May 7th, 2024 (1445شوال28)

ایمان کی نشانی شرم وحیا

حافظ محمد ادریس

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق پر شرف عطا فرمایا ہے۔ انسان کو اللہ نے عقل وشعور اور قوت فیصلہ عطا کی ہے۔ انسان، زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ انسان کی جو صفات اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرتی ہیں، ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حس اور جذبۂ عفت ہے۔ انسان کا لباس اسے موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسے زیبایش وخوب صورتی بھی فراہم کرتا ہے لیکن سب سے اہم مقصد جو لباس سے پورا ہوتا ہے، وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیاداری کا پاس ہے۔

اسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریمؐ نے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہرذلت وپستی میں گرنے کے لیے ہروقت آمادہ رہتا ہے جب کہ باشرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجوداپنے شرف انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ کا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابل تقلید ہے۔ آپؐ میں تمام فضائل حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے۔ شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپؐ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپؐ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔

امِ معبد عرب کی ایک بدوی خاتون تھیں۔ آنحضورؐ اس کے خیمے میں مختصر وقت کے لیے رکے تھے۔ اس نے آنحضورؐ کا جو دل نشین حلیہ بیان فرمایا تھا، اس میں آپؐ کی شرم وحیا اور آنکھیں نیچی رکھنے کا بالخصوص ذکر ملتا ہے۔ آپؐ جب کبھی کسی نوجوان کو کسی غیرمحرم عورت کی طرف نظریں گاڑے دیکھتے تو اسے اس سے منع کرتے۔ سیدنا فضل بن عباسؓ آپؐ کے چچا زاد اور محبوب تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج کے سفرمیں آپؐ کی سواری پر آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ جب ایک مقام پر کچھ عورتیں آپؐ سے سوال پوچھنے لگیں توسیدنا فضلؓ کی نظریں بے توجہی میں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ان کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔

نبی اکرمؐ جس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے، اس میں دیگر اخلاقی خوبیوں کے معدوم ہوجانے کی طرح شرم وحیا کا وصف بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ بے حیائی کے تمام مظاہر کھلے عام نظر آتے تھے۔ مادرزاد ننگے ہوکر بیت اللہ کا طواف کرنا بھی معیوب نہ رہا تھا۔ ایسے ماحول میں جنم پانے کے باوجود اپنے بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی ننگے جسم آپ گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ آپؐ نے کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

ایک غیرمحرم مرد اور عوت کا کسی جگہ تنہائی میں اکٹھے ہونا شرم وحیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے۔ اسی لیے آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ جب دو غیرمحرم مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ نبی پاکؐ نے زندگی بھرقضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا حالاں کہ عرب کے اس معاشرے میں اس کا ایسا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ آپ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے۔ یہ آداب بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی بہت بڑی معاشرتی اہمیت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہے۔ جب وہ اس صفت سے عاری ہوجائے تو پھر رذالت وخباثت کا ہرکام ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ آج کل فحاشی وعریانی جدید ثقافت کا اُسی طرح حصہ بن چکی ہے جس طرح جاہلی ثقافت کا حصہ تھی۔ مخلوط محفلیں روشن خیالی اور جدّت وترقی کی دلیل سمجھی جاتی ہیں۔ حالاں کہ یہ قدیم جاہلیت کا بھی طُرہ امتیاز تھا۔ آج کل فیشن کے نام پر مردوخواتین کے لباس ساترہونے کے بجائے عریانی کے پیامی ہوتے ہیں۔ حیا، اللہ ربّ العالمین کی طرف سے بندے کے لیے اس کی حفاظت کا قلعہ ہے۔ حیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں سے عذاب ٹالتا رہتا ہے۔ حیا سے محرومی بہت بڑی مصیبت اور بدنصیبی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو ابتدائی عمرہی میں حیا کے قیمتی زیور سے محروم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ نے لوگوں کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب، کتاب ہو یا خطاب، اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک حدیث میں تو نبی کریمؐ نے بے حیائی کے خلاف یہاں تک تنبیہہ فرمائی ہے کہ اس فرمان نبویؐ کے مطابق حیاسے محروم شخص کے ایمان سے بھی محروم ہوجانے کی وعید آئی ہے۔

آپؐ کا ارشاد ہے ’’اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کافیصلہ کرتا ہے تو اسے حیاسے محروم کردیتا ہے۔ جب کوئی حیاسے محروم ہوتا ہے تو نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ نفرت میں مبتلا ہونے کے بعد امانت ودیانت کی صفت بھی اس سے چھن جاتی ہے۔ خائن آدمی، اللہ کی رحمت کا حق دار نہیں رہتا اور جس سے اللہ کی رحمت روٹھ جائے وہ بدترین لعنت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس لعنت وملامت کی کیفیت میں اس بدقسمت کے دل سے اسلام وایمان بھی رخصت ہوجاتا ہے‘‘۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ بے حیائی وفحاشی کو ہلکا سمجھ کر اس سے آنکھیں بند کرتے ہیں، پھر اسے گوارا کرنے لگتے ہیں، پھر اس کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں اور آخر میں ان کے قدم اس کی طرف اٹھ جاتے ہیں تو وہ کس قدر خطرناک کھیل میں مصروف ہیں۔ دراصل ہلاکت محض جسمانی طور پر تباہ وبرباد ہوجانے کا نام نہیں ہے بلکہ ہلاکت دل کے بے نور ہوجانے اور روح کے مردہ ہوجانے کا نام ہے۔ آپؐ خود بہت حیادار تھے۔ صحابہؓ کے دلوں میں بھی آپؐ نے اس کی جوت جگائی اور پورا معاشرہ شرم وحیا کی حیات آفرین فضاؤں میں پروان چڑھایا۔

آپؐ کے صحابہؓ میں بھی اسلام اور سنت رسولؐ کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کا یہ اعزاز تمام صحابہؓ بھی ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم وحیا کا پتلا تھے، ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انھوں نے اپنا جسم ننگا نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔ نبی اکرمؐ نے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی عثمان سے حیا کرتے ہیں۔ حیا کی ایک تو مخصوص شکل اور تعریف ہے جو عموماً لوگ سمجھتے ہیں مگر ایک اور مفہوم بھی آپؐ نے امت کے سامنے بیان فرمایا، آپؐ نے صحابہؓ سے کہا ’’اللہ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم تو اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا حیا یہ ہے کہ دل وماغ کے خیالات بھی پاکیزہ ہوں۔ پیٹ میں جانے والی غذا بھی حلال ہو اور شرم گاہ کی مکمل حفاظت کی جائے۔ (ترمذی)

آج ہم شیطان کے حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دین وایمان، ملی تشخص اور دینی روح کو محفوظ کرنے کے لیے شرم وحیا کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ہم اس نبی کی امت ہیں، جس نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پر یوں کاربندرہے کہ بدترین دشمن کے لیے بھی اس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات، ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطر ہوجائے گا۔ کیا ہم یہ عہد کرنے اور یہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں؟ جو اب ہر فرد کی ذاتی ذمے داری ہے۔