November 2nd, 2024 (1446ربيع الثاني29)

حج کی تاریخ اور اس کی اہمیت

مولانا سید داود غزنوی
موجودہ زمانے کے علوم و تمدن کی یہ سب سے بڑی برکت بتائی جاتی ہے کہ نقل و حمل کے وسائل اور سیر و حرکت کے انگیز ذرائع نے قوموں اور ملکوں کا تفرقہ دور کردیا ہے۔ بحروبر کے ڈانڈے مل گئے ہیں اور ساری دنیا ایسی ہوگئی ہے جیسے ایک مسلسل آبادی کے مختلف محلے اور حصے ہوتےہیں، لیکن اس پر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملکوں کا بعد جس قدر کم ہوتا جاتا ہے اور قوموں کو ایک دوسرے کے قرب کی آسانیاں مہیا ہو رہی ہیں۔ دل اور دماغ کا تفرقہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔ جس قدر تیزی سے بیسویں صدی کی موٹریں دوڑ رہی ہیں، اور ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں تیر رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے قوموں کے دل بھی ایک دوسرے سے دور اور برگشتہ ہورہے ہیں۔
لیکن آج سے تیرہ سو برس پہلے جب دنیا موجودہ زمانے کے تمام ذرائع نقل و حمل اور وسائل قرب و اجتماع سے محروم تھی، بحراحمر کے کنارے، ریگستان عرب کے وسط میں حجاز کی، وادی غیر ذی زرع، ایک چٹیل اور بے زراعت وادی کے اندر ایک صدائے اجتماع بلند ہوئی، اور نسل انسانی کے منتشر افراد کا ایک نیا گھرانہ آباد کیا گیا۔ انسانی اجتماعی کی یہ پکار صرف اتنا ہی نہیں چاہتی تھی کہ ملکوں کی سرحدیں اور جغرافیہ کی حدیں ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ نسل انسانی کے بکھرے ہوئے گھرانو، پھٹے ہوئے دلوں اور برگشتہ روحوں کو ایک دوسرے سے جوڑدیا جائے۔ یہ پکار سنی گئی، کرہٓ ارض کے سارے گوشوں، خشکی اور تری کی ساری راہوں سے اس پکار کی بازگشت بلند ہوئی۔ انجن اور بجلی کی برق رفتار سواریوں کے ذریعے نہیں، تار اور لاسلکی کے گاڑے ہوئے ستونوں پر سے نہیں، بلکہ دل کے اعتقاد اور روح کے ایمان کے ذریعہ اس کی پکار سب نے سنی اور اس کی پکار کا جواب سب کی زبانوں سے نکلا۔
یہ ابراہیم کی پکار تھی۔
یہ اسلام کی دعوت تھی۔
یہ فریضہ حج کی منادی تھی۔
جس نے ملکوں کو اکٹھا کردیا، قوموں کو جوڑ دیا، نسل اور زبان و مکان کے سارے تفرقے دور کردیے، گورے کو کالے کے ساتھ اور بادشاہ کو فقیر بے نوا کے ساتھ ایک ہی مقام میں وضع و لباس میں ایک ہی ایمان و اعتقاد کے ساتھ اس طرح جمع کردیا ہے کہ انسان کے بنائے سارے امتیازات مٹ گئے اور انسانی اخوت اپنی اصلی صورت میں بے نقاب ہوگئی۔
تیرہ سو برس سے زائد عرصہ ہوگیا کہ دنیا ہر سال یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ مختلف بولیوں کے بولنے والے مختلف رنگوں اور مختلف نسلوں کے لوگ سمندروں کو عبور کرکے، پہاڑوں کو طے کرکے کئی کئی مہینوں کی مسافت چل کر دنیا کے مختلف گوشوں کے قافلے حجاز کی مقدس سر زمین پر اس موسم میں خود بخود بغیر کسی خاص انتظام کے پہنچتے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی حصہ میں بھی ایسا منظر نظر آسکتا ہے؟ کیا اس منظر سے بھی بڑھ کر کوئی منظر ہے، جو انسانی اجتماع کی ایک حیرت انگیز قوت کا پتا دے؟
