر اور طبع کیے جائیں۔ایسے مواد پر قانوناً پابندی عائد کی جائے جو حجاب کے شعار کی توہین کا باعث ہو۔
خواتین کے ساتھ اخلاقی و معاشرتی مسائل مثلاً ورک پلیس پر عدم تحفظ کا سدباب کیا جائے۔
خواتین کے لیے علیحدہ یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
تعلیمی نصاب میں احکام حجاب اور خاندانی مطابقت سے متعلقہ اسلامی لٹریچر کو شامل کیا جائے۔جس کے ذریعے لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی تربیت کا اہتمام ہو۔