May 2nd, 2024 (1445شوال24)

حضرت سیدہ فاطمہ زہرہؓ

حضرت مولانا عبدالعلی فاروقی

حضرات حسنینؓ کی والدہ محترمہ اور رسول خدا کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرہؓ کی ولادت بعثت نبوی سے تقریباََ پانچ سال پہلے اس وقت ہوئی جب کعبہ مکرمہ کی تعمیر نو ہورہی تھی۔اسی تعمیر کے موقع پر حضور اکرم نے نہایت ہی خوش تدبیری کے ساتھ سنگ اسود کو اس کی جگی رکھ کر باہمی جنگ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا تھا اور آپ کی اس حسن تدبیر نے عرب کے تمام قبائل کے دلوں میں آپ کی عظمت و احترام میں اضافہ کردیا تھا۔

حضرت فاطمہ زہرہؓ کی ولادت رسول اللہ کی عمر شریف ۳۵ سال سے کچھ زائد تھی۔

(طبقات ابن سعد ج ۸ ص ۱۱)

حضور اکرم کی تمام اولاد نرینہ کی وفات بالکل بچپن ہی میں ہوگئی تھی۔چاروں بیٹیوں میں سے بھی تین کی وفات آپ کے سامنے ہی ہوگئی تھی۔صرف حضرت فاطمہؓ رسول اکرم کی وفات کے بعدہوئی۔ اس لئے آخر میں تو رسول اکرم کی توجہات و محبت کا مرکز فطری طور پر وہی بن گئی تھیں۔لیکن یوں بھی وہ حضور کی بہت ہی چہیتی بیٹی تھیں اور تاعمر حضور کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کو بھی اپنے والد گرامی کی خدمت کرنے اور دکھ درد بانٹنے کا سب سے زیادہ موقع ملا۔

حضرت فاطمہؓ جس وقت چلتیں تو آپ کی چال ڈھال رسول اللہ کے بالکل مشابہ ہوتی۔(مسلم شریف ج ۲ص ۲۹۰)

اسی طرح ترمزی شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت ہے کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے اور عادات و اطوار میں حضرت فاطمہؓ سے زیادہ کسی کو رسول اللہ سے مشابہ نہیں دیکھا۔

۲ ہجری غزوہ بدر کے بعدنبی کریم نے حضرت علیؓ کے ساتھ ان کا نکاح کردیا۔اس موقع پر حضور اکرمنے ضروریات زندگی کا کچھ سامان بھی حضرت فاطمہؓ کو دیا تھا۔جس کی تفصیل حضرت علیؓ نے یوں بیان فرمائی ہے:

(ابن ماجہ ص ۱۳۹، باب الولیمہ)’’رسول اللہ نے جب ان کے ساتھ حضرت فاطمہؓ کی شادی کی تو ان کے ساتھ ایک بڑی چادر اور ایک چمڑے کا تکیہ،جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور ایک چکی اور ایک مشکیزہ اور دو گھڑے بھیجے۔

نکاح کے وقت مشہور روایت کے مطابق حضرت فاطمہؓ کی عمر ۱۵ سال پانچ ماہ اور حضرت علیؓ کی عمر ۲۱ برس کی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کی گھریلو زندگی انتہائی سادہ تھی۔ اپنے ہاتھ سے چکی پیستیں۔ گھر کا سارا کام کاج بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتیں۔

ایک مرتبہ حضور اکرم کی خدمت میں کچھ غلام اور باندیاں آئیں تو حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کو مشورہ دیا کہ اس موقع پر تم حضور کی خدمت میں جاکر ایک خادمہ کا مطالبہ کرو۔جو تمہاری گھریلو ضروریات میں تمہارے ساتھ تعاون کرسکے۔چنانچہ حضرت فاطمہؓ اسی غرض سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔اس وقت کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر تھے۔اس لئے حضرت فاطمہؓ واپس آگئیں۔پھر جب دوسرے وقت حضور حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے تو اس وقت حضرت علیؓ بھی موجود تھے۔حضور نے دریافت فرمایا کہ فاطمہؓ تم اس وقت مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں۔حضرت فاطمہؓ تو حیا کی بنا پر خاموش رہیں۔لیکن حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! فاطمہؓ کے چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے اور مشکیزہ اٹھانے کی وجہ سے جسم پر نشان پڑگئے ہیں۔اس وقت آپ کے پاس کچھ خادم ہیں تو میں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ یہ آپ سے ایک خادم طلب کرلیں۔تاکہ اس مشقت سے بچ سکیں۔حضور نے یہ سن کر فرمایا کہ اے فاطمہؓ! کیا تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے۔جب تم رات کو سونے لگو تو ۳۳ بار سبحان اللہ، ۳۳ بار الحمدللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔(ابو داؤد ج ۲ ص ۶۴)

