ایمان مغازی الشرقاوی/ترجمہ: محمد ظہیرالدین بھٹی
ارشادِ الٰہی ہے: ’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیاوالوں سے بے نیاز ہے‘‘ (اٰلِ عمرٰن ۳:۹۷)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو، اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو‘‘(مسلم)۔ جب ایک مسلمان حج کے سلسلے میں اس حکمِ ربانی اور ارشاد نبویؐ کی تعمیل کا تہیہ کرلیتا ہے تو وہ دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے کہ کاش دن اور رات سمٹ جائیں تاکہ وہ حرم میں جاپہنچے اور ان سعادت مندوں میں شامل ہوجائے جنھیں اللہ رحمن نظررحمت سے دیکھتا ہے اور انھیں آتشِ جہنم سے آزاد کردیتا ہے۔
میدانِ عرفات اور میدانِ حشر:
زائر حرم احرام باندھتا ہے تو اسے موت یاد آتی ہے۔ وہ احرام کی سفید چادروں کو کفن گمان کرتا ہے۔ عرفات پہنچ کر گویا وہ اپنے تئیں میدانِ حشر میں موجود پاتا ہے۔ یہ احساس اس پر غالب رہتا ہے کہ تھوڑی ہی دیر کے بعد، اُس سے اُس کے اعمال کی بابت بازپُرس ہوگی۔ یہ خیال آتے ہی اس کے وجود میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے اور اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، چنانچہ وہ دل کی گہرائیوں سے پکار اُٹھتا ہے: ’’اے میرے پروردگار، میں تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے حاضر ہوں۔ تیرے عفو و درگزر کی چوکھٹ پر کھڑا ہوں اور تیری رضا کا طلب گار ہوں، لبیک اللھم لبیک۔
موقفِ عرفہ یومِ حشر یاد دلاتا ہے۔ جب اللہ اگلوں پچھلوں کو یک جا کرے گا۔ اس دن جن و انس، فرشتے، انسان اور اس کے اعمال، انبیا اور اُن کی اُمتیں، نیکوکاروں کا ثواب اور بدکاروں کی سزا سب یک جا ہوں گے۔اس دن کی ہولناکی بچوں کو بوڑھا کردے گی۔ اس روز ہرکسی کو حاضر ہونا ہوگا، نہ کوئی پیچھے رہ سکے گا اور نہ کوئی آنے سے انکار کرپائے گا۔ اس دن کسی کے لیے اختیار و ارادہ نہ ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی پکار رہا ہوگا اور نجات کا متمنی ہوگا۔ عرفات میں دنیا کے ہرعلاقے کے مسلمان آتے ہیں، جب کہ روزِ حشر آدم ؑ سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک کے انسان اکٹھے ہوں گے۔ میدانِ عرفات میں جہنم کی آگ سے آزادی کے لیے دعائیں ہوتی ہیں تو حاجیوں کو مغفرت سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے ہی میدانِ حشر میں گنہگاراہلِ ایمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جہنم کی آگ سے نجات ملے گی۔’’اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء ۲۶:۸۸۔۸۹)
قلبِ سلیم وہ ہے جو شرک و گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو، جو بدعت سے محفوظ اور سنت پر مطمئن ہو، جو لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو۔ ایسے لوگ روزِ قیامت خوف سے امن میں ہوں گے۔ جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’لا الٰہ الا اللہ والوں پر نہ ان کی قبروں میں کوئی وحشت ہوگی، نہ حشرمیں۔ مَیں گویا لا الٰہ الا اللہ والوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے اس نے ہم سے پریشانی دُور کردی‘‘۔ (طبرانی)
میدانِ عرفات اور میدانِ حشر میں شیطان کی حالتِ زار:
حضور اکرمؐفرماتے ہیں: ’’اللہ رحیم ہے، سخی و کریم ہے، اسے اپنے بندے سے حیا آتی ہے کہ وہ اس کے سامنے ہاتھ اُٹھائے اور پھر اللہ اس کے ہاتھوں میں خیر نہ ڈالے‘‘ (الحاکم)۔ چنانچہ اللہ حاجیوں کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا۔ شیطان اس موقع پر ذلیل و رُسوا ہوتا ہے، بہت سٹپٹاتا ہے، کیونکہ پلک جھپکنے میں اس کی ساری کوششیں اکارت چلی گئیں۔
