آج مغرب کے ان غیر منصفانہ ہتھکنڈوں نے مسلمان عورت کو بیدار کردیا ہے اور شرق وغرب میں حجاب کی بڑھتی ہو ئی لہراس بات کا وا ضح ثبوت ہے کہ وہ اپنی اقدارپر کسی کا تسلط برداشت نہیں کریں گی ۔
*حجاب پسماندگی یا آزا دی ؟
اب مسلمان کے عورت سر پر اسکارف آزا دی کی توانا علامت ، مسلمان عورت کے اعتما دسے بھرپورتفاخراور مسلم شناخت کا احساس بن کر اُبھررہا ہے ۔پسما ند گی سے عزت وافتخاراور آزادی کی علا مت تک کا یہ سفر اور ارتقاء بڑا حیرت انگیز ہے ۔ یہ اکیسویں صدی ہے ۔ہم حضور نبی کریم ﷺ کی لا ئی ہو ئی آخری آسمانی ہدایت کی طرف لو ٹ رہے ہیں جنہوں نے عورت کو انسا نیت کے شرف سے آشنا کیا ۔ سر اٹھا کر جینا اوراپنے حق کے لیے بولنا سکھایا۔ جنہوں نے عورت کو ان بوجھوں سے نجا ت عطا کی جو زمانے نے اس پر لا د دیئے تھے اور ان زنجیروں سے آزاد کروا یا جن میں معا شرے نے اُسے جکڑا لیا تھا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ
*.....حجاب عورت کوتقدس ہی نہیں تحفظ بھی عطاکرتا ہے ۔ یہ شیطا ن اور اس کے حواریوں کی ناپاک نظروں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہے
*.....جب عورت پردہ اتار دیتی ہیں تو اس کی مثال فوج کے ایک سپا ہی جیسی ہوتی ہے جو میدانِ جنگ میں اپنے ہتھیارپھینک دے اور خود کو دشمن کے حوا لے کر دے۔ کیوں کہ پردہ اس کا رزارِحیات میں مسلمان عورت کی ڈھا ل ہے
*.....ایک مسلمان عورت کے لیے یہ ایمان کے بعد خوبصورت ترین تحفہ ہے جو معا شرے سے بے حیا ئی کی جڑ کا ٹ کراس کی نسلو ں کو پا کیزہ ماحول مہیا کرتا ہے ۔
*.....حجا ب عورت کو ظاہری نمود و نما ئش اور غیر ضروری اخرا جا ت سے رو کتا ہے اور سادگی سکھاتا ہے ۔
*....شرم وحیا عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفا ظت پردے کے بغیر ممکن نہیں ۔
*....ایک با حجاب عورت بلا ضرورت گھر سے با ہر نکلنے سے گریز کر تی ہے ، اس طرح وہ اپنے گھریلو فر ائض کے لیے زیا دہ وقت نکا ل سکتی ہے ۔ یہی وہ عمل ہے جس کو اللہ کے نبی ﷺ نے عورتوں کو جہا د کہا ہے ۔
*.....ایک با حجا ب عورت زیا دہ پر اعتما د ہو تی ہے کیو ں کہ وہ نہ صرف خود کو محفو ظ سمجھتی ہے بلکہ اسے معا شرے میں عزت کی نگا ہ دیکھا جا تا ہے ۔
*.....وہ ماحو ل کی آلو دگی اور مو سم کی شدتو ں سے دیگر کی بہ نسبت زیا دہ محفوظ ہو تی ہے ۔
*.....ایسی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے جو لبا س پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں اور نبی پا ک ﷺ کے فرما ن کے مطا بق وہ جنت کی خو شبوتک نہ پا سکیں گی ۔
* حجا ب اور شا عر مشرق
شاعر مشرق علامہ محمد اقبا ل ؒ عورت کو مخاطب کرکے فرما تے ہیں
بتولے با ش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرےؓ بگیرے
’’بتول بن جا ؤاور اس زما نے کی نظروں سے چھپ جاؤ کہ تمھا ری گود میں پھر ایک حسینؓ پرورش پا سکے ۔
ان کے خیال میں اللہ تعا لی کو یہ حجا ب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پا بند بنا تا ہے تا کہ وہ اپنی تخلیق کی بہتر حفا ظت اور پرورش کر سکے ۔ چنا نچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں ۔
حفظ ہر نقش آفرین از خلوت است
خاتمِ اُو را نگین از خلو ت است
آفا ق کے سا رے ہنگا مے پر نظر ڈا لو ۔ تخلیق کرنے وا لی ہستی جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفا ظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہو تی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے
