اسلام اولین مذہب ہے، جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سربلند کرکے معاشرے کی ہوسناکی سے پاک کیا ہے۔ عورت کا پردہ بلاشبہ اک دینی امر ہے جس کا مقصد معاشرے کو خطرناک مرض (جسے قرآن نے فحش قرار دیا ہے) سے بچانا ہے۔ حیاء نصف ایمان ہے جو معاشرے کو مضبوط و قوی تر کر دیتی ہے جبکہ بے حیائی و فحاشی معاشرے کو صالحیت سے نکال کر گمراہ کردیتی ہے۔
عورت کی عصمت کے تحفظ میں بڑا دخل اس کی وضع و لباس کے وقار کو ہے۔ جس خاتون کا لباس و چال ڈھال حیادارانہ ہو وہ اذیت رسانی سے محفوظ رہتی ہے۔
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور فتنہ و فساد کو قتل سے بھی زیادہ شدید تر قرار دیتا ہے۔
والفتنہ اشد من القتل (سورہ البقرہ ۱۹۱)
اور فتنہ قتل سے بھی سنگین تر ہے۔
قرآن پاک کے نزدیک فتنہ ہر وہ چیز ہے جو انسانی دل ودماغ میں کشمکش کا باعث بن کر نفس کا غلام بنادے کہ اس کا پھر حق و صداقت پر قا ئم رہنا مشکل ہوجائے۔ خطرناک ترین فتنہ شیطان کا ہے جس نے انسان کو بہکانے کا آغاز ہی بے حجا بی سے کیا۔ ارشادربانی ہے:
اے بنی آدم کہیں تمہیں شیطان اس طرح نہ بہکادے جس طرح اس نے (بہکا کر) تمہا رے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا اور ان کے لباس اتروادیے تھے تاکہ ان کے ستر انہیں دیکھادے۔ (الا عراف : ۲۷ )
حیاء نصف ایمان ہے اور معاشرتی اصلاح کے لیے شریعت اسلامیہ میں ستروحجاب کے احکام اتنے ہی اہم ہیں جتنے نکاح و طلاق کے تاکہ شیطانی نفس کے لیے کہیں سے چور دروازہ نہ نکل سکے۔ اجنبی عورتوں کے حسن و زینت سے لطف اندوزہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو دیکھنا عورتوں کے لیے فتنہ کا موجب ہے جس کی روک کے لیے غض بصر کا حکم دیا گیا۔ مسلمانوں کو نظر کی حفاظت کا تاکیدی حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ اتفاقا پہلی نگاہ معاف ہے اور فوری نظر پھیر لینے کا حکم ہے اور دوسری قصدا نگاہ ڈالنا گناہ ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
اے علی! ایک بار نظر پڑ جانے کے بعد دوبارہ نہ دیکھو کیونکہ پہلی نظر تو تمہیں معاف ہے دوسری نہیں۔ (مشکوۃ ۔ ترمذی)
شریعت الہی میں احکام اللہ کی جانب سے ہیں جس میں ذرہ برابر بھی تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ احکام حجاب میں عورت کی عفت و عصمت کی حفاظت کے سارے سامان موجود ہیں جن سے روگرانی کی صورت میں بہت سے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ عورتوں اور مردوں کا آزادانہ میل جول، مخلوط تقریبات، ایک ہی مجلس میں مل بیٹھ کر خوش گپیاں یہ سب حیاء کے منافی اور اسلامی تہذیب کے خلاف ہیں، ضرورت کی بناء پر عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت حجاب کی پا بند یوں کے ساتھ دی گئی ہے تاکہ فتنے کے تمام امکانات ختم ہوجائیں، آپﷺ جب صحابیا ت سے ( جو امت مسلمہ کی بہترین و صالح ترین خواتین تھیں) بیعت لیتے تو ان سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے بلکہ ایک پیالے میں پانی ڈال کر سامنے رکھ لیتے تھے۔ خواتین اس میں ہاتھ ڈالتی جاتیں تھیں آپ بھی اس میں ہاتھ ڈالتے۔ بس اسی کو خواتین کی بیعت فرمایا۔
آپﷺ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا کرتا ( مسند احمد )۔
غرضیکہ پردے و حجاب کا حکم اسلامی معاشرتی نظام کی اساس ہے۔ نص قرآنی ہے، واجب الادا ہے اس کو ترک کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جیسے ارکا ن اسلام کے ادا نہ کرنے کا وبال ہے۔دنیا میں کفر و شرک سے بڑھ کر بے حیائی مہلک ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
