March 28th, 2024 (1445رمضان18)

حجاب۔۔۔ عورت کی آزادی کا ضامن

عمران ظہور غازی

اسلام دین فطرت و رحمت ہے، یہ زندگی گزارنے کا مکمل سلیقہ ہے زندگی کے تمام دائروں پر محیط یہ نظام، زندگی کے ہر پہلو سے رہنمائی کا اعلیٰ و اکمل نمونہ ہے۔کامل و اکمل یہ نظام زندگی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، جو ہر دور،علاقے اور زمانے کے انسانوں کے لئے ہے ۔موجودہ دور جو بجا طور پر سائنسی ایجادات و اکتشافات کے عروج کا زمانہ ہے، انسان ترقی کے بام عروج پر نظر آتا ہے اور چاند پر پہنچنے کے بعد اب دوسرے سیاروں کی تسخیر کا عزم کیے ہوئے ہے۔مادی ترقی اور عروج کا یہ پہلو بھی قابل قدر اور بجا ہے لیکن ایسی ترقی جو انسان کو بلند مراتب پر فائز کرے اور وہ خالق کائنات کے دیے ہوئے روڈمیپ پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے مقصد زندگی کو پورا کرنے لگے۔وہ ناپید اور اس سے کوسوں دور ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ انسانی زندگی پریشانیوں،مصیبتوں اور دکھوں میں گھری ہوئی ہے اور یہ مصیبتیں ،یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ان دکھوں اور پریشانیوں کا مداوا اسلام،قرآن اور پیغمبر اسلام حضرت محمد کی سیرت و اسوہ کی صورت میں انسانیت کے پاس موجود ہے کہ چاہے وہ اس سے روشنی پا لے اور جو نہ چاہے وہ محرومی اپنا مقدر کر لے۔ انسانیت اسلام کے دامن رحمت کی پناہ میں آ جائے تو مصیبتوں اور دکھوں سے نجات پا سکتی ہے۔

اسلام کا ایک شعار اور فخر حیا ہے، یہ مسلمان عورت کا امتیاز اور وقار ہے اورحجاب اس کا ایک عمدہ اظہار ،آج مغرب میں ’حجاب ‘کا غلغلہ ہے لیکن مغرب حجاب سے سخت خائف ہے ۔فرانس ،اٹلی ، بلجیئم ،ہالینڈاور ڈنمارک میں ’حجاب ‘ پر پابندی اسی کی غماز ہے۔بعض مسلمان ممالک بھی مغرب کے پیروکار ہیں۔حجاب عورت کے لئے آزادی،تحفظ اور پناہ کی علامت ہے۔یہ عورت کو غلط نظروں اور جدیدیت کے خراب اور طوفانی موسم کے برے اثرات سے محفوظ بنانے ، پاکیزگی اور نیکی کے بلند مراتب پر فائز کرنے اور تہذیب و شائستگی سے ہمکنار کرتا ہے۔

مغرب اور اس کے’ روشن خیال‘ طبقے نے نصف صدی قبل تحریک آزادئ نسواں کے نام پر،عورتوں کو’ آزادی‘ دلانے، مرد و زن کی معاشرتی ذمہ داریوں میں تفریق ختم کرنے کی ایک تحریک کا آغاز کیا۔پیش نظر یہ تھا کہ عورت گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے۔ اصل ہدف مسلمان عورت تھی اور اسلام کے خاندانی نظام کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا تھا۔اس مہم جوئی میں عالمی میڈیا اور عالمی ادارے بالخصوص اقوام متحدہ ایک تھے۔اس کا نتیجہ ہے کہ مساوات مرد و زن اور عورتوں کے حقوق کے نام سے شروع ہونے والی یہ تحریک آج ہم جنس پرستی ، مساج سنٹرز ،ڈاگ میرج ، عریانی،فحاشی کی اشاعت،جنسی بے راہ روی ،برہنگی ،بن بیاہی ماؤں اور بن باپ کے بچوں ،شرح طلاق میں اضافے،منشیات کے بے تحاشا استعمال (شراب نوشی) اور موذی امراض(ایڈز) پر منتج ہوئی ہے۔

مغرب اور تہذیب مغرب نے اسلام اور اسلام کے فطری اصولوں سے بغاوت کا راستہ اپنایا، آزادئ نسواں ، مساوات اور آزادی کے خوشنما اور دلفریب نعروں میں مبتلا کرکے معاشروں کو تہذیب و شائستگی اور حیا سے محروم کیا۔ اسلام اور اسلامی شعائر، ناموسِ رسالت، اسلام کے خاندانی نظام اور حجاب کو ہدف بنا کر غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ اور اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کیں، اس شر سے یہ خیر برآمد ہوا کہ خود اہل مغرب میں اسلام سے رغبت پیدا ہوئی اور تجسس بڑھا لہٰذا مردوں کے ساتھ عورتوں کی بڑی تعداد نے اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لی اور حجاب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔مغرب کی حجاب مخالف مہم کا ہدف مسلمان عورت ، مسلمان خاندان اورمسلم معاشرے ہیں حجاب مخالف یہ مہم تہذیب و شائستگی اور حیا کو رخصت کرکے، بے حیائی ،فحاشی،عریانی،بدتہذیبی ، جنسی بے راہ روی اور آوارگی کو فروغ دینے کی مہم کا حصہ ہے ۔آج مسلمان عورت ہی نہیں خود مغربی عورت بھی حجاب کو اپنے لئے تحفظ اور آزادی کی علامت سمجھتی ہے۔

