تحریر:افشاں نوید
17اگست کو ٹی وی اسکرین کی اور 18اگست کے اخباروں کی ایک دلچسپ خبر ہے کہ آسٹریلیا کی اقلیتی سیاسی جماعت ون نیشن کی سینیٹر پالن ہیٹسن برقع پہن کر آسٹریلوی پارلیمنٹ پہنچ گئیں ۔امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وہ برقع پر قومی پاپندی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔وہ دس منٹ تک پارلیمنٹ میں برقع پہن کے بیٹھی رہیں ،جس کے بعد کھڑے ہوکر انہوں نے برقع اتارا اور نفرت انگیز تقریر میں کہا کہ آسٹریلیا کو دہشت گردی کا خطرہ ہے اس لئے برقع پر پاپندی عائد کی جائے ان کی اس حرکت پر ساتھی قانون سازوں نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔اس موقع پر اٹارنی جنرل جارج برانڈس کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کسی بھی صورت برقع پر پاپندی عائد نہیں کرے گی ۔انہوں نے خاتون سیاست دان کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اس حرکت سے آسٹریلیا میں موجود مسلمان اقلیت کے جذبات مجروح ہوں گے اور کسی بھی کمیونٹی اور ان کے مذہبی لباس کا تمسخر اڑانا قابل نفرت فعل ہے،میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اپنی اس حرکت پر غور کریں۔
اپوزیشن لیڈر نے خاتون سینیٹر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنا مذہبی لباس پہننے اور سینٹ میں اسسٹنٹ کے طور پر ایسا لباس پہن کر آنے میں فرق ہے۔واضح رہے کہ اکتوبر 2014ءمیں آسٹریلوی حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر عائد پاپندی اٹھا لی تھی ۔
پال ہیٹسن ایوان میں اس وقت برقع پہن کر داخل ہوئیں جب ان کی جماعت برقع پر پاپندی کے حق میں ووٹ دینا چاہتی تھی۔ان کے اس اقدام کا مطلب مسلمان عورتوں کے اس ساتر لباس کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔یاد رہے کہ اگلے ہفتے آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں برقع پرپاپندی کے معاملے پر بحث ہوگی۔
یہ آسٹریلین پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں ہونے والے واقعہ کی خبر تھی ۔لیکن ایسی خبریں گاہے بگاہے اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں مسلمان عورت کے پردے اور برقع کے خلاف کوئی نہ کوئی اپنےنفرت انگیز جذبات کا اظہار کرتا رہتا ہے اور مروةالشربینی تو ایک استعارہ ہے کہ مسلم ثقافت سے دشمنی میں جان تک لی جا سکتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مسلمان عورت کا ساتر لباس اور حجاب بار بار زیر بحث نہ آتا تو شاید اس کی قدر و قیمت کا یہ احساس یوں ہمارے ذہنوں میں اجاگر نہ ہوتا۔اور طرفہ تماشہ یہ کہ کوئی مسلمان خاتون مغرب کی اس نفرت انگیز مہم جوئی سے کبھی مرعوب نہیں ہوئی ۔برقع کو دہشت گردی سے جوڑ کر اسلام مخالف جذبات کا اظہار کرنے اور ایوان ہائےساز میں اسے زیر بحث لانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان عورتیں اس الزام کے جواب میں اپنے ساتر لباس اور حجاب سے بدظن ہو جائیں گی،یا قوموں کی برادری میں سر اٹھا کر جینے کے لئے وہ اپنے اس حق سے دست بردار ہوجائیں گی۔