عالیہ شمیم
اسلام اولین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سر بلند کیا ہے۔اورعورتوں کو مرد کی ہوسناکی سے اور مردوں کو عورت کے فتنے سے بچایا ہے۔حیا و حجاب کی تہذیب مسلم معاشرے کا احاطہ کرتی ہے، صالح و پا کیزہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری امر ہے کہ اسلامی انقلاب اور تہذیب و تمدن کے ذریعے صالح معاشرے کی تشکیل کی جائے، گھر کی چار دیواری اور خاندان کے دائروں میں تہذیب اسلامی کی قدر اور تمدن کے تقاضوں و اخلاق کی میاں بیوی مل کر ہی نگہبانی کر سکتے ہیں اسلام کی خوبی ہی دین فطرت کی بنا پر ہے اور فطری اعتبار سے مرد اور عورت کو جسم و صلاحیت کے مطابق دائرہ کار مقرر کر دیے گئے۔ مرد کو کسب معاش کا ذمہ دار بنا کر بیرون خانہ کے تمام کام تجارت، زراعت،صنعت و حرفت، معیشت، فوجی دفاع سونپ دیا گیا تمام سخت بھاری اور مشقت کے کام مرد کے ذمہ ڈالے گئے عورت کو شمع حرم بنا کر آیندہ نسل کی تخلیق شریعت نے حجاب کے ذریعے مسلم معاشرے میں مرد و عورت دونوں ہی کو شرم و حیا کی حدود و قیود کا پابند کر دیا ہے حجاب صرف عورت کے منہ اور سر کو ڈھانپ لینے کا نام نہیں بل کہ مرد و عورت پورے انسانوں ہی کے لیے حجاب کا حکم ہے، غض بصر کا حکم صرف عورت کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے، ذو معنی گفتگو، بے حیائی کے مظاھرے، ناکافی لباس سے،مسلم با حجاب اور بے حجاب مرد و خواتین سب کو ہی روکا گیا ہے۔ستر کو ڈھانپنے کا حکم مرد و عورت دونوں ہی کے لیے آیا ہے، شیطانی و تاریک قبیح خیالات مرد و عورت دونوں ہی کی شخصیت کو داغدار، بد اثر بنا دیتے ہیں، اسلامی انقلاب دراصل دین کے صحیح شعور و ایمان سے پیدا ہوتا ہے قلب بدلتا ہے تو خیالات بھی نکھرتے ہیں اور خیالات کی پاکیزگی و خوبصورتی نہ صرف انسانی شخصیت کو وقار اور تمکنت عطا کرتی ہے بل کہ پاکیزہ معاشرے کے بھی قیام کا ذریعہ بن جاتی ہے جبکہ مخلوط محافل، بے باکانہ اطوار،کھلی بے تکلفی اخلاقی قدروں کو پامال کرکے جنسی جذبات اور غیر معمولی ہیجان کو بڑھا کر پاکیزہ ماحول کو داغدار کرتے ہیں،دین اسلام میںمرد و زن کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہے۔خطرنا ک ترین فتنہ شیطان کا ہے جس نے انسان کی ضلالت و گمراہی کا آغاذ ہی بے پردگی و بے حجابی سے کر وایا،حضرت آدم و حوا کو بہکاکر ان کے ستر کھلوا دیے اور جنت سے نکلو ا دیا۔ دین فطرت میں آرا ئش کا حکم ہے نما ئش کا نہیں اور معاشرتی اصلا ح کے لیے شریعت اسلامیہ میں ستر و حجاب کے احکام اسی قدر اہم ہیں جتنے نکاح و طلاق کے، تاکہ شیطانی نفس کے لیے کہیں سے چور دروازہ نہ نکل سکے۔حیا ء ایک وصف اور ایمان کا جزو ہے۔دونوں خیر کے داعی اور شر سے انسان کو دور کرتے ہیں۔ایمان اطاعت الہی کرنے اور گناہ میں ملوث ہو نے سے روکتا ہے جب کہ حیاء انسان کو برے کام نہ کرنے پر ابھارتی ہے اور اہل حق کے حق کی ادائیگی میں کو تاہی کرنے سے، فحش و بے حیائی سے روکتی ہے۔اسی لیے صالح عورت کو حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔قبل اسلام بیٹیوں کو زندہ جلا دیا جاتا رہا، لکھنے پڑھنے سے محروم رکھا جاتا رہا، قحبہ خانوں کی زینت بنائی جاتی رہی۔