۴ستمبر کا دن بطور عالمی یوم حجاب منایا جاتا ہے جس سے تحریک حجاب کو ایک نیا آہنگ اور جوش و جذبہ میسر آتا ہے۔اسلام کو سمجھنے اور اسلامی اقدار کے رجحان میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔دنیا بھر میں یہ رجحان اور جذبہ روز افزوں ہے۔ حجاب اسلام اور قرآن سے متاثر ہو کر اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی خواتین میں مریم جمیلہ (امریکہ) ایوان ریڈلی (برطانیہ) سارہ بوکر(امریکہ) لورین بوتھ(برطانیہ) اور ٹیرا بلیک تھورن(امریکہ) نمایاں مقام رکھتی ہیں۔اسلام اور حجاب کے بارے میں ان کے تاثرات نہایت ایمان افروز ہیں۔

نصف صدی قبل سید ابوالاعلی کی کتب سے متاثر ہو کر انہی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ لکھتی ہیں ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہ نام نہاد سیکولر اور آزاد خیال ممالک کپڑے کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے (سکارف) سے خائف ہیں جس سے مسلمان عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کرتی ہیں حتی کہ ان ممالک میں پبلک مقامات پر عورتوں کو نقاب پہن کر جانے پر جرمانہ عائد کرنا شروع کر دیا ۔یہ اصل میں نقاب نہیں نقاب کے پیچھے مسلمان عورت کا نورانی چہرہ ہے جس کی ایمانی حرارت سے یہ لوگ خائف ہیں۔‘‘

طالبان کی قید سے شہرت پانے اور قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ایمان قبول کرنے والے نامور برطانوی صحافی ایوان ریڈلی کہتی ہیں کہ ’’ فرانس میں حجاب پر اس لئے پابندی لگی ہے کہ وہاں کی خاتون اول کی عریاں تصاویر نیٹ پر موجود ہیں، یہ بات ان کو بری لگتی ہے کہ جب ہم سارے زمانے کیلئے موجود اور دستیاب ہیں تو یہ مسلمان عورت کیوں حجاب میں رہے‘‘۔

ایک راسخ العقیدہ عیسائی گھرانے میں پرورش پانے والی، ایکٹریس ،ماڈل ، ٹیچر اور سیاسی کارکن سارہ بوکر 9/11کے بعد اسلام قبول کرکے حجاب اختیار کرتی ہے ۔اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں’’مجھے اپنے اسلام قبول کرنے اور حجاب پہننے کے فیصلے پر کوئی ندامت نہیں۔ مَیں نے فلوریڈا کے جنوبی ساحل پر تیراکی کے لباس اور مغرب کی گلیمرانہ زندگی کو اس لئے چھوڑا کہ مَیں اپنے خالق کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں اور انسانوں میں ایک انسان کی حیثیت سے رہوں۔ یہ وجہ ہے کہ مَیں نے حجاب کا انتخاب کیا۔ مَیں مرتے دم تک اپنے حجاب کے حق کا دفاع کرتی رہوں گی۔آج حجاب خواتین کی آزادی کا جدید نشان ہے‘‘۔

آج مغرب فطرت کے خلاف جنگ آزما ہے۔ معاندانہ روش پر مبنی مغرب کا یہ رویہ عدل و انصاف کے منافی اور انسانیت کے دکھوں میں اضافے کا موجب ہے ۔عورت کو ڈھال بنا کر اس کے تقدس کو مجروح کرکے اسے مقام بلندسے گرانے کے اس رجحان نے خود مغرب اور مغربی معاشرے اور مغرب کے خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ مغرب کی خواہش ہے کہ مسلمان معاشرہ اس کی پیروی اور تقلید کرے۔ عورت جنس بازار بن کر کمرشل اشتہارات،میڈیا،ٹی وی اور فلموں میں اپنے جسم کی نمائش کرے اور شہوت پرستی میں غرق ہوکر اپنی عفت و عصمت اور معصومیت سے دستبردار ہو جائے اس سارے کھیل میں مغرب ،عالمی میڈیا اور عالمی ادارے یہود کی ڈکٹیشن پر عمل پیرا ہیں۔ یہودی ذہن عورت کو بے حجاب کرکے اپنے سفلی اور کمرشل مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مغرب حجاب سے اسلئے خوفزدہ ہے کہ اس سے اس کی فیشن انڈسٹری خطرے میں ہے۔یہ بہت خوش آئند ہے کہ مسلمان عورت حجاب پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔نوجوان نسل چاہے مشرق میں بستی ہو یا مغرب میں قیام پذیر ہو وہ اپنی تہذیبی علامتوں اور شعائر کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کی آمادہ و تیار نظر آتی ہے۔مروہ الشربینی کی شہادت تحریک حجاب کے راستے کی پہلی شہادت تو ہو سکتی ہے آخری نہیں۔یہ حجاب کے ساتھ نوجوان نسل کی وابستگی کا اعلیٰ ، عملی اور عمدہ اظہار ہے۔حجاب عزت وقار آزادی اور حیاکا ضامن ہے۔عورت اس سے تحفظ پاتی ہے۔ اور خاندانی نظام کو اس سے تقویت ملتی ہے ۔آئیے مل کر اسلام کے اس نشانِ امتیاز کی حفاظت کریں جو اسلام کے وقار کی علامت بن چکا ہے