میں جب یہ سوچتا ہوں کہ کس کے ہاتھوں میں اس رشتہ کا سرا ہے جس سے بحروبر کے یہ تمام گوشے کھینچ لیے جاتے ہیں، تو مجھ پر یہ عالم کیف طاری ہو جاتا ہے اور میں بے ساختہ پکار اٹھتا ہوں کہ اس رشتہ کا سرا اسلام کے ہاتھ میں ہے اور میرا دل پورے یقین اور اذعان کے ساتھ یہ صدا بلند کرتا ہے کہ چھٹی صدی کے صحرا عرب کا اسلام آج بھی انسانی اخوت کی سب سے بڑی زندہ قوت ہے۔
حج کی تاریخ
چار ہزار برس سے زیادہ عرصہ گزرا جب سر پر آرائے مسند خلت اور پیشوائے عالماں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام عراق کی سرزمین میں پیدا ہوئے، جہاں کلدانیوں کی حکومت تھی۔ اس زمانے میں اگرچہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی، لیکن انہیں اتنی بھی بصیرت اور سوجھ بوجھ نہ تھی کہ سورج، چاند ستارے اور مخلوق زوال پذیر ہیں، یہ کبھی بھی معبود اور حاجت روا یا مشکل کشا نہیں ہوسکتے۔ یہ لوگ ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتے، ان میں نجوم فال، رمل، جادو، ٹونے وغیرہ کا خوب چرچا تھا۔ ہندوؤں میں جس طرح پنڈت اور برہمن ہیں، اس زمانہ میں بھی پجاریوں کا ایک گروہ تھا، جو قسم قسم کے ڈھونک رچاتا۔ عوام ان کے پھندے بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ انہی پجاریوں کو وہ اپنی قسمت کا مالک سمجھتے تھے اور انہی کی نیاز مندیوں میں اپنی دولت اور ساری عمر صرف کردیتے تھے۔ ادنیٰ کسان سے لے کر بادشاہ تک سب ہی ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے، کیوں کہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل ہو اور ان کو خوش رکھنا چاہیے۔ یہ چاہیں تو ہم پر دیوتاؤں کی عنایت ہوگی۔ ورنہ ہم طرح طرح کے مصائب میں مبتلا ہوجائیں گے۔
مگر ابراہیم علیہ السلام کون ابراہیم !جسے اللہ نے فرمایا: اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہوا۔ وہ ابراہیم جس کی بے مثل وفا شعاریوں پرفرمایا: ’وفادارابراہیم‘۔ جب اس نے ہوش سنبھالتے ہی غور و فکر کیا کہ یہ سورج، چاند اور ستارے ایک مقرر پروگرام پتھر کے بت کو جن کو انسان اپنے ہاتھ سے بناتا ہے اور یہ بادشاہ جو ہم جیسے انسان ہیں خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟ جب میرا خالق اللہ ہے، وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے، اور جب بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا بخشتا ہے۔ اور اسی کے ہاتھ میری زندگی اور موت ہے، اور وہی میرے نفع و نقصان کا مالک ہے، یہ سوچنے کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے قلعی فیصلہ کر لیا کہ جن معبودوں کو میری قوم پوجتی ہے ان کو میں ہر گز نہ پوجوں گا اور اس فیصلہ کے بعد انہوں نے اپنی قوم سے علی الاعلان کہہ دیا:
’جن معبودوں کو تم خدا کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سے کامل بیزاری کا اعلان کرتا ہوں‘۔
’میں نے سب درگاہوں سے منہ موڑ کر اس ذات پاک کی نیاز مندیوں اور عبادت گزاریوں کے لیے مخصوص کردیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور اب میرا مشرک قوم سے کوئی تعلق نہیں‘۔
