November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

حج بیت اللہ

حُبّ اللہ کا عملی مظہر اور علامت

تصنیف و تالیف: محمد مظفر خان

نظر ثانی، تدوین و تلخیص: محمود عالم صدیقی

حج کے معنی اور مقصد

لغوی اعتبار سے حج کا مفہوم ارادہ کرنے یا قصد کرنے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ مگر شرعاََ یہ مخصوص لفظ ’’حج ‘‘ ایام حج میں عبادت کی نیت سے جملہ آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت اور تمام ارکان و مناسک (طواف، سعی، منیٰ کا قیام، وقوفِ عرفہ، مزدلفہ کا قیام، رمی جمرات، قربانی، طوافِ زیارت) کا نام ہے۔ حج میں چونکہ ہر طرف سے لوگ کعبے کی زیارت کا قصد کرتے ہیں اس لیے اس کا نام حج رکھا گیا۔ ایام حج سے مراد ذی الحجہ کی 8 تاریخ سے 13 تاریخ تک کے دو دن ہیں جن میں مناسک حج ادا کیے جاتے ہیں۔

حج کی ابتدا

سب سے پہلے اس کی ابتدا جس طرح ہوئی وہ یہ ہے کہ ہزاروں (۴ہزار)سال پہلے عراق کی سرزمین میں حضرت ابراہیمؑ پیدا ہوئے اس وقت ساری دنیا خدا کو بھولی ہوئی تھی۔ جس قوم میں آپ نے آنکھ کھولی وہ اس زمانہ میں دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم تھی لیکن گمراہی میں وہ بھی بڑھی ہوئی تھی اور بتوں کی پوجا، ستارہ پرستی کے علاوہ بادشاہ کو بھی خداؤں میں سے ایک خدا سمجھتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آپ جس گھرانے میں پیدا ہوئے وہ خود بت پرستوں کا گھرانا تھا جہاں لوگ نذر نیاز اور چڑھاوے چڑھاتے تھے جس سے ان کا خاندان مالا مال ہورہا تھا۔

حضرت ابراہیمؑ کوئی معمولی آدمی نہ تھے۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی یہ سوچنا شروع کردیا کہ یہ سورج، چاند، ستارے جو غلاموں کی طرح گردش کرتے ہیں اور یہ بت جنہیں انسان خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں کس طرح خدا ہوسکتے ہیں جن میں خود اپنی مدد کرنے کی بھی قدرت نہیں ہے۔ میرا رب تو وہی ہوسکتا ہے، جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ اس فیصلہ پر پہنچنے کے بعد انہوں نے علی الاعلان لوگوں سے کہہ دیا کہ:

جن کو تم خدائی میں شریک کرتے ہو\ٹھہراتے ہو ان سے میرا کوئی واسطہ نہیں ’’میں نے سب سے منہ موڑ کر اس ذات کو عبادت اور بندگی کے لیے خاص کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور میں ہر گز شرک کرنے والا نہیں ہوں‘‘۔

اس اعلان کے بعد حضرت ابراہیمؑ پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ باپ نے کہا کہ میں گھر سے نکال دوں گا۔ قوم نے کہا کہ ہم میں سے کوئی تمہیں پناہ نہیں دے گا۔ حکومت بھی ان کے پیچھے پڑگئی۔ بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا مگر وہ اکیلا انسان سب کے مقابلے میں سچائی کی خاطر ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’تم ان کو کیوں پوجتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ ابا جان جو علم میرے پاس ہے وہ تمہیں نہیں ملا، اس لیے تمہیں میری پیروی کرنی چاہیئے تا کہ میں تمہیں سیدھا راستہ سمجھاؤں‘‘۔

آتش نمرود

قوم کی دھمکیوں کے جواب میں ان کے بتوں کو اپنی ہاتھ سے توڑ کر ثابت کردیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ کس قدر بے بس ہیں۔ بادشاہ کے دربار میں جا کر صاف کہہ دیا کہ تو میرا رب نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں میری اور تیری زندگی اور موت ہے۔ آخر شاہی دربار سے یہ فیصلہ ہوا کہ اس شخص کو زندہ جلادیا جائے مگر وہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط دل رکھنے والا انسان جو اللہ واحد پر ایمان لاچکا تھا اس ہولناک سزا کو بھگتنے کے لیے بھی  تیار ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کو آگ میں جلنے سے بچا لیا اور فرمایا۔