دنیا شیریں اور ہری بھری ہے۔ اللہ تعالی تمہیں اس میں حاکم بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم اس میں کیسے عمل کرتے ہو؟ پس دنیا میں محو ہوجانے سے بچو اور عورتوں سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں سے شروع ہوا تھا۔ (مسلم)
یہاں عورتوں سے بچنے سے مراد بغیر نکاح کے چوری چھپے آشنائیاں اور غیر شرعی طرز عمل ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
اے نبی ﷺ! کہہ دیجیے اپنی بیویوں، بیٹیوں، اور مومن عورتوں سے اپنے اوپر چادر کے پلو لٹکالیں تاکہ وہ پہچانی جاسکیں اور کسی بھی قسم کی ایذا نہ پہنچ سکے۔ (سورہ احزاب ۳۳: ۵۹)
یہاں پہچانے جانے سے مراد مومن عورت کا باحیاء پہچانا جانا ہے یعنی وہ عزت مآب اور اپنی آبرو کی رکھوالی کے طور پر پہچانی جاسکیں اور کسی بھی ہوس پرست کی ایذارسانی کا شکار نہ بن سکیں .قوموں کا عروج عورت کی حیاء اور مرد کی غیرت میں مضمر ہے اور جب عورتیں بے حیاء ہوجائیں اور مرد بے غیرت تو پھر اقوام اپنے دفاع سے غافل ہوجاتیں ہیں۔ عورت میں حیاء اور مرد میں غیرت دو ایسی خصوصیات ہیں جن کی اساس ماحول اور معاشرے پر نہیں انسانی جبلت پر ہے۔ جب تک گمراہ کن تصورات اور ترغیب و تحریص سے ان کی فطرت بالکل مسخ کر کے نہ رکھ دی جائے، مرد بے غیرت اور عورت بے حیاء نہیں ہوتی اور موجودہ معاشرے میں عورت کو مساوات مرد و زن کا نعرہ دے کر چراغ محفل بناکر اس کی فطرت کو مسخ کردیا ہے، ملک کی ترقی کا مفہوم معاشی ترقی سمجھ کر عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ لاکر معاشی میدان میں کھڑا کردیا ہے اور نسل نو کی تربیت، انہیں انسانی اخلاق و اقدارسے مزین کرنا، اولاد کی کردارسازی کے جملہ امور کو انجام دینے کی فطری ذمہ داری سے غافل کرکے کسب معاش کی پر مشقت اور جان جوکھوں کی ذمہ داری بھی عورت پر ڈال کر اس پر دوہرا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ نتیجے میں عورت کی نسوانیت، فطرت مسخ ہوچکی ہے۔
اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دے کر اولاد کی بہترین خطوط سے پرورش اور انسان سازی کی ذمہ داری ڈالی تھی اور ماں، بہن، بیٹی و بیوی کی صورت میں مرد کو نان نفقہ کی صورت میں ذمہ دار بناکر ایک جانب عورت کو کسب معاش کے بوجھ سے بے فکر رکھا گیا ہے تو دوسری جانب عورت اور مرد کو مخلوط ماحول سے محفوظ کرکے معاشرے کو ان تمام خرابیوں سے بچانے کی موئثر طور پر تدبیر کی گئی ہے مگر آج معاش کا مسئلہ بنا کر عورت کو چراغ محفل بنادیا گیا ہے۔ اس میں ملازمت کی شرائط میں ستروحجاب سے عاری، بہترین تراش خراش سے مزین ناکافی لباس کو مقدم رکھ کر، عورت کو بل بورڈز اور ہر چیز کے اشتہار میں پیش کرکے تجارتی جنس بنادیا گیا ہے۔ تجارتی منڈیوں میں عورت کا استعمال اخلاقی پستی و گراوٹ ہے جو موجودہ معاشرے میں بھرپور نظر آرہی ہے۔ تعلیمی و دیگر اداروں میں حجاب کو سخت پابندیوں کی زد میں لاکر گمراہ کن پروپیگنڈے اور شیطانی ترغیبات سے مزین ماحول کے ذریعے ذہنی آلودگی پھیلائی جارہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حجاب کو معاشرے کی تطہیر کا ذریعہ بنا کر شیطانی قوتوں کا آلہ کار بننے سے بچایا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دشمن جب بھی کسی قوم کو اپنے زیر تسلط لانا چاہتا ہے تو بے حیائی اور بے غیرتی میں مبتلا کرکے اقوام کو اپنے دفاع سے غافل کر دیتا ہے۔ جب تک مرد میں ایمانی غیرت اور عورت میں حیاء و وقار کی حفاظت کا جذبہ رہا اس قوم کا کوئی بال بیکا نہ کرسکا۔