November 7th, 2024 (1446جمادى الأولى5)

خطبہ حجتہ الواداع

امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کا دائمی منشور

پروفیسر محمد شکیل صدیقی

ہجرت کے دسویں برس محسن انسانیت نے اپنی حیات طیبہ کا پہلا اور آخری حج ادا کیا چند نفوس سے جس تحریک کا آغاز ہوا تھا وہ آج ایک سے ڈیڑھ لاکھ انسانوں کی عظیم الشان اجتماعیت کی صورت میں میدانِ عرفات میں جمع تھی ۲۳ برس قبل وادیٓ مکہ میں صفا کی چوٹی سے جس دعوت و پیغام کو مسترد کردیا گیا اور جس پیغام کی راہ میں وہ وہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کا تصور بھی محال تھا لیکن آج اسی دعوت و پیغام کو ماننے والوں کا جم غفیر عرفات کے میدان میں جمع تھا ذرا چشمِ تصور میں اس منظر کو سامنے لائیے جب میدان عرفات میں حد نظر تک انسان ہی انسان جمع تھے جس طرح ایک وہقان اپنی فصل کو لہلاتے دیکھتا ہے وہ اپنی محنت پر خوشی سے اشکبار ہوجاتا ہے محمد نے انسانوں کی فصل اور کھیپ تیار کردی تھی یہ منظر دیکھ رسول خدا نے کسی فخر و مبابات کا اظہار نہیں کیا بلکہ آپ کی چشمِ مبارک اللہ باری تعالیٰ کی حمد و ثناء سے ڈب ڈبا آئی ہوگی اور امر واقع بھی یہ ہے کہ اس تاریخی موقع پر بھی آپ کو جو فکر و امن گیر تھی کیا میں نے حق تبلیغ ادا کردیا مجمع سے بار بار استغفار فرماتے اور جب یہ جواب آیا کہ بلاشبہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے حق رسالت ادا کردیا ہے تو قرار آیا اور پھر اس موقع پر وہ خطبہ دیا جو تاریخ میں خطبہ حجتہ الوادع کے نام سے معروف ہے۔

’’خطبہ حجتہ الوداع‘‘ فصاحت و بلاغت سے لے کر اپنے مفہوم و معنی میں ایک ایسا جامع بیان و خطاب ہے جس کا مواد بھی زبانِ زد عام ہے اور اس کی تعبیر و تشریح پر ضحخیم کتابیں بھی وجود میں آچکی ہیں۔ہم عالم تناظر میں خطبہ حجتہ الوادع کے چند پہلووٴں کی نشاندہی کریں گے جو مہذب و متمدن دنیا، ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا پورے عالم انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

دیکھا جائے تو اس وقت عالم انسانیت بدترین  بححرانی دور سے گذر رہی ہے ہر طرف جنگ و جدال کا میدان گرم ہے، بد امنی، بھوک افلاس اور خوف میں عالمی طاقتیں تک مبتلا ہین اس ھالت و کیفیت کے اسباب علل کیا ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی راز نہیں بلکہ اس کا فہم و ادراک تمام انسانوں کو ہے بات صرف یہ ہے کہ ہم نے شتر مرخ کی طرح منہ کو ریت میں ڈال رکھا ہے، اپنی بد حالی کو بدلنے کے لیے تیار نہیں چنانچہ ضرورت ہے کہ ان اسباب علل کی نشاندہی کی جائے اور حضور اکرم سے خطبہ حجتہ الوداع سے رہنمائی بھی حاصل کی جائے۔

ہمارے خیال میں موجودہ بحران کی ایک بنیادی وجہ انسانی جان و مال اور عزت و حرمت کی پامالی ہے جس بیہمانہ انداز میں طاقتور قوتیں کمزور انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں، ان کی املاک اور عزتِ نفس کو روندا جا رہا ہے اس سے نفرت، دشمنی اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھی ہے ہر جگہ انسانی کون کی پامالی پر مزاحمت اور کشمکش کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو جاری ہے۔