’’ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا‘‘

اس کے بعد ابراہیمؑ اپنے گھر بار، عزیز و اقارب، قوم و وطن سب کو چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنی بیوی اور ایک بھیتجے کو لے کر ملک حق کی خاطر بے سروسامانی کی زندگی گزارنے نکل کھڑے ہوئے۔

ہجرت

وطن سے نکل کر حضرت ابراہیمؑ شام، فسلطین، مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ وہ نہ صرف خود ہی خدا کے سوا کسی کی خدائی ماننے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ دوسروں سے بھی اعلانیہ کہتے تھے کہ اللہ کے سوا تمہارا کوئی خالق، مالک اور آقا نہیں ہے۔ سب کی غلامی کے بندھن توڑ دو اور صرف اسی ایک کے بندے بن کر رہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کوکسی جگہ قرار نصیب نہ ہوا۔ سالہا سال بے خانماں پھرتے رہے۔ کبھی کنعان کی بستیوں میں ہیں تو کبھی مصر میں اور کبھی عرب کے ریگستانوں میں۔

بڑھاپے میں اولاد کی نعمت

اسی طرح ساری جوانی بیت گئی اور کالے بال سفید ہوگئے۔ آخیر عمر میں جب ۹۰ سال پورے ہونے میں صرف چار برس باقی تھے اور اولاد سے مایوسی ہوچکی تھی، اللہ نے اولاد دی لیکن اس اللہ کے بندے کو اب بھی یہ فکر نہ ہوئی کہ خود تو بے خانماں ہوا کم از کم اولاد ہی کو دنیا کمانے کے قابل بناؤں اور انہیں کسی ایسے کام پر لگاؤں کہ روٹی کا سہارا مل جائے۔ نہیں اس بندہ خدا کو فکر تھی تو یہ تھی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی عمر کھپا دی تھی، کاش کوئی ایسا ہو جو اس کے مرنے کے بعد بھی اس مشن کو پھیلاتا رہے، اسی لیے وہ اللہ سے اولاد کا آرزو مند تھا اور جب اللہ نے اولاد دی تو اسے بھی اس کام پر لگا دیا۔ اس انسان کامل کی زندگی ایک سچے اور اصلی مسلمان کی زندگی تھی ۔ اس نے رب العالمین کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اورصاف اعلان کیا کہ تمہارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں۔

قوم، سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی ۔ ان کے بتوں کو توڑا۔ قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انہوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ، اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ تعلق نہیں۔

’’اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیڑ پڑگیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ‘‘۔(المتحنہ ۶۰:۴)

اللہ کی راہ میں سب سے بڑی قربانی

ان آزمائشوں کے بعد آخری آزمائش باقی رہ گئی تھی جس کے بغیر یہ فیصلہ نہ ہوسکتا تھا کہ یہ شخص دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اللہ رب العالمین سے محبت  رکھتا ہے۔اور وہ آزمائش یہ تھی کہ اس پڑھاپے میں اپنے اکلوتے بیٹے، بڑھاپے کے سہارے کو رب العالمین کے لیے قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ اپنے ہاتھوں سے عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں اور چونکہ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے اس اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم کر لیا۔ تاہم انہوں نے اسے عملی جامعہ پہنانے سے پہلے یہ معاملہ اپنے بیٹے کے سامنے پیش کیا اور اس سے رائے طلب کی۔ نیک اور تابعدار بیٹے نے جواب دیا۔

’’اے ابا جان !آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے،اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘۔

اللہ اکبر! یقیناً یہ بہت بڑی آزمائش تھی جس میں یہ دونوں حضرات کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ’’ان ھٰذا لھوالبلاء المبین‘‘سے تعبیر کیا ہے۔