اس اعلان کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ پر مصائب کا ہجوم ٹوٹ پڑا۔ باپ نے کہا کہ اگر تو اپنے عقیدے سے باز نہیں آتا ہے، تو میرے گھر سے نکل جا، ورنہ میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ قوم نے کہا کہ ابراہیم کو قتل کردینا چاہیے یا آگ کی چتا میں ڈال کر اسے بھسم کردینا چاہیے۔ بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو زندہ جلا دیا جائے، مگر اللہ پر کامل یقین رکھنے والا ابراہیم اس سزا کو بھگتنے کے لیے تیار ہوگیا۔
بحرم عشق تو دم می کشند و غوغا ہیست
تو نیز برسر بام آ کہ خوش تماشا ہیست
جب اللہ نے اپنی قدرت سے اس کو آگ میں جلنے سے بچا لیا، تو وہ اپنے گھر بار، عزیز و اقارب قوم اور وطن سب کو چھوڑ چھاڑ کر یہ کہہ کر ہجرت کی راہ میں اختیار کی: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، وہ سب پر غالب ہے اور اس کے سارے کام حکمت پر مبنی یں‘۔
وطن چھوڑنے کے بعد حضرت ابراہیمؑ شام، فلسطین، مصر اور عرب کے ملکوں میں پھرتے رہے۔ آخر عمر میں جب اولاد سے مایوسی ہوچکی تھی، اللہ نے اولاد دی۔
جب اولاد ملی تو اللہ کے اس وفادار بندے کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ جس مشن کو پھیلانے میں خود اس نے اپنی ساری عمر صرف کردی کس طرح اولاد کو اپنے بعد اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لیے تیار کروں۔
امامت کبریٰ کی تاجپوشی
اس ساری عمر کی اطاعت گزاریوں، وفا شعاریوں، فدائیت قربانیوں کے بعد ایک اور مگر آخری قربانی یا آزمائش باقی رہ گئی تھی اور وہ امتحان یہ تھا کہ اس بڑھاپے میں جب پوری مایوسی کے بعد اسے اولاد نصیب ہوتی ہے، اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو اپنے معبود برحق کے لیے قربان کرسکتا ہے؟ چنانچہ یہ امتحان بھی لے لیا گیا، جب اس امتحان و آزمائش میں بھی حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تب فیصلہ صادر فرمایا کہ ’ہاں اب تم اس کے اہل ہو کہ تمہیں بنی نوع انسان کا امام بنایا جائے‘۔
عالمگیر تحریک اسلام کا مرکز
جب حضرت ابراہیمؑ کو دنیا کی امامت سونپ دی گئی اور اسلام کی عالمگیر تحریک کے امام بنا دیے گئے، تو آپ نے اپنے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ کو حجاز میں مکہ کے مقام پر رکھا، اسی مقام پر باپ بیٹا دونوں نے دعوت اسلام کے لیے وہ مرکز تعمیر کیا جو کعبہ کے نام سے آج ساری دنیا میں مشہور ہے۔ یہ عمارت عام مساجد کی طرح صرف عبادت گاہ نہ تھی، بلکہ اول روز سے ہی اس کو دین اسلام کی عالمگیر تحریک کا مرکز قرار دیا گیا، تا کہ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے ہر جگہ سے کھینچ کھینچ کر یہاں جمع ہوا کریں، جمع ہو کر اللہ کی عبادت کریں اور اسلام کا پیغام لے کر پھر اپنے اپنے ملکوں کو واپس جائیں۔ یہی اجتماع تھا جس کا نام ’حج‘ رکھا گیا۔
اسلام میں حج کی اہمیت
آج سے ساڑھے 4 ہزار برس پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اللہ کے حکم سے جبل عرفات پر کھڑے ہو کر یہ منادی کہ: ’اللہ کے بندو! اللہ کے گھر کی طرف آؤ! زمین کے ہر گوشے سے آؤ! نزدیک سے آؤ! دور سے آؤ! پیدل آؤ! یا سواریوں پر آؤ! حج کے لیے آؤ! اور ہر سال آؤ!‘
اس کے جواب میں حرم پاک کا ہر مسافر بلند آوازسے کہتا ہے:
لبیک اللھم لبیک ...............