کشمیر، فلسطین اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں طاقت کے نشے میں بدمست طاغوتی قوتیں انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کی نشانہ بنارہی ہیں اس نے عالمی امن کے قیام کی امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور یہ طاغوتی طاقتیں اس ظلم پر خود بھی چین و سکون میں نہین ہیں وہ بھی حملوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔ حضور اکرم نے اپنے خطبہ مبارک میں انسانی خون، اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کو احترام کیا جائے ناحق لوگوں کا قتل عام اور جنگیں مسلط نہ کی جائیں تو دنیا کے نصف سے زیادہ مسائل از خود حل ہوجائیں۔

دوسری وجہ جو انسانی اجتماعیت مین کواہ و مقامی ہو یا قومی یا بین الاقوامی فتنہ و فساد کا باعث ہے وہ طبقات پر مشتمل انسانوں میں امتیاز و تفریق کا غلام ہے اگر ہم معاشرے پر نظر ڈالیں انسان واضح طور پر دو طبقوں میں تقسیم نظر آئیں گے ایک حاکم اور دوسرا محکوم۔ حاکموں کو زائد از ضرورت اور آسائش بلکہ تعیشات حاصل ہیں جبکہ محکوموں کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہین ہے۔ حاکم و محکوم اور امارات اور غربت کا فرق  و فاصلہ اتنا بڑھ گیا ہےکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کے مطاہر محسوس کئے جا سکتے ہیںاعلیٰ طبقہ چاہے جتنا بڑا جرم اور ظلم کرے،کتنی بڑی کرپشن کرے لیکن قانون حرکت میں نہیں آتالیکن ایک گریب مزدور رزق حلال کے حصول کے لئے سڑک کے کنارے ٹھیلا بھی لگاتا ہے تو وہ ناجائز تجازوات میں شمار کر کے حوالہ زنداں کر دیا جاتا ہےحضور اکرم نے اپنے خطبہ میں انسانوں میں ایسی طبقاتی امتیاز و فرق کی نفی کی۔وحدت آدمیت اور مساواتِ انسانی کا قانون اور اصول دیتے ہوئے معروف قول ارشاد فرمایا کہ:

ـتم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے اللہ کے نزدیک قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار یعنی اللہ سے ڈرنے والا اور اس بندگی بجا لانے والا ہے،کسی عربی کو عجمی پر،کسی عجمی کو کسی عربی، کسی کالے کو گورے پر فضیلت اور سبقت نہیں بجز تقویٰ۔

اپنی دانست میں اگر کسی کی تیسری وجہ کو موجودہ عالمی بحران کا باعث قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے باعث محرومی ، حق تلفی، زیادتی کے احساسات نے انسانوں میں نفرت اور انتقام کا الاؤ بھڑکا دیا ہےتو وہ محرومین و مستضعفین کا طبقہ ہے جس کا ہر قوم اور خطے میں استحصال کیا جا رہا ہے ان محرومین میں خواتین اور غلام شامل ہیں۔عورتوں پر ظلم کل بھی ہو رہا تھا اور آج بھی ہو رہا ہے۔غلاموں س بیگار کل بھی لی جا رہی تھی اور آج بھی جاری ہے۔چناچہ حضور نے عورتوں سے حسن سلوک کی وصیت فرمائی،عورتوں کو اللہ کی امانت قرار دیتے ہوئے ان کے معاملات میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی غلاموں سے حسن سلوک کے بارے میں  فرماتے ہوئے نصیحت جو تم کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ جو تم پہنو وہی انہیں پہناؤ۔

مرحومین اور مستضعفین کے ان دو طبقوں کی نشاندہی کے ساتھ آپ نے تمام مظلومین و محرومین او ر مستضعفین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت و نصیحت فرمائی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ خطبے حجتہ الوداعہر ہر پہلو روشن اور انسانیت کی فوز و فلاح کے لئے ایک دائمی منشور ہے تاہم اگر انسانیت آج کم از کم ان تین پہلو ؤں سے بھی اپنی اصلاح کا فیصلہ کرے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔

اور آخر میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضور اکرم نے اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ:

’’میں تمہارے درمیان کتاب اور سنت رسول چھوڑے جا رہا ہوںاگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔‘‘

انسانیت آج تاریکی اور گمراہی کی جس شاہراہ پر بھنک رہی ہے اس میں روشنی اور امید کی کرن خطبہ حجتہ الوداع ہے۔ یہ خطبہ رہتی دنیا تک انسانیت کے امن و سلامتی اور ترقی و خوشحالی اور استحکام کا دائمی منشور ہے۔