پھر حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو لے کر منیٰ چلے گئے جہاں جمرات کے قریب انہوں نے اپنے اس فرمانبردار بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا، تب چشم فلک نے دیکھا کہ ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کی گردن پر چھری پھیر رہا ہے۔

اللہ آزمانا چاہتا تھا کہ دوستی کا یہ مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں۔ مگر وہ سچا مسلمان اس آزمائش میں بھی پورا اترا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، بیداری میں بھی کر دکھانے پر آمادہ ہوگیا۔ اس طرح جب اللہ کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں، تب بارگاہ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی۔

اللہ نے فرمایا کہ’’اے ابراہیم! تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم یونہی اچھے کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں‘‘۔

مالک کائنات نے اپنے اس پیغمبرکے سچے جذبہ اطاعت و فرمانبرداری کی تصدیق کردی اور پھر حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کے بدلے میں اس نے ایک مینڈھا بھیج دیا۔ جس کو حضرت ابراہیمؑ نے قربان کیا۔

یہ وہ عظیم قربانی ہے جس پر ہر سال لاکھوں مسلمان عمل کر کے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’’خدایا!تو محمد اور محمد کی (جسمانی اور روحانی) نسل پر برکت نازل کر جس طرح تو نے ابراہیمؑ اور اس کی نسل پر برکت نازل کی‘‘۔

لیکن یہ قربانی کیا تھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی۔ یہ ماسوا اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی۔ یہ اپنے عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی۔ یہ خدا کی اطاعت، عبویت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا۔ یہ تسلیم و رضا اور صبر و شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کیے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی۔ یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کر دینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات اور خواہشات، تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی۔

امت کی پیشوائی

جب حضرت ابراہیمؑ اس آخری آزمائش میں پورے اترے، تب فیصلہ صادر فرما دیا گیا کہ ہاں، اب تم اس کے اہل ہو کہ تمہیں ساری دنیا کا امام بنایا جائے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا۔

’’اور جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان میں پورا اتر گیا تو فرمایا کہ میں تجھ کو انسانوں کا امام اور پیشوا بناتا ہوں اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمہارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔

اس طرح حضرت ابراہییمؑ کو پیشوائی سونپی گئی اور وہ اسلام کی عالمگیر تحریک کے رہنما بنائے گئے۔ اب ان کو اس تحریک کی ترویج کے لیے ایسے افراد درکار تھے جو ان کے خلیفہ یا نائب کی حیثیت سے کام کریں۔ اس کام میں تین آدمی ان کے لیے قوت بازو ثابت ہوئے۔ ایک ان کے بھتیجے حضرت لوط ؑ، دوسرے ان کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ، تیسرے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسحاقؑ۔ بھتیجے کو آپ نے شرق اردن میں آباد کیا اور حضرت اسحاقؑ کو کنعان یعنی فلسطین میں بسایا۔ یہ علاقے اس شاہراہ پر تھے جس پر مصر و شام سے حجاز اور یمن اور حجاز سے مصر و شام آنے جانے والے تاجروں، سوداگروں اور قافلوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔

