November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

حجاب قرآن کی نظر میں

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی

حجاب مسلمان عورت کے لیے ایک ایسا فریضہ ہے جو وہ احکامِ الہیٰ کے تحت ادا کرتی ہے۔ مگر آج اسے مسئلہ بنا کر اچھالا جارہا ہے۔ قرآن کریم جو ہر مسلمان کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ سب سے پہلے سورۃ الاحزاب میں آیت حجاب نازل ہوئی۔

ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبی کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو۔ نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہوجاؤ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبہ کو تکلیفیں دیتی ہیں مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبی کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ تمہارے لیے یہ ہر گز جائز نہیں کے اللہ کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ کو ہر بات کا علم ہے‘‘۔ ( الاحزاب ۵۳:۳۳)

اس کے بعد حجاب کا حکم قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت نمبر۳۰ میں نازل ہوا اور اُس میں خطاب کا آغاز مردوں سے کیا گیا۔ اور بعد میں عورتوں کو مخاطب کیا گیا۔

’’ان نبیمومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘

’’اور اے نبی مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں‘‘۔ (النور۳۱:۲۴)

حجاب احادیث نبوی کی روشنی میں

’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ کے ساتھ صبح کی نماز میں شریک ہوتیں۔ اس حال میں کہ انہوں نے اپنے جسم کو چادروں میں لپیٹا ہوتا، پھر وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلی جاتیں اور اندھیرے کی وجہ سے ان کو کوئی پہچان بھی نہ پاتا تھا‘‘۔(صحیح البخاری)

اس حدیث میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ کے دور میں جب مسلمان عورتیں کسی کام سے گھر سے باہر نکلتی تھیں تو اپنے سارے بدن کو ایک بڑی چادر میں لپیٹ لیتی تھیں۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ایک خط رسول اللہ کو دیا تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو سمیٹ لیا اور فرمایا:’’مجھے معلوم نہیں کہ یہ مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا ہاتھ ہے‘‘۔ تو اس عورت نے کہا کہ میں عورت ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا: تو اگر عورت ہے تو اپنے ناخنوں میں مہندی لگا تا کہ مرد اور عورت میں فرق ہوسکے‘‘۔ (سنن ابن داؤد)

یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت مہیا کرتی ہے کہ عورتیں حضور کے زمانے میں جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو وہ حجاب میں ہوتی تھیں۔

ان آیات اور احادیث کے بعد کسی مسلمان میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ حجاب کو کلچر، روایت یا معاشرتی اور سماجی رویہ قرار دیں۔ یہ واضح قرآنی و الہٰی حکم ہے جسے مسلمان عورت بڑے افتخار کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔

موجودہ دور میں عالمی استعماری قوتوں نے اُمت مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ جہاد، ناموس رسالت، خاندانی نظام اور حجاب ان کے خصوصی اہداف ہیں۔ ہر جگہ پر شعائر کو جو اسلامی تہذیب و ثقافت کی علامات ہیں، کو انتہا پسندی قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے۔ فرانس، ہالینڈ اور ڈنمارک میں حجاب پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ ترکی میں یہ ایک گز کا ٹکڑا اتنی خطرناک علامت بن چکا تھا کہ ایک جمہوری حکومت کو کمزور بنانے کے دروازے بند کیے جارہے تھے۔ لیکن ترکی میں اب یہ منظر بدل رہا ہے۔

حجاب اُمت مسلمہ کا وہ شعار، مسلم خواتین کا وہ فخر و امتیاز جو اسلامی معاشرے کو پاکیزگی عطا کرنے کا ایک ذریعہ تھا (اور ہے) استعمار کا سالہا سال کی سازشوں کے نتیجے میں آج بھرپور حملوں کی زد میں ہے۔ مسلم دنیا کو پاکیزگی سے ہٹا کر بے حیائی کی دلدل میں دھکیلنا اور عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے۔ شیطان کی سب سے پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی تھی کہ اس کے جذبہ شرم و حیاء پر ضرب لگائے۔ اور اس کے شاگردوں کی یہ روش آج تک قائم ہے۔ ان کے یہاں ترقی کا کوئی کام اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک عورت حجاب سے باہر نہ آجائے۔ حیاء کو دقیانوسیت قرار دیا جاتا ہے۔ پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے اور طرح طرح سے برقعہ و چادر کے مذاق اُڑائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ!

ـ پردہ و حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطا فرماتے ہیں۔ یہ شیاطین اور اس کے حواریوں کی غلیظ نگاہوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے۔

ـ برقعہ اور چادر معاشرے سے بےحیائی کی جڑ کاٹ دیتے ہیں۔ جب عورت پردہ اتار پھینکتی ہے تو اس کی مثال اس سپاہی کی سی ہے جو اپنی زرہ اتار پھینکتا ہے اور دشمن کا تر نوالہ بن جاتا ہے۔

ـ عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کے بعد خوبصورت ترین تحفہ پردہ عطا ہوا ہے۔ جو اس کی عزت ناموس کی حفاظت کے لیے ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔

پردہ عورت کو ظاہری نمود و نمائش اور غیر ضروری اخراجات سے روکتا ہے، سادگی سکھاتا ہے۔

پردہ عورت کی زینت ہے، شرم و حیا اس کا زیور ہے اور اس زیور کی حفاظت پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ـ پردہ عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر جانے سے روکتا ہے جس سے وہ اپنے گھریلو فرائض کو احسن انداز سے سرانجام دے سکتی ہے۔ یہی وہ عمل ہے جسے نبی کریم نے عورتوں کا جہاد کہا ہے۔