’میں حاضر ہوگیا ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہو گیا ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں۔ ساری حمد و ثنا تیرے لیے ہے، ساری نعمتیں تیری طرف سے ہیں، یہ ملک سارا تیرا ہے۔ اور کسی چیز میں تیرا کوئی شریک نہیں۔
اس طرح لبیک کی ہر صدا کے ساتھ حاجی کا تعلق خالص توحید اور دعوت اسلام کی اس تحریک سے جڑجاتا ہے، جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے سے چلی آرہی ہے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 4 ہزار برس کا فاصلہ بیچ میں ہٹ گیا ہے اور ادھر حضرت ابراہیم اللی کی طرف سے پکار رہے ہیں اور ادھر حاجی جواب دے رہا ہے:
لبیک اللہ لبیک.............
’میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل میں حاضر ہوں‘۔
احرام
یہ احرام کیا ہے؟ جس کے باندھتے ہی حاجی زیبایش و آرایش کی سب چیزیں اتار دیتا ہے، اور ایک تہبند اور ایک چادر کے سوا کچھ نہیں پہنتا۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کا لباس ہے۔ ہر حاجی حضرت ابراہیم کی سر زمین پر پہنچنے سے پہلے اس زائرانہ لباس کو پہنتا ہے۔ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا ایک گدائے بے نوا ہو، سب ہی اس سادہ اور درویشنانہ طرز کا لباس اختیار کرتے ہیں۔ سر کھلا رکھتے ہیں خوشبو نہیں لگاتے، بال نہیں بناتے، ہر قسم کی زینت سے پرہیز کرتے ہیں، عورت مرد کا شہوانی تعلق نہیں قائم کرتے۔ غرض ان دنوں میں پھنسنے سے جو کچھ آلایشیں ہماری روح کو ملوث کر رہی تھیں۔ وہ صاف ہو جائیں، کبر اور غرور کا لباس اتار دیا جائے۔ اور خدا پرستی کی کیفیت ہمارے ظاہر اور باطن پر طاری ہوجائے۔
احرام باندھنے کے ساتھ لبیک کی صدائیں تمام حجاج کی زبان سے بلند ہوتی ہیں۔ وہ ہر نماز کے بعد ہر روز صبح نیند سے بیدار ہونے کے وقت ہر قافلے سے ملتے وقت، ہر بلندی پر چڑھتے اور ہر بستی کی طرف اترتے وقت بلند آواز سے پکارتے ہیں:
لبیک اللہ لبیک.............
میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل میں حاضر ہوں‘۔
دیکھیے یہ کیسا عجیب منظر ہے۔ مختلف بولیاں بولنے والے، یہ اردو بولنے والے، یہ عربی، یہ فارسی، یہ افغانی، یہ ترکی، یہ جادی، یہ حبشی، یہ چینی، یہ روسی، یہ انگریزی بولنے والے ایک ہی بولی بول رہے ہیں اور کس والہانہ انداز میں حضرت ابراہیم کی پکار اور تاجدار مدینہ کی دعوت حج پر صدائے لبیک بلند کررہے ہیں۔ یہ بار بار کی صدائے لبیک اس درویشانہ لباس کے ساتھ، بکھرے ہوئے بال، غبار آلود اور دور دراز سفر کی تھکان کے ساتھ مل کر یقین جانیے ایسی کیفیت پیدا کردیتی ہے کہ جس شخص کو یہ سعادت حج حاصل نہیں ہوئی ہمارے الفاظ قاصر ہیں کہ اس کے سامنے اس کیفیت کی پوری تصویر کھینچ سکیں۔
ارکان حج کی ادائیگی
حاجی اپنی نیاز مندیوں اور والہانہ عقیدت مندیوں کے ساتھ منزل بہ منزل کوچ کرتا ہوا، جب اس آستانہ پر پہنچتا ہے، جس کی طرف خلیل اللہ نے دعوت دی تو وہ آستانہ خلیل کو چومتا ہے۔ پھر اس گھر کا طواف کرتا ہے جسے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے مرکز قرار دیا تھا اور کئی بار طواف کرتا ہے اور اس بار بار کے چکر لگانے سے وہ چاہت و محبت کی ایک پرانی رسم کو پورا کرتا ہے اور اس کے بعد مقام ابراہیم پر سلامی کی دو رکعت ادا کرتا ہے، پھر یہاں سے نکل کر صفا اور مروہ کے درمیان دوڑتا ہے، اور اپنی اس عملی حالت سے اس کا اقرار کرتا ہے کہ یوں ہی اپنے مالک کے حکم کی تعمیل میں دوڑتا رہوں گا اور سعی و کوشش میں کوتاہی نہیں کروں گا۔