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی حیات میں دوسرا نکاح کیا۔

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی موجودگی میں ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا اراداہ کیا تھا۔ جس کی اطلاع حضرت فاطمہؓ کو ہوگئی اور وہ بہت ہی سنجیدگی کے عالم میں اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر حضور نے ایک عام خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ فاطمہؓ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اور مجھے خوف ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملہ میں فتنہ میں نہ مبتلا ہو جائے اور پھر بنو عبد ثمس میں سے اپنے ایک داماد (ابو العاص شوہر حضرت زینبؓ) کا ذکر فرماتے ہوئے ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو کہا وہ سچ کر دکھایا اور مجھ سے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا اور میں نہ کسی حلال چیز کو حرام کرتا ہوں نہ حرام چیز کو حلال کرتا ہوں ۔لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی بیٹی کو (ایک آدمی کے نکاح میں) کبھی جمع نہ کرے گا۔(بخاری شریف ج اص ۴۳۸)

حضرت علیؓ کو جب حضور اور حضرت فاطمہؓ کے اس رنج و ملال کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے پیغام واپس لے لیا اور پھر حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں دوسرے نکاح کا ارادہ نہیں کیا۔

حضرت فاطمہؓ نے اپنے شوہر حضرت علیؓ کو اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ آپ امامہؓ سے شادی کر لیجئے گا۔چنانچہ جب حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت امامہؓ (امامہ حضرت فاطمہؓ کی بھانجی اور حضرت زینبؓ کی صاحبزادی کا نام ہے)بڑی ہوگئیں توان کے ساتھ حضرت علیؓ نے شادی کرلی۔(اسد الغابہ ج ۵ س ۴۰۰)

حضرت فاطمہؓ کو حضور اکرم کی وفات کا بہت شدید رنج ہوا تھا۔چنانچہ حضور کی تدفین کے بعد انہوں نے حضرت انسؓ سے ایک ایسی بات کہی جس سے ان کے دلی کرب و بے چینی کا اظہار ہوتا ہے اور جو ان کے دلی غم کی عکاسی ہے۔حضرت فاطمہؓ نے فرمایا:

(مشکوۃ شریف )’’ اے انسؓ ! رسول اللہ کے جسم اطہر پر مٹی ڈالنا تم لوگوں نے کس طرح گوارا کیا‘‘۔

حضرت فاطمہؓ کی والدہ ماجدہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی وفات تو ان کی عمر ہی میں ہوگئی تھی۔پھر تینوں بہنوں کی وفات ہوئی۔ اس سے پہلے صغیر السن بھائیوں کی وفات ہوچکی تھی۔اس طرح ان کی دلداری و دل بستگی کا ذریعہ آنحضور ہی کی ذات گرامی تھی۔جن کی چاہت و شفقت کا حال بیان کرتے ہوئے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:

(مشکوۃ شریف)جب وہ (حضرت فاطمہؓ)حضور کے پاس آئیں تو حضور ان کی خاطر کھڑے ہوجاتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے اور ان کو اپنی جگہ پر بٹھالیتے۔

ظاہر ہے کہ ایسے چاہنے والے باپ کی وفات کا حضرت فاطمہؓ کو جتنا بھی رنج ہوا ہو کم ہے۔چنانچہ حضور کی وفات پر اگرچہ حضرت فاطمہؓ نے پورے صبرو ضبط کا مظاہرہ کیا۔تاہم حضور کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ کی زندگی کے بقیہ چند ماہ اس حال میں گزرے کہ آپ بہت مغموم رہا کرتی تھیں۔

چند روز علالت کے بعد ۳ رمضان المبارک ۱۱ ہجری کو بعد نماز مغرب حضرت فاطمہؓ زہرا کی وفات ہوئی اور رات ہی میں آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوگئی۔

حضرت فاطمہؓ کے بطن سے ۳ صاحبزادے حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت محسنؓ اور صاحبزادیاں حضرت زینبؓ اور حضرت رقیہؓ پیدا ہوئیں۔بقیہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں حضرت فاطمہؓ کی وفات کے وقت تھے اور حضرت حسنینؓ ہی کے ذریعے ان کے محترم نانا حضور سرور عالم کا سلسلہٓ نسب چلا۔