ایک اور جگہ فرما تے ہیں
بہل اے دختر ک ایں دلبریھا
مسلمان را نہ زیبد کا فر یھا
منہ دلبر جما ل غا زہ پروہ
از نگا ہ بآ مو ز غا رت گری ہا
اے میری پیاری چھوٹی بٹیا !یہ آرا ئش و زیبا ئش چھوڑدے ۔ مسلمانوں کو یہ کا فرانہ ادا ئیں زیب نہیں دیتیں ۔اس مصنوعی آرائش وغا زے کی سرخی کو چھوڑ کر کردارکی طا قت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ اقبال کی شاعری کو بطور فیشن ہر مقرر اپنی تقریر کی زینت بنا رہا ہے ۔ ہمیں اُن کی شاعری کے اصل پیغام کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو نا چا ہیے ۔
*ہمیں کیا کرنا ہے؟
ہمیں مغرب کے منا فقانہ طرز عمل کے خلا ف ہر سطح پر آواز اٹھا نی چا ہیے اور دنیا بھر میں پردے اور حجا ب کی بنیا د پر امتیازی سلو ک یا تعصب کا نشا نہ بننے والی خوا تین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چا ہیے۔
*اس با ت کا اظہار میڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوبصورتی کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی خود عورتوں کی جا نب سے مذمت اور مخالفت کی جا تی ہے ، عورتیں اس استعمال کو اپنی تو ہین سمجھتی ہیں ۔
* معا شرے میں حیا کے چلن کے فرو غ کے لیے جدوجہد کرنی چا ہیئے جس کے لیے قرآن وسنت دونوں اصنا ف (مردوں اور عورتوں ) کو وا ضح ہدا یت دیتے ہیں ۔
*معاشرے میں عور ت کے اس تحفظ اور احترام کو یقینی بنانا جس کی بنیا د پر ہم اسلا م اور مسلمانوں کو مغرب سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس برتری کو ثابت بھی کرتے ہیں ۔
*مغربی اور بھا رتی کلچر کے اثرا ت کے با عث عورتوں کو عریا نیت کی طرف لا نے وا لے عوامل کی اصلاح کونا ۔
*یہ بتانا کہ حجاب ایک رویہ بھی ہے ا ور اس کا اظہا ر بھی ۔ پردہ نہ صرف دل اور آنکھ کا ہے اور نہ صرف اوپراوڑھے ہو ئے حجا ب کا، بلکہ ان دونوں پہلوؤں سے مکمل ہو تا ہے اور نہ ادھورارہتا ہے۔
*....آئیے عہد کریں ۔
*......4ستمبر یو مِ حجا ب پر ہم سب اس با ت کا عزم کر لیں کہ حجا ب محض سر لپیٹنے کا نا م نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے پورے معا شرے کو شیطان اور اس کے چیلوں سے آزا دی دلا نی ہے ۔ یہ نظام شیطا نی اخلا ق سے آزادی حاصل کرنے اور اور اپنے معا شرے اور اپنے خا ندا ن کو مستحکم بنیا دوں پر استور کرنے کا نظا م ہے ۔
*...حجا ب ایک تحریک ہے ، چا روں بتولؓ اور یا دگا ر فا طمہؓ و عا ئشہؓ ہے ۔ بس یہی ایک ذریعہ ہے ، جس سے اپنے معاشرے اور مستقبل ایک پا کیزہ نسل انسا نی چھو ڑ کر جا سکتے ہیں ۔
*....اپنے بہترین خا ندا نی نظام اور اقدار کی حفا ظت وقدردا نی کریں اور اپنی نسلو ں کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں کریں تا کہ حیا کا کلچر پروان چڑھے ۔
*......قوموں کی عزت ہم سے ہے!
عورت ہی تہذیب کی عما رت کا ستون ہے ۔ وہ ما یوسیوں میں امید کے چرا غ کو رو شن کرتی ہے ۔ اپنے خون جگر سے ایک بے جا ن لو تھڑے کو انسا ن بنا تی ہے ۔ اس کے کردا ر سے قومیں سر بلند ہو تی ہیں ۔ وہ ایک رو شن مشعل کی طرح اندھیروں سے لڑبھڑ جا نے کا حوصلہ رکھتی ہیں ۔ کبھی نہ بجھنے وا لے چرا غ کی مانند نسل نوکی را ہنمائی کرتی ہیں ۔ اُس کی پکا ر ہمیشہ محبت کی پکا ر ہو تی ہے۔ اس کی صد ازندگی کا پیا م بن کر صدیوں سے را ہیں منور کررہی ہے ۔ آئیے اس کی ردااسے و لوٹا نے میں اپنا حصہ ڈ الیں ۔ یہ حوا کی بیٹی آپ سے عزت ، محبت اور تحفظ ما نگتی ہے۔ کیا آپ اپنے یہ کردا ر ادا کریں گے ۔؟؟؟؟؟؟؟؟