ایسا کبھی نہیں ہوا،کیوں کہ مخالفین کا یہ تصور کہ مسلمان عورت پر ظلم کیا جاتا ہے اور اس کا پردہ اس کو محبوس کر دیتا ہے،یہ ایک ظلم ہے جو مسلم معاشرہ کے مرد اپنی عورتوں پر کرتے ہیں،یہ آزادی کے بر خلاف غلامی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کے موقع پر ہال کے باہر جگہ جگہ علامتی پنجرے رکھے گئے اور ان میں برقع میں ملبوس عورتوں کی تصاویر اور ڈمیز رکھی گئی تھیں،جس کا مقصد ساری دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ مسلمان عورت کا یہ قرض ہے کہ اسے اس قید یعنی برقع یا حجاب سے آزاد کرایا جائے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر فی الواقع یہ ظلم ہے تو دنیا بھر کی مسلمان عورتیں اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں۔لیکن ہمیشہ مسلمان عورتوں سے ہمدردی کے لئے میدان میں وہ قوتیں آتی ہیں جو اسلام دشمنی کی سرخیل سمجھی جاتی ہیں ۔
وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے ۔خود مسلم معاشروں کی ثقافت بھی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔اگرچہ کہ ہر تبدیلی بری نہیں ہوتی۔لیکن سب کچھ تبدیل ہونے کے لئے بھی نہیں ہوتا۔بالخصوص کسی کے مذہبی عقائد کو چھیڑنا اپنی تنگ نظری کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں ۔آسٹریلین سینٹ کی رکن کے اس اقدام کو پارلیمنٹ میں کسی نے بھی نہیں سراہا۔ ان کی مذمت کی گئ کہ کسی کمیونٹی اور اس کےمذہبی لباس کا مذاق اڑانا قابل نفرت فعل ہے ۔اگر آسٹریلوی رکن پارلیمنٹ حجاب کے خلاف نفرت کا اظہار کرسکتی ہیں تو دنیا بھر میں مسلمان عورتیں غیر مسلم خواتین کے نیم عریاں لباسوں پر بھی نفرت کا اظہار کرکے ان پر پاپندی کا مطالبہ کرسکتی ہیں ۔دنیا کے مسلم ممالک میں غیر مسلم خواتین کے لباس پر کبھی پابندیوں کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ۔کوئی مسلمان عورت اپنے حجاب کے ساتھ کسی کے لئے خطرے کی علامت نہیں ہے لیکن نیم عریاں لباس معاشرہ کی پاکیزگی اور تقدس کو بری طرح مجروح کر تے ہیں ۔
دنیا کا امن اور بقائے باہمی اس چیز میں پوشیدہ ہے کہ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا جائے اور معاشرہ میں مثبت رول ادا کرتے ہوئے دوسرے کے عقائد کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے ۔اسلام اقلیتوں کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے وہ تو جانوروں تک کے حقوق کا ضامن ہے اور دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں سیاسی طور پر جس قوم کا غلبہ ہوتا ہے اسی کی ثقافت کو بھی غلبہ حاصل ہوتا ہے ،بلکہ اس کی ثقافت کو غالب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔اسلامی شعار سے اگر نفرت کی جاتی ہے تو اس کےخلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمیں محکومی تک پہنچانے والے عوامل کون سے ہیں؟خود مسلمان اپنے کردار سے اسلام کی کتنی حقانیت ثابت کر رہے ہیں؟اس وقت اسلام کی گواہی مسلمانوں کا کردار ہے بلکہ ہر دور کے مسلمان ہی اسلام کی تصویر سمجھے جاتے ہیں ۔اب چاہے وہ اپنےطرز عمل سے اسلامی تعلیمات کے خلاف ہی کام کریں لیکن مسلمانوں کے ہر عمل کو"اسلام" تصور کیا جاتا ہے۔
آسٹریلوی سیاست دان کی یہ حرکت خود مسلمان عورتوں کے لئے بھی ایک پیغام رکھتی ہے۔ایک مسلمان عورت کو اس کے مقام اور مرتبے کا احساس دلاتی ہے۔حجاب کی شکل میں شریعت نے اسے کتنا خوبصورت تحفہ دیا ہے کہ وہ خود کو محفوظ قلعہ میں سمجھتی ہے۔
