محمد یونس جنجوعہ
حج ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ارکان اسلام وہ ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔ حج ایک عظیم عبادت اور اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خصوصی رحمت کا مظہر ہے۔ اللہ کے بندے ہمہ وقت اللہ کی رحمت کے محتاج ہیں۔ خاص طو ر پر گناہوں کی بخشش تو ہر شخص کی دلی تمنا ہے۔ انسان کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے مہربان رب نے 9 ذوالحجہ کے دن کو ادائیگی حج کے ساتھ وابستہ کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہو کر واپس ہوگا جیسا اُس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا‘‘۔ (بخاری ومسلم)
جو مسلمان استطاعت ہوتے ہوئے بھی اتنی بڑی نعمت سے فائدہ نہ اٹھائے اُس کے متعلق آپؐ نے فرمایا: ’’جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر۔ اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے اُن لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں‘‘۔ (جامع ترمذی)
حج کی فرضیت کا حکم راجح قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اس کے اگلے سال 10ھ میں اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے رسول اللہؐ نے صحابہ کرامؓکی کثیر تعداد کے ساتھ حج فرمایا جو ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ آپؐ نے ذوالقعدہ میں حج کے ارادے کا اعلان کردیا جس سے پورے عرب میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور ہر مسلمان کی خواہش ہوئی کہ وہ رسول اللہؐ کی معیت میں فریضۂ حج ادا کرے۔ چنانچہ ایک جم غفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مکے کی جانب روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر آپؐ نے عصر کی نماز پڑھی۔ اگلے دن ظہر کی نماز کے بعد آپؐ نے اور صحابہ کرامؓ نے احرام باندھا اور 4ذوالحجہ کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ جب آپؐ کی نظر بیت اللہ پر پڑی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے اللہ تو اس گھر کو زیادہ عزت و شرف عطا فرما‘‘۔ پھر آپؐ میدانِ عرفات میں تشریف لائے اور اپنی اونٹنی قصوا پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبۃ حجۃ الوداع کہلاتا ہے۔ یہ خطبہ قیامت تک یادگار رہے گا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں، بالکل اس طرح جس طرح آج کے دن (یوم العرفہ) اور (ذوالحجہ کے) اس مبارک مہینے اور اس مقدس شہر مکہ مکرمہ کی حرمت ہے! (تم اس میں ناحق کسی کا خون کرنا اور کسی کا مال لینا حرام جانتے ہو) خوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں میرے دونوں قدموں کے نیچے دفن اور پامال ہیں اور زمانۂ جاہلیت کے خون بھی معاف ہیں (یعنی اب کوئی مسلمان زمانۂ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے گا) اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانے کے ایک خون ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کے بیٹے کے خون کی معافی کا اعلان کرتا ہوں جو قبیلہ بنی سعد کے ایک گھر میں دودھ پینے کے لیے رہتا تھا، اس کو قبیلہ ہذیل کے آدمیوں نے قتل کر دیا تھا۔ اور زمانۂ جاہلیت کے تمام سودی معاملات بھی میں ختم کر رہا ہوں اور اس باب میں بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کے سودی مطالبات میں سے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کے سودی تقاضوں کی معافی کا اعلان کرتا ہوں۔
اے لوگو! عورتوں کے حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں خدا سے ڈرو۔ اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم اور اس کے قانون سے اُن کے ساتھ تمتع تمہارے لیے حلال ہوا ہے۔ اور تمہارا خاص حق اُن پر یہ ہے کہ جس آدمی کا گھر میں آنا اور تمہاری جگہ او ر تمہارے بستر پر بیٹھنا تم کو پسند نہ ہو وہ اس کو اس کا موقع نہ دیں، لیکن اگر وہ یہ غلطی کریں (تو اصلاح کی خاطر) اُن کو کوئی ہلکی سی سزا دے سکتے ہو۔ اور ان کا خاص حق تم پر یہ ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرو۔ اور میں تمہارے لیے وہ سامانِ ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس سے وابستہ رہے اور اس کی پیروی کرتے رہے تو پھر تم کبھی گمراہ نہ ہو گے‘ وہ ہے کتابُ اللہ!
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ میں نے تمہیں اللہ کے احکام پہنچائے یا نہیں) تو بتاؤ کہ وہاں تم کیا کہو گے اور کیا جواب دو گے؟‘‘ حاضرین نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کے احکام ہمیں پہنچا دیے ہیں اور راہنمائی اور تبلیغ کا حق ادا کر دیا اور نصح وخیر خواہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس پر آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اس سے اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: ’’اے اللہ تو گواہ رہ! اے اللہ تو گواہ رہ! اے اللہ تو گواہ رہ!‘‘
پھر حضرت بلالؓ نے اذان واقامت کہی اور آپؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے اقامت کہی اور آپؐ نے عصر کی نماز پڑھائی۔ (مسلم)
عرفہ کا یہ دن جمعے کا دن تھا۔ مگر رسول اللہؐ نے جمعے کی نماز کی بجائے ظہر کی نماز پڑھی اور پھر ساتھ ہی عصر کی نماز بھی پڑھ لی۔ یعنی جو خطبہ اس دن آپ نے دیا وہ جمعے کا خطبہ نہ تھا بلکہ حج کا خطبہ تھا۔ اس موقع پر آپؐ نے ایک سے زائد خطبے دیے جن کے الفاظ حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ یہ خطبات حقوقِ انسانی کا خوبصورت گلدستہ ہیں۔ اگر ان کے الفاظ کو سمجھ کر اُن پر عمل ہونے لگے تو انسانیت امن و سکون کا سانس لے۔ عین اُس وقت جب آپ میدانِ عرفات میں لوگوں سے مخاطب تھے تو تکمیل دین کے یہ الفاظ بصورت وحی نازل ہوئے:
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین منتخب کر لیا‘‘۔ (المائدہ 3)
آپؐ نے یہ آیت بھی وہاں پڑھ کر سنادی اور تکمیل دین کا اعلان کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ گہری وابستگی پیدا کی جائے اور رسول اللہؐ کی تعلیمات کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا شعور پختہ کیا جائے۔ ہر انسان اپنے اعمال کا جائزہ لے اور ہدایت کی راہ سے ادھر ادھر نہ ہو تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس خطبے کو بجا طور پر حقوق انسانی کا جامع منشور کہا جاتا ہے۔