ڈاکٹر ممتاز عمر
اگر آپ خدانخواستہ کسی بیماری ذیابیطس، بلڈپریشر، دل یا جوڑوں وغیرہ کے درد میں مبتلا ہیں تو اپنے ذاتی معالج سے ادویات کا ایک نسخہ بنوالیں اور کم وبیش ڈیڑھ ماہ کی ادویات خرید کر حاجی کیمپ جا کر پیک کرا لیں۔دوران سفر ایک یا دو دن کے لیے ادویات اپنے پاس بھی رکھیں۔ جولوگ صحت مند ہیں وہ رب کریم کا شکر ادا کریں مگر پھر بھی احتیاطی اقدام کے طور پر عام نزلہ بخار اور موشن کی ادویات ضرور خریدیں۔ اس سلسلے میں پیراسیٹا مول (پیناڈول) میفنیک ایسڈ (پونسٹان)، اینٹی الرجک، اینٹی ڈائیرئیل، فلائجل، انٹوکس، اینٹی وومیٹنگ، موٹیلیئم اور اسٹیمی ٹیل وغیرہ اپنے پاس رکھیں مگر طریقہ کار وہی ہوگا کہ پہلے اپنے ذاتی معالج سے یہ ادویات لکھوائیں اور پھر حاجی کیمپ میں جا کر پیک کرا لیں۔ یہ تمام ادویات مکہ اور مدینہ میں بھی باآسانی دسیتاب ہیں مگر قیمت کا خاصا فرق ہے مثلاً پینا ڈول کا پتہ کم ازکم تین چار ریال یعنی پاکستانی سو روپے میں ملے گا۔ ہاں ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ وہاں موجود کلینک جنہیں مستشفیٰ کہتے ہیں جا کر بیماری کی نوعیت کے مطابق ادویات حاصل کی جائیں جو حجاج کرام کے لیے بالعموم مفت ہوتی ہیں مگر مستشفیٰ اکثر دور ہوتے ہیں اور پھر مریضوں کا رش بھی ہوتا ہے۔ اس لیے آنے جانے کی زحمت اور عبادت میں تعطل سے بچنے کے لیے جہاں تک ممکن ہو ادویات اپنے ساتھ ہی لے جائیں۔ اتنی احتیاط ضرور کریں کہ کسی قسم کے کیپسول، شربت یا کریم کو ہرگز نہ لے جائیں کیونکہ ان اشیاء کو بالعموم نہیں لے جانے دیتے۔
جانے سے قبل اپنے بیگ اور اٹیچی کا خوب جائزہ لیں کہ وہ مضبوط ہوں کیونکہ سامان کئی بار اتارا اور رکھا جاتا ہے جس میں ان کے کھلنے اور سامان کے بکھرنے کا احتمال رہتا ہے۔ احتیاط کے پیش نظر بیگ اور اٹیچی پر چڑھانے کے لیے کپڑے کے غلاف تیار کرلیں جنہیں ڈوری سے اچھی طرح باندھ لیں۔ بیگ، اٹیچی اور غلاف مہر پر اپنا نام، پتا اور فون نمبر نمایاں طور پر لکھیں اور ایک آدھ مارکر اور چند بال پین اپنے ہمراہ ہمیشہ رکھیں تاکہ ایئرپورٹ پراندراجات کے وقت پریشانی نہ ہو۔ جاتے وقت جس قدر ممکن ہو کم سامان اپنے ہمراہ رکھیں کیونکہ واپسی پر یہ سامان آپ کے لیے بڑی زحمت کا باعث ہوگا۔ اگر مناسب سمجھیں تو دو احرام کے سیٹ، ایک تولیے والا اور دوسرا لٹھے کا، اپنے ہمراہ ایک یا دو ایسے بیلٹ لیں جو احرام کے ساتھ باندھے جاسکیں جن میں اپنی قیام گاہ کا پتا، نقد رقوم وغیرہ رکھنے کا انتظام بھی ہو۔ یہ بیلٹ احرام کے علاوہ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ موبائل فون میں ڈوری ڈلوائیں تاکہ گلے میں لٹکا رہے، زیادہ سے زیادہ پانچ سوٹ، ایک چادر، ایک پلیٹ، چمچہ اور ایک کپ، کان صاف کرنے کی تیلیاں، دانت کے لیے خلال، برش، مسواک، چھری اور چھوٹی قینچی بھی ضرور رکھیں۔ یہ اشیا ہینڈ بیگ میں رکھنے کے بجائے لگیج میں رکھیں کیونکہ چھری اور قینچی ہینڈ بیگ میں ہوں تو ضبط کرلی جاتی ہیں۔ پاکستان سے جدہ اور پھر خانہ کعبہ تک پہنچنے کا دورانیہ کم وبیش چوبیس گھنٹے پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ جہاز میں تو کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا مگر جدہ ایئرپورٹ سے مکہ مکرمہ اپنی قیام گاہ تک کھانا ملنا مشکل ہوتا ہے اس لیے ہینڈ بیگ میں پانی کی ایک بوتل اور بسکٹ کے چند پیکٹ ضرور رکھیں۔