ـ ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے کہ جو لباس پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور پیارے نبی کے فرمان کے مطابق وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو کئی ہزار میل دور سے آتی ہوگی۔

چادر اور چار دیواری تو عورت کے تحفظ کے عنوان ہیں اور عورت کا تحفظ، خاندان کے استحکام ، نئی نسلوں کی تربیت کے انتظام اور معاشرتی استحکام کا ضامن ہے۔ شیطان کے چیلوں نے کتنا بڑا وار کیا کہ دونوں کو متنازعہ بنا کر عورت کو گھر اور پردے سے نکال کر پوری انسانیت کو نہ صرف ذلت سے دو چار کردیا ہے بلکہ انسانیت کا مستقبل ہی داؤ پر لگا دیا ہے۔ مغرب، خاندان اور معاشرتی لحاظ سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عورت بے پردہ ہوئی تو بن بیاہی مائیں بننے پر معاشرے میں کوئی عار نہ رہا۔ ناجائز بچوں کی کثرت ہوگئی۔ ہر تیسری شادی طلاق پر منتج ہونے لگی۔ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ جنسی بیماریوں نے ایڈز کی سنگین صورت اختیار کرلی۔ ڈیپریشن اور ذہنی امراض کی وجہ سے خود کشییوں میں اضافہ ہوگیا۔ مغربی اقوام اپنے اس معاشرتی انتشار کے بعد مسلمانوں کو بھی اس کا شکار کرنا چاہتے ہیں(cosmetics) کاسمیٹیکس کی صنعت کو زوال سے بچانا بھی ان کا مقصد ہے۔

حجاب پر پابندیاں عائد کرنے کا کھیل انہی طاقتوں کا ہے کنہیں مسلمانوں کا مضبوط خاندانی نظام اور معاشرتی استحکام ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

مسلمان خواتین نے پورے شعور کے ساتھ اپنے رب کی رضا اور اپنے نبی کی تعلیم و سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے لیے یہ شعار پسند کیا ہے اور انشاء اللہ مشرق و مغرب کا کوئی آزادی پسند یہ اتروا بھی نہیں سکتا۔ ان کا حق اگر حیا باختگی اور برہنگی ہے تو مسلم خاتون کا حق حجاب اور حیاء پر کاربند ہونا ہے۔ ان کو شیطانی تہذیب پر چلنے کی آزادی ہے اور وہ اس کے پشیتبان ہیں تو ہمارا حامی و ناصر رب کائنات ہے جس کی رضا پر ہم چل رہے ہیں۔ طاغوت اور اس کے ھواریوں سے نہ کل ہم ڈرتے تھے نہ آج ہمیں ان کا کوئی خوف ہے اور جب تک ہماری گردنوں پر ہمارے سرسلامت ہیں۔ ہم شعائر اسلامی کی ترویج و حفاظت کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ

حقیقت یہ ہے کہ حجاب ( برقعہ ۔ چادر ۔ عبایا گاؤن کچھ بھی کہہ لیں) تو اسلام کا کلچر ہے اور فحاشی و بے حجابی شیطان کی روایت ہے جس کا اعلان خود ربِ کائنات نے کیا ہے۔

’’اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ(وہ اللہ نے فرمائی ہیں)‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۶۹)

عورت کو چادر، ڈوپٹے سے بے نیاز اور بے حجاب کردینا ہی متبعین ابلیس کا مطلوب و مقصود ہے۔

مسلمان عورت کا شعار حجاب ہے، پردہ ہے، مکمل لباس ہے۔ خواہ چادر کی صورت میں یا گاؤن کی صورت میں اور چادر محض گرمی اور سردی نے بچانے والی نہیں، ہمیں جان لینا چاہیے یہ ہمارے رب کا حکم ہے اور شارع نے یہ حکم دیتے ہوئے جو مقصد بتایا تھا وہ ہمیں جان لینا چاہیے فرمایا کہ ۔ ۔ ۔  ۔’’ اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کا پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تا کہ وہ پہچان لی جائیں ورنہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘۔(سورۃ الاحزاب ۵۹:۳۳)

یعنی پہچان لی جائیں کہ یہ شریف اور با حیا عورتیں ہیں، مومن عورتں ہیں، ممتاز ہیں، پاکباز ہیں تا کہ شیطان کے ایجنٹ ان سے کوئی چھیڑ خوانی نہ کرسکیں۔ ایک تصور اور حلیہ مغربی عورت کی پہچان ہے اور ایک تصور فاطمۃ الزہرہؓ کا ہے جو مسلمان عورت کی پہچان ہے۔ مغرب کے دوہرے معیار کو دیکھیں ایک جانب بے حیا عورت کی یہ مادر پدر آزادی ہے جس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ دوسری جانب ایک مسلمان عورت اگر حجاب میں باہر آنا چاہتی ہے تو اس کے لیے کوئی شخصی آزادی نہیں، مغرب حجاب سے ایسے خوفزدہ ہے جیسے یہ کوئی بم ہو جو انہیں تباہ کردے گا۔

حجاب محض سر کو لپیٹ لینے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مجموعہٓ احکامکا نام ہے یہ اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا ہے، عورت کو توقیر عطا کرتا ہے، خاندانوں کو محفوظ و مستحکم کرتا ہے اور باہمی اعتماد کی بحالی کے ذریعے محبتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