November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

میں بہت خاص ہوں

غزالہ عزیز

دنیا بھر میں اسلام کے خلاف جس قدر پرو پیگینڈا کیا جارہا ہے واقعہ ہے کہ اسی قدر اسلام ایک زبردست روحانی قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوا رہا ہے۔ مغرب اور مغرب سے متاثر سیکولر طبقہ اسلام کو عورت مخالف مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے نہیں تھکتے لیکن اس تمام تر مخالفت کے باوجود یورپ میں ہر پانچ اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں چار خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ کے ہر بڑے شہر کی مساجد میں اگرچہ روز ہی کوئی نہ کوئی اپنے آپ کو امام کے سامنے پیش کرتا نظر آئے گا کہ وہ مسلم ہونا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ ایک لمحہ کی تاخیر مناسب نہیں سمجتا لیکن یورپی خواتین کی تعداد حضرات سے زیادہ ہوگی جو یہ ہی تمننا لے کر مسجد میں داخل ہوگئیں مغربی لباس لیکن ڈھکے ہوئے سر کے ساتھ وہ اس تصور کا یقین لے کرآتیں ہیں کہ گویا انہوں نے اسلامی لباس زیب تن کیا ہوا ہے کیونکہ اب اسلامی لباس کے ساتھ اسکارف یعنی حجاب کا تصور گویا جڑا ہوا ہے۔

مسلم دشمنی کے اس ماحول میں اسلام قبول کرنا نو مسلم اور ان کے خاندان کے لئے نہ تو اتنا آسان ہے اور نہ ہی اس میں بظاہر کوئی ایسی کشش ہے کہ ظاہری ترجیح کسی طور پر  ان کے لئے منافع بخش ہو۔ پھر 9/11 کے بعد 2004 تک صرف برطانیہ میں چودہ ہزار برطانوی شہریوں نے اسلام قبول کیا۔ ٹی وی پروگرام میں ان نو مسلموں نے بتایا آج جب کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی بات کر رہی ہے تو یہ نو مسلم اسلام اور مغرب کے درمیان ایک پُل کا کام دے سکتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے یہ پوری دنیا کے لئے اُمید افزا بات ہے۔ ان ہی نو مسلم خواتین میں شہناز ملک ہیں جو ایک سفید فارم خاندان میں پیدا ہوئیں انہوں نے اپنے ایشیائی دوست نصیر سے شادی کے بعد اسلام قبول کرلیا وہ کہتی ہیں کہ اس وقت نصیر کوئی پکے مسلمان نہیں تھے لیکن پھر وہ مذہب کی طرف راغب ہوئے لیکن ان سے پہلے شہناز مذہب اسلام کو اتنا سمجھ چکی تھیں کہ انہوں نے حجاب پہننا شروع کیا اور پھر بغیر کسی کے مجبور کیے ’’برقعہ‘‘ پہننا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ نصیر ان کے (شوہر) اس برقع پہننے والی خواتین کو ’’ننجا‘‘کہتے ہیں۔ لیکن شہناز اس بات سے بالکل حوصلہ نہ ہاریں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’’حجاب ‘‘نے انہیں عورتوں کے مقابلے حسن کے کلچر سے آزاد کر دیا ہے۔ اور وہ اس سے بہت خوش ہیں۔ یہ کلچر بقول ان کے مغرب پر چھایا ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے برقعے کا مذاق سفید فام لوگ تو اڑاتے ہی ہیں لیکن ایشیائی بھی اسے پسند نہیں کرتے۔

وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

شاید اس لیے کہ مغرب میں حجاب کو ظلم وستم اور تقسیم کا نشان سمجھا جاتا ہے اور مغرب میں اسلامی شعار حجاب کو بحث کا ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب کسی چیز کے بارے میں زیادہ بات کی جاتی ہے تو معاشرے میں اس بارے میں سوچنے والے لوگوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ہی ہو رہا ہے آزادی نسواں کی تحریک کے پردے میں مغرب نے خواتین پر جو ظلم کیے اس کا کسی قدر احساس دنیا کو ہو رہا ہے۔ بظاہر پرکشش لباس میک اپ سے سجے مسکراہٹ بھرے چہرے کے ساتھ مردوں کے دوش بدش چلنے والی عورت جو مغرب کی نظر میں ایک آزاد عورت ہے۔ اندر سے کس قدر پریشان ہے۔