اگر آپ چائے کے شوقین ہیں تو بازار سے چائے خریدنے کے بجائے اسے خود ہی بنانے کا اہتمام کریں۔ ویسے تو چاے دو ریال فی کپ ملتی ہے مگر حج کے ایام میں چائے یا کھانا کا ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ ایک الیکٹرک کیٹل یہیں سے خرید لیں اور چاہیں تو وہیں جا کر خریدیں۔ ٹی بیگ بھی یہیں سے خریدنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن خشک دودھ اور چینی ہرگز نہ لے جائیں کیونکہ اکثر ان دونوں اشیاء پر شک کرکے روک لی جاتی ہیں اور یہ دونوں اشیا وہاں باآسانی مناسب قیمت پر دستیاب ہیں۔ الیکٹرک کیٹل میں پانی گرم کریں اور ٹی بیگ ڈال کر چائے جب چاہیں بنا کر پئیں۔ اسی طرح اگر آپ کے حج پیکج میں کھانا موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں بصورت دیگر قیام گاہ کے قریبی ہوٹلوں سے کھانا خرید کر تناول کریں۔ عام طور پر سالن کے ساتھ روٹیاں مفت ملتی ہیں یوں ایک سالن اور ملنے والی تین روٹیاں دو افراد کے لیے کافی ہوسکتی ہیں۔ کھانا پکانے کا تکلف نہ کریں کیونکہ اس بکھیڑے میں خاصی الجھنیں درپیش ہوں گی۔ ہاں! اتنا ضرور کریں کہ چھوٹا بھگونا یا فرائی پین اپنے سامان میں رکھیں تاکہ وقت ضرورت کھانا گرم کیا جاسکے۔ کھانا گرم کرنے کی سہولت رہائش گاہ میں موجود ہوتی ہے۔ کپڑے کم لے جانے کی ہدایت کی ہے اور آپ سوچ رہے ہوں گے کہ محض چار پانچ جوڑوں سے چالیس دن کس طرح گزارے جائیں گے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ کپڑے وہاں کم میلے ہوتے ہیں پھر بھی عمرے اور حج کے بعد بال کٹوانے کی وجہ سے احرام اور کپڑوں کو دھونے کی ضرورت رہتی ہے اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ واشنگ پائوڈر وہیں سے خرید کر اپنی رہائش گاہ میں ہی کپڑے دھو لیے جائیں اور اپنے کمرے ہی میں ڈوری باندھ کر سکھا لیے جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔ جب آپ صبح بیت اللہ کا قصد کریں اور دنیاوی اعتبار سے اس کوشش کو دوچند کرتے ہوئے سرکاری یا پرائیویٹ اسکیم کے ذریعے ان خوش نصیبوں میں شامل ہوگئے ہوں کہ جن کی درخواست منظور ہوجائے تو آپ کو اٹھتے بیٹھتے اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرنا چاہیے اوراپنے دل کو ان مقامات کی دید میں تخیل کے سہارے ہر لمحے جگانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ممکن ہو تو حج وزیارات سے متعلق کتب اور سی ڈیز کے ذریعے زیادہ سے زیادہ معلومات کے حصول میں منہمک ہو جائیں تاکہ جب ان مقامات پر پہنچیں تو ہر اعتبار سے ان سے متعارف ہوں، دعائیں یاد کریں۔ مناسک کی ادائیگی کے لیے خود کو ہر اعتبار سے تیار کریں۔ اس راہ میں آنے والے معاملات، مسائل اور مشکلات کا بخوبی ادراک کرلیں تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے اس سعادت کو باآسانی حاصل کرسکیں۔
حج پیدل چلنے کا نام ہے جتنی آپ میں پیدل چلنے کی استطاعت مضبوط ومستحکم ہو گی آپ اسی قدر سفر حج میں کامیاب وکامران رہیں گے۔ اس لیے ممکن ہو تو ابھی سے پیدل چلنے کی عادت ڈالیے تاکہ وقت ضرورت پریشانی نہ ہو۔ جب حج کی درخواست منظور ہو جائے توسب سے پہلا کام یہ کریں کہ اپنے معاملات خاص طور پرلین دین کے امور کو حتی المقدور درست کرلیں۔ میری مراد ان تمام امور کو ضبط تحریر میں لانے سے ہے جو لین دین سے متعلق ہیں۔اگر آپ نے کسی کو بطور قرض رقم دی ہے اور معینہ مہلت ابھی باقی ہے تو اپنے اہل خانہ میں سے کسی فرد کا سامنا کرا کے قرض کی رقم اور موجود تحریر کی بابت وضاحت کردیں تاکہ معاملات ڈھکے چھپے نہ رہیں۔اگر آپ نے کسی کی رقم ادا کرنی ہے اور وہ کسی بیسی یا دوسرے ذریعے سے آنے والی رقم سے آپ کی روانگی کے بعد ادا ہونی ہے تو اس بارے میں بھی ذمہ داری کا تعین کرکے دونوں کا سامنا کرا دیں۔اگر ممکن ہو تو اس سلسلے میں ایک تحریر کا اہتمام کریں جس میں لین دین کے تمام امور واضح طور پر رقم کیے جائیں ساتھ ہی وراثت کی تقسیم کے حوالے سے بھی وصیت کرنا چاہیں تو ضرور کریں۔ اسی دوران قریبی عزیز واقارب اور دوست احباب سے ملاقات کا اہتمام کریں۔ گلے شکوے اپنی حد تک دور کرنے کی کماحقہ، کوشش کریں۔جن احباب سے بالمشافہ ملاقات ممکن نہ ہوسکے انہیں بذریعہ تحریر سفیر حج سے مطلع فرمائیں۔ اپنی دانستہ ونادانستہ غلطی پر معافی کے خواستگار ہوں۔اس تحریر کے بعد بذریعہ فون تحریر ملنے کی بابت معلوم کریں اور انتہائی خوش اخلاقی کے ساتھ محرر شدہ بیان دہرائیں تاکہ حجت تمام ہوسکے۔