اس کے بعد ہر حاجی کو پانچ چھ روز تک ایک کیمپ کی سی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔
ایک دن منیٰ میں گزار کر دوسرے دن عرفات میں بسرکرتا ہے۔ عرفات میں سارا دن خدا کی حمد و ثناء اور دعا میں صرف کرتا ہے اور کیمپ کمانڈر یا امیر حج کا خطبہ سنتا ہے۔ احکام و ہدایت حاصل کرتا ہے اور ایک نئی زندگی کر کے لوٹتا ہے۔ رات مزدلفہ میں جا کر قیام کرتا ہے۔ دن نکلتے ہی منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے اور وہاں اس مقام پر کنکریوں سے چاند ماری کرتا ہے، جہاں تک اصحاب فیل کی فوجیں کعبہ کو ڈھانے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔ کنکریوں کی اس چاند ماری کا مطلب یہ ہے کہ جو دشمن مسجدوں کو ویران کرنے اور اللہ کے دین کو مٹانے کے لیے اٹھے گا، اس کے مقابلہ میں لڑوں گا اور اگر جان کی قربانی دینی پڑی تو قربانی دوں گا۔ منیٰ میں قربانی دی جاتی ہے اور حضرت اسماعیلؑ کے ذبح کی یاد منائی جاتی ہے۔
پھر یہاں سے حاجی مکہ مکرمہ کی طرف مارچ کرتے ہیں۔ یہاں پر طواف اور دو رکعتوں سے فارغ ہو کر احرام کھول دیتے ہیں، اور اب حاجی کی زندگی پھر معمولی طور پر شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد حاجی پھر منیٰ کی طرف لوٹتا ہے اور 3 دن وہاں کیمپ کرتا ہے۔ اسلام سے قبل عرب اس مقام پر جمع ہو کر اپنے اسلاف کے کارناموں پر فخر کرتے تھے اور دوسرے کی توہین و تذلیل کرتے تھے، جس کا نتیجہ اکثر جنگ و جدل ہوتا۔ اسلام نے اس آبائی منافرت کی بہیودگی کو خدا کی حمد و ثنا میں تبدیل کردیا اور باہمی جنگ کے جگہ مختلف اقطاع ارض کے مسلمانوں کے باہمی تعارف و مودت، ہمدردی اور اخوت کے رشتہ کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنا دیا۔ منیٰ کے مقام کے بعد حاجی مکہ کی طرف لوٹتا ہے اور بیت اللہ کا طواف وداع کر کے حج سے فارغ ہوجاتا ہے۔
جو کچھ میں نے مختصراََ عرض کیا، اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں فریضہ حج جو اسلام کا چوتھا رکن ہے، اس میں عبادت اور ریاضت کے علاوہ سفر کے تجربے، قومی اور ملی اجتماع کے برکات، ایثار و قربانی کے زبردست آثار کس طرح حاجی کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس میں وقت کی قربانی، مال کی قربانی، آرام و آسائش کی قربانی بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی، بہت سی نفسانی خواہشات کی قربانی ہے، اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور اس کی چاہت و محبت کی کیفیتوں کو اس طرح جسم و جاں پر طاری کرے کہ اس کا ایک دیر پانقش دل پر باقی رہے، تا کہ برسوں اس مبارک سفر سے اسے ایک روشنی حاصل ہو، جس سے وہ دنیا کی تاریکیوں، حرم کی مقدس سر زمین پر پہنچ کر جب ان مقامات میں اپنے لیے نور حاصل کرسکے، تو دیکھتا ہے یہاں اللہ کے پیارے بندوں نے توحید کی تبلیغ و اشاعت کے لیے مرکز قائم کیا اور اس کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کیں اور ہر اس باطل قوت سے ٹکرائے جو ان کی دعوت و تبلیغ کے راستے میں حائل ہوئے۔ (اخبار الاعتصام\جلد۶\شمارہ ۴۰۵)