آپؐ نے فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و حقیر اور افسردہ و غضب ناک نہیں ہوتا، جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف کرتے دیکھتا ہے‘‘ (موطا)۔ حضوؐر نے عرفہ کے دن کی شام اپنی اُمت کی خاطر مغفرت و رحمت کی بہ کثرت دعا کی تو اللہ کی طرف سے فرمایا گیا: میں نے تمھاری اُمت کو معاف فرما دیا سواے ان کے جنھوں نے ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کی۔ آپؐ نے عرض کیا: اے پروردگار! تو ظالم کو بخشنے اور مظلوم کو (اس پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے) زیادہ اجروثواب دینے پر قادر ہے۔ اگلے روز صبح آپؐ مزدلفہ کے مقام پر اُمت کی خاطر دعا کرتے رہے۔ پھر آپؐ کچھ دیر بعد مسکرائے۔کسی صحابیؓ نے کہا: آپؐ ایسے وقت مسکرائے جب کہ آپؐ اس موقع پر مسکرایا نہیں کرتے تھے۔ فرمایا: میں دشمنِ خدا ابلیس پر مسکرایا ہوں، جب اسے معلوم ہوا کہ اللہ نے میری اُمت کے حق میں، میری دعا قبول فرمالی ہے اور ظالم کو بخش دیا ہے، تو وہ تباہی و بربادی مانگنے لگا اور اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ میں اس کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرایا ہوں۔(مسنداحمد)
قیامت کے دن شیطان کی حالتِ زار کی منظرکشی رسالت مآب نے یوں فرمائی ہے: سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا۔ ابلیس کی ذُریت اس کے پیچھے ہوگی، وہ سب ہلاکت کو بلا رہے ہوں گے اور موت کو پکار رہے ہوں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا: آج ایک موت کو نہیں، بہت سی موتوں کو پکارو۔(مسند احمد)
رمی جمرات:
حاجی شیطان کو کنکریاں مارنا شروع کرتے ہیں تو ہرحاجی اپنے پروردگار کی کبریائی بیان کر رہا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے وجود میں اللہ کی دی ہوئی قوت محسوس کرتا ہے، جس کے سامنے دنیا کی ہرقوت ہیچ ہے۔ اس کے ساتھ ہی حاجی کو اپنی عاجزی، بے بسی اور کمزوری کا بھی احساس ہوتا ہے۔ ہرکنکری پھینکنا گویا شیطان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور اس کے خلاف گھات لگانے کا عہد ہے۔ حسد، کھوٹ، تکبر، غرور، مکروفریب، فرقہ بندی و اختلاف اور بدعت و گم راہی سے مبرا ہونے کا اظہار ہے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ کنکریاں مارنے سے تمھارا مقصد یہ ہو کہ اللہ کے حکم کے سامنے سرنگوں ہونا ہے، اسی کے لیے غلامی کا اظہار کرتے ہوئے اور محض تعمیلِ ارشاد کو غنیمت سمجھتے ہوئے، اس میں عقل و نفس کا کوئی دخل نہ ہو۔ پھر تم ابراہیم علیہ السلام کی مشابہت کا قصد کرو، جب اس مقام پر ابلیس لعین ان کے سامنے آیا تاکہ وہ آپ کے حج پر کوئی شبہہ وارد کرے یا نافرمانی کے ذریعے انھیں آزمایش میں ڈالے، تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ وہ شیطان کو دھتکاریں اور اس کی اُمید کو کاٹنے کے لیے اسے پتھر ماریں۔ حاجی ہر کنکری پھینکنے کے ساتھ نفس و خواہش کے شیطان پر بھی رجم کرتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ شیطان نے اس کے باپ آدم ؑ اور اس کی ماں حواؑ کے ساتھ کیا کیا تھا اور کس طرح نسلِ آدم ؑ کو بھٹکانے کی دھمکی دی تھی۔ حاجی سوچتا ہے کہ شیطان کے ساتھ اس کا معرکہ جاری ہے اور دشمنی اب تک قائم ہے۔
رمی جمرات کا تقاضا اور شیطانی ہتہکنڈے:
حج کے مناسک مکمل کرنے کے بعد حاجی جب گھر پہنچے گا تو ازسرِنو، دشمن کے ساتھ مقابلہ شروع ہوگا۔ لہٰذا حاجی کے لیے لازمی ٹھیرا کہ وہ اپنے اس ازلی دشمن کی ظاہری و باطنی مداخلت گاہوں سے آگاہ ہوتاکہ مناسب اسلحہ اور تحفظ و دفاع کا انتظام کرسکے۔ہرمسلمان کو چاہیے کہ وہ خود اپنا جائزہ لے کر دیکھے کہ شیطان اس پر کہاں سے وار کرسکتا ہے؟ اس لیے کہ شیطان ہر انسان پر حملہ کرنے کے لیے اپنا موزوں طریقہ اپناتا ہے۔ وہ زاہد پر زُہد کے طریقے سے، عالم پر علم کے دروازے سے، اور جاہل پر جہالت کے راستے سے وار کرتا ہے اور یوں اپنے ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ شیطان کے چند ہتھکنڈے یہ ہیں:
* مسلمانوں کے مابین تنازعہ اور بدگمانی: شیطان مسلمانوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور فتنے پیدا کرتا ہے۔ وہ بدگمانی پھیلا کر بُغض، نفرت اور اختلاف پیدا کرتا ہے۔
* بدعت کو خوش نما بنانا: وہ ’جدید عبادت‘ کے نام پر مسلمانوں کو اُکساتا ہے۔
* تاخیر: وہ سنجیدہ اور بامقصد کام کرنے والوں کو تاخیرپر آمادہ کرتا ہے۔ نیکی کرنے والوں کو کہتا ہے کہ بعد میں کرلینا۔ وہ سستی، کاہلی اور تاخیر پر اُکساتا رہتا ہے۔
* تکبر و غرور: یہ شیطان کی اپنی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ جنت سے نکالا گیا۔
* تشکیک: شیطان نیکی کرنے والوں کو شک میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ نیکی ترک کر دیں۔
* ڈرانا: شیطان اہلِ ایمان کو اپنے لشکروں، پیروکاروں اور ساتھیوں سے ڈراتا رہتا ہے۔ وہ صدقہ خیرات کرنے والوں کو ڈراتا ہے کہ تم نادار ہوجاؤ گے۔
* باطل کو خوش نما بنانا: شیطان اس جال میں اولادِ آدم کو خواہشات کی پیروی سے پھانستا ہے۔
* نظربازی: آپؐ نے فرمایا: نظر ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جس نے اسے اللہ کے خوف سے چھوڑا، اللہ اسے ایمان عطا فرمائے گا، جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔(الحاکم)
شیطان کا طریقِ واردات:
علامہ ابن القیمؒ نے شیطان کے بہکاوے کے چھے تدریجی مراحل یوں بیان کیے ہیں: شیطان کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسان کفر اور شرک کرے۔ اگر شکار مسلمان ہو تو پھر شیطان دوسرا مرحلہ اختیار کرتا ہے کہ وہ بدعت پر کاربند ہوجائے، اور اگر مسلمان سنت پر سختی سے قائم ہو تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں پر اُکساتا ہے۔ اگر انسان اپنے آپ کو اس سے بھی بچالے تو شیطان مایوس نہیں ہوتا۔ اب وہ اسے چھوٹے گناہوں پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر وہ چوتھے مرحلے میں بھی اس کا شکار نہ بنے تو شیطان انسان کو، زیادہ تر مباح کاموں میں مشغول رہنے پر اُکساتا ہے، تاکہ وہ اہم اور سنجیدہ کاموں کو نظرانداز کردے۔ چھٹا مرحلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو افضل کے بجاے غیرافضل کام میں مشغول کردے، مثلاً وہ سنت کا تو اہتمام خوب کرے مگر فرض کو نظرانداز کردے۔ نفلی نماز تو پابندی سے پڑھے مگر فرض نماز ترک کردے۔
علامہ ابن القیمؒ نے فرمایا: ہر عقل مندجانتا ہے کہ انسان پر شیطان تین جہتوں سے حملہ کرتا ہے:
* اسراف و زیادتی: انسان کو زائد از ضرورت سہولیات حاصل کرنے پر اُبھارتا ہے۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو مطلوب سہولیات مکمل طور پر فراہم کرنے سے بچے۔ وہ غذا، نیند، لذت یا راحت، ہر ایک سہولت سے ضرورت کے مطابق ہی فائدہ اُٹھائے۔ شہوات و ممنوعات سے دُور رہے۔ یوں وہ دشمن کی مداخلت سے محفوظ ہوجائے گا۔
* غفلت: اللہ کو ہروقت یاد رکھنے والا گویا قلعہ بند ہوجاتا ہے۔ جب انسان ذکر سے غفلت برتتا ہے تو قلعے کا دروازہ کھل جاتا ہے، دشمن اندر آجاتا ہے۔
* لایعنی اُمور میں مشغولیت: شیطان انسان کو لایعنی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے،لہٰذا انسان کو تمام فضول و غیرمتعلق اُمور سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔
شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے مومن کے ہتہیار:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: شیطان فرزندِ آدم میں خون کی مانند دوڑتا ہے (مسلم)۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہ کثرت پڑھا کرتے تھے: ’’اے دلوں کے پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین اور طاعت پر ثابت و برقرار رکھ‘‘ (مسنداحمد)۔ مومن کو شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل ہتھیار استعمال میں لانے چاہییں تاکہ اس کے شر و وسوسے سے امان میں رہے: * اللہ پر ایمان و توکّل * صحیح مآخذ سے شرعی علم حاصل کرنا * اخلاص * اللہ کی پناہ میں آنا *مجاہدۂ نفس (یعنی رغبت، خوف، خواہش اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھنا) * استغفار *باوضو رہنا * ذکر *معوذتین (قرآنِ کریم کی آخری دونوں سورتیں) اور آیت الکرسی پڑھنا۔
حج کے فوائد و ثمرات
حجاج کرام، صرف اللہ کی عبادت کی خاطر، مقدس سرزمین میں آتے ہیں۔ ان کا مقصدِ وحید طلبِ رضاے الٰہی ہوتا ہے۔ وہاں جانے میں، ان کی کسی نفسانی خواہش کا ہرگز دخل نہیں ہوتا۔ وہ زبانِ حال سے شیطان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: اے ملعون، اگر تو نے اپنے خالق و پروردگار کی عبادت سے تکبر کیا تو دیکھ، ہم سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں۔ اگر تو نے اس کی نافرمانی کی تو ہم سب اس کے فرماں بردار اور عبادت گزار ہیں۔ حج کے موقع پر ان کے احساسات یہ ہیں کہ حاکم و محکوم، چھوٹے بڑے، مال دار و مفلس، سیاہ و سفید اور عربی و عجمی کے مابین کوئی فرق نہیں۔ گھر تیرا ہے، اقتدار تیرا ہے کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں، تقویٰ ہی واحد معیارِ فضیلت ہے۔ حجاج کرام میں یہ احساس پیدا ہونا، حج کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ ان پر عملی طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نے تمام انسانوں کو کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ٹھیرایا ہے۔ مختلف شکلوں، رنگوں، قومیتوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود، کسی کے لیے کوئی امتیاز نہیں۔ رب کی نظر میں سب یکساں ہیں۔
حج مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر اور ان کی سالانہ کانفرنس ہے۔ حج مسلمانوں کے سیاست کاروں کے اتحاد اور علما کے اتفاق کا موقع، علم اور تعلیم دین کے فروغ کا ذریعہ، بھلائیوں کا موسم اور دنیا و آخرت کے منافع ملنے کا مقام ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حج میں نئی اسلامی ریاست کا عادلانہ دستور پیش فرمایا، جب کہ آپؐ کے خلفاے راشدینؓ حج کو اپنے صوبوں اور شہروں کے حالات سے باخبر رہنے کا ایک سنہری موقع سمجھتے تھے۔ مظلوموں کی دادرسی کی جاتی۔ غلط کار سرکاری افسروں___ خواہ وہ گورنر ہوں یا عام کارندے___