حجاز میں بیت اللہ کی تعمیر

آپؑ اپنے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کے ہمراہ حجاز مکّے میں ایک مدّت تک ان کے ساتھ رہے اور کونے کونے میں اسلام کی تعلیم پھیلائی۔ یہیں پر دونوں باپ بیٹوں نے اسلامی تحریک کا وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ قرآن کے مطابق اس مرکز کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا اور خود ہی اس کی تعمیر کی جگہ تجویز کی تھی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس جگہ کے حج کا حکم دیا جارہا ہے وہ اللہ کا وہی گھر ہے جو سب سے پہلے مکہ (بکہ) کی تعمیر ہوا۔ بکہ دراصل شامی زبان میں بستی یا آبادی کو کہتے جو بعد میں بدل کر مکّہ بن گیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اسے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا۔ طوفان نوحؑ میں بیت اللہ بے نشان ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس کی بنیادوں کے آثار کے پاس ہی حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ حضرت حاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان کئی چکر لگائے۔ (اسی کو سعی کہتے ہیں) اور جب پانی کا چشمہ نمودار ہوا تو اس کے گرد ریت کی منڈیر بنالی۔ پانی کی وجہ سے پرندے آئے، پرندوں کو دیکھ کر جانور بھی پانی کی تلاش میں آئے۔ شام سے یمن کے درمیان آنے جانے والے قافلوں نے جب چرند و پرند دیکھے تو وہ بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے یہاں بستی آباد کرلی اور اس کا نام ’’بکہ ‘‘ رکھا۔ حضرت ابراہیمؑ جب چھ سات سال بعد دوبارہ واپس آئے تو یہ جگہ آباد ہوچکی تھی۔ اللہ کے حکم سے دونوں نے اللہ کے گھر کی تعمیر دوبارہ انہیں بنیادوں پر کی جن پر یہ گھر پہلے بنا ہوا تھا اور وہ دونوں ساتھ ہی اللہ سے دعا بھی کرتے جاتے تھے۔ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے۔

’’اور جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے کہ پروردگار ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ پروردگار اور تو ہم دونوں کو اپنا اطاعت گزار بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو مسلم ہو اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر عنایت کی نظر رکھ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اے ہمارے پروردگار تو ان لوگوں میں انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول بھیج جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دے اور ان کے اخلاق درست کرے۔ یقیناً تو بڑی قوت والا ہے اور بڑا حکیم ہے۔‘‘(سورہ بقرہ ۱۲۵۔۱۲۹)

اور ساتھ میں یہ التجا بھی کی کہ:

’’خداوند میں نے اپنی کچھ اولاد کو ایک بنجر وادی میں لا کر بسایا ہے۔ اور خداوند یہاں کے رہنے والوں کو پھلوں کی روزی پہنچا‘‘۔

چند صدیوں کے بعد حضرت اسماعیلؑ کی نسل اپنے بزرگوں کی تعلیم اور ان کے طریقے بھلا بیٹھے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ کعبہ جو توحید کا مرکز تھا وہاں مختلف ناموں کے بت رکھ کر ان کی پوجا شروع کردی گئی۔ حج کے دوران اپنی طرف سے خود ساختہ رسمیں اور طریقے ایجاد کیے گئے۔

دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

تقریباََ ڈھائی ہزار برس بعد آخر کار حضرت ابراہیمؑ کی ا س دعا کے پورے ہونے کا وقت آیا جو انہوں نے کعبے کی دیواریں اٹھاتے وقت اللہ سے مانگی تھی۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد سے پھر ایک انسان کامل اٹھا جس کا اسم مبارک محمد بن عبداللہ تھا۔ جس طرح ابراہیمؑ نے معزز عرب قبیلے میں آنکھ کھولی تھی اسی طرح نبی نے بھی اسی خاندان میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے کعبہ کا متولی تھا۔ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ہاتھ سے خود اپنے خاندان کی بت پرستی پر ضرب لگائی تھی اسی طرح آنحضرت نے بھی اس پر ضرب لگائی اور محض ضرب ہی نہیں لگائی بلکہ ہمیشہ کے لیے اس کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ پھر جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے تمام باطل اور جھوٹے خداؤں کی خدائی مٹانے کے لیے جدوجہد کی تھی اور خدا کی بندگی پھیلانے کی کوشش کی تھی بالکل وہی کام آنحضرت نے بھی کیا اور اس دین کو پھر اس کی اصل حالت میں لے آئے۔

۱۱ھ میں فتح مکہ کے بعد اور اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے پھر اسی طرح کعبے کو تمام دنیا کے خدا پرستوں کا مرکز بنانے کا اعلان کیا اور پھر وہی منادی کی کہ سب طرف سے حج کے لیے اس مرکز کی طرف آؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

’’اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ کو کوئی اس گھر تک آنے کی قدرت رکھتا ہو وہ حج کے لیے آئے پھر جو کوئی کفر کرے (یعنی قدرت کے باوجود نہ آئے) تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔(آل عمران)