آزادی اور برابری دینے کا دعویٰ رکھنے والی تہذیب عورت کو عالم شباب میں ہر طرح کی ملازمتوں کے لیے آگے بڑھاتی ہے لیکن تنخواہوں اور مراعات میں کبھی برابری کی سطح پر نہیں رکھتی۔ پھر عمر اور شباب ڈھلنے کے ساتھ ہی ہر جگہ اس کے لیے امکانات معدوم ہوئے جاتے ہیں۔ زندگی کے شعبے میں انہیں پیچھے دھکیلا جاتا ہے یہ عورت کے حسن و جوانی کا استحصال ہے جس کے خلاف وہاں وہ آواز بھی اٹھا نہیں سکتی۔

ایک جدید تحقیق بتاتی ہے کہ قدامت پسند لباس اور حجاب پہننے والی خواتین میں اپنی جسمانی شبیہ کا تصور زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس بات سے محقیقین نے یہ کہا ہے کہ مذہب کو تنہا خوبصورتی کے اطمینان کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔ جس سے مغرب کے آئیڈیل خوبصورتی کے تصور کے خلاف مزاحمت کی جا سکتی ہے۔

محقیقین نے پتا لگایا کہ جو خواتین اپنی ثقافتی اقدار کے سا تھ نمایاں منسلک تھیں ان میں مغربی خوبصورتی کے معیار کے لیے دباؤ کم تھا۔ یعنی یہ آرزو کہ ’’ کاش کہ میں اس میگزین کی ماڈل جیسی خوبصورت نظر آؤں‘‘ تحقیق کے نتائج میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو خواتین باقاعدگی کے سا تھ قدامت پسند لباس پہنتی ہیں وہ اپنی جسمانی ساخت سے مطمئن تھیں۔ ان میں دبلے ہونے کی طرف دھیان کم تھا اور موٹا ہونے کا خوف بھی کم تھا۔ انہوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’پردہ دراصل جسمانی ساخت کے منفی تصور کے خلاف ایک ڈھال بن جاتا ہے۔

یہ معاملہ صرف ذاتی تسکین ہی کا نہیں ہے بلکہ خواتین جس قدر کھلی اور صاف طور پر نظر آئیں گی نظریں اُسی قدر باریکی سے اُن کا جائزہ لیں گی۔ آپس کی ملاقات میں گفتگو بعد میں ہوتی ہے اور بعض دفعہ ہوتی ہی نہیں لیکن پہلا تاثر لباس کا ہوتا ہے۔ ہر فرد کا لباس خصوصاً خواتین کا دوست ہو یا اجنبی ہر ایک سے کلام کرتا ہے چاہے براہ راست بات ہو یا نہ ہو۔ حجاب خواتین کے لئے ڈھال ہے۔ نظر کے اُن تیروں کے خلاف جن کا سامنا بے حجاب خواتین کو کرنا پڑتا ہے پردہ اور حجاب کا حکم عورتوں کو عزت و وقار عطا کرنے کے لیے ہے۔ ’’ھدی خطیب ‘‘جو برطانوی نو مسلم ہیں کہتی ہیں کہ میں اس لیے پردہ کرتی ہوں تا کہ لوگوں کو پتا چل سکے کہ میں ایک مومنہ ہوں اور دوسرے سے مختلف ہوں پھر یہ کہ پردہ مجھے وقار عطا کرتا ہے، یہ سچ ہے کہ ایک پردہ دار خاتون کا لباس دوسروں کو زبان حال سے یہ بتا رہاہے کہ ’’میں بہت خاص ہوں ‘‘ ۔