چاہے مسلمانوں سے نفرت کے اظہارکی کوئی بھی شکل ہو ،وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے حوالے سے کوئی ملعون کوشش ہو یا مسلمانوں کے شعائر داڑھی ،پردہ یا مساجد کی بے حرمتی ہو،مسلمانوں کے لئے ہمیشہ یہ سازشیں بیداری کا پیغام بنتی رہتی ہیں۔ڈنمارک کے کارٹونسٹ کے جواب میں جس طرح شرق و غرب کے مسلمان احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اس راکھ میں ابھی چنگاریاں باقی ہیں ۔اسی طرح بابری مسجد کے سانحے نے دنیا بھر کے اور بالخصوص ایشیا کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور وہ ہفتوں سراپا احتجاج بنے رہے کہ ہندوستان ایسی کوئی دوسری جرات نہ کر سکے۔
۴ستمبر کو دنیا بھر کی خواتین یوم حجاب منا کر اسی عزم کو دہراتی ہیں کہ وہ اپنے اس اسلامی حق سے کسی صورت دستبردار نہ ہوں گی اور دنیا کے جس حصے میں بھی مسلمان عورت اپنے حجاب اور ساتر لباس کے ساتھ باہر نکلتی ہے اس کا یہ لباس بجائے خود ایک پیغام ہوتا ہے کہ عورت کا وقار اس میں ہے کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔جیسا اس کا لباس پاکیزہ ہے اس کی شریعت کی تمام تعلیمات بھی اتنی ہی پاکیزہ ہیں ۔اس کا باہر نکلنا سماج کوکسی فتنے سے دوچار نہیں کرتا۔معاشرہ کے مردوں کو کسی ہیجان میں مبتلا نہیں کرتا۔وہ صرف سر کو ہی نہیں ڈھانپتی بلکہ وہ اور اس کا خاندان ایک پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں۔
مغرب کی اس دشمنی کا جواب احتجاجی ریلیوں اور مظاہروں سے دینے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کوئی قوم غلبہ کیوں پاتی ہے؟ہم نے علوم و فنون میں پسپائی اختیار کی ،ہماری عظیم اقدار و روایات آج مغرب کے حکمرانوں کے طرز عمل میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ان کی ریاستیں عوام کو جو تحفظ فراہم کرتی ہیں وہ کسی زمانے میں مسلمان خلفاء کی پیش کی ہوئی مثالیں ہیں۔تحقیق ان کا طرۂ امتیاز ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کے جھنڈے گڑے ہوئے ہیں۔صرف اپنے شعائر پر فخر کرنے سے کوئی سر بلند نہیں ہوجاتا۔اسلام کو جن عظیم سپہ سالاروں کے دور میں غلبہ نصیب ہوا وہ اگر دن کے مجاہد تھے تو رات کے راہب تھے ۔ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کو سن کر غیر مسلموں پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی۔غیر مسلم مغلوب ہوجاتےاور از خود تجزیہ دینے پہ راضی ہوجاتےتھے ۔اسلامی شعائر کی بقاء بھی اسی میں ہے کہ ہم اپنی نسلوں کا رشتہ علوم وفنون سے جوڑیں ۔انہیں تحقیق اور تخصص کے میدانوں میں آگے بڑھائیں ۔انہیں مادہ پرستی کے سراب سے نکالیں اور خود بھی اسلامی شعار پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ کردار کی بلندی سے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں ۔دنیا بھر میں ہم جس سماج کا بھی حصہ ہوں ہمارے کرداروں کی گواہی یہ ہو کہ یہ مسلمان ہیں اور اعلیٰ صفات کے حامل لوگ ہیں ۔جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ۔اور ان کےشعائر داڑھی یا پردہ کو دہشت گردی سے جوڑنا سوائے تعصب اور تنگ نظری کے کچھ نہیں۔