صرف اسلام ہی نے عورت کو انسانی اور سماجی حقوق عطا کیے، اسے وراثت کا حقدار ٹھہرایا، عملا حق مہر دلوایا۔ نازک آبگینے کہہ کر نرمی و در گذر کی تاکید کی، انتخاب رفیق کا حق دیا اور ماں بہن بیوی اور بیٹی کے روپ میں مجموعی طور پر وہ وہ شرف و وقار اور تحفظ عطا کیا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اصل المیہ یہ کہ اسلام نے عورت کو قرآن و سنت کے جن اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی تھی، دور حاضر کی عورت نے ان کی نفی کر کے بے حجاب ہو کر اپنے آپ کو پھر سے دور جاہلیت کی طرح مظلوم و محروم اور مرد کے لیے کھلونا بنا دیا، عورتوں کے لیے حجاب رب کا حکم ہے اور معاشرہ کو پاک صاف رکھنے کا عملی ذریعہ بھی ہے۔بے حجابی عورت مرد دونوں ہی کے لیے بہت بڑا فتنہ اور شیطا ن کا کاری وار ہے، کوئی قوم اس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوتی جب تک اس کی عورتیں زیور حیا سے مزین اور مرد شمشیر غیرت سے مسلح ہوں۔ مذہب اسلام نے عورت اور مرد کو بحیثیت انسان بنیادی انسانی حقوق میں مساوات اور یک رنگی عطا فرمائی، مرد و خواتین دونوں ہی کے لیے ایک ہی نظام عقائد ہے، دونوں ہی کے جنت میں مقیم رہنے، دونوں کے اکھٹے لغزش کھانے اور دونوں کے زمین پر بھیجے جانے اور دونوں ہی کی جانب سے توبہ قبول کیے جانے کے احوال یکساں ہیں، اخلاقی لحاظ سے دونوں میں مساوات ہے، یعنی فضائل اخلاق اور رذائل اخلاق کی راہیں ایک جیسی ہیں، نیکی اور بدی کا بدلہ یکساں ہے، اور دونوں میں سے جو جتنا تقوی میں بڑھ جائے مرتبہ پاسکتا ہے۔۔عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا شاخسانہ ہے اسلام اولین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سر بلند کیا ہے۔اسلامی تعلیمات سے پہلو تہی اور بے حجابی نے مذہب سے عاری معاشرہ کو جنم دیا جہاں مرد خواتین کی عزت و آبرو کو روندنے اور معصوم کلیوں کو پامال کرنے،اپنی درندگی کی بھینٹ میں آزاد ہے حالیہ ہونے والے واقعات اسی بے حجابی کا شاخسانہ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حجاب کے تصور کو صرف خواتین تک محدود نہ کیا جائے بل کہ یہ ذہن نشین کیا جائے کہ حجاب ایک تہذیب ہے، حجاب نظروں میں، گفتگو میں، معاملات میں، رکھ رکھاؤ میں، لباس میں رویوں میں، پرنٹ الیکٹرانک و سوشل میڈیا میں غرض پورے معاشرے کا کلچر حجاب ہے جس کے قوانین مسلم و غیر مسلم سب پر یکساں لا گو ہوتے ہیں انسان کی حیا ہی اس کے عزت و وقار کی نشانی ہے۔حجاب قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کی علامت نہیں ہے نہ صرف اسلام کا معاملہ ہے بل کہ پورے معاشرے کی تطہیر و تعمیر سے ہے جس میں مرد و عورت دونوں ذمہ دار ہیں بے حیائی اور بے حجابی کے نقصانات اج کے حالیہ واقعات میں مضمر ہیں۔اسلام نے ستر کی حدود سے مرد کو بھی مستثنی قرار نہیں دیا غض بصر کے احکامات عورت اور مرد دونوں ہی کے لیے ہیں اور معاشرے کو حیا و حجاب کی تہذیب سے روشناس کروا کر فکری پاکیزگی کا وہ عظیم قانون عطا کیا جس میں انسانیت کی بقا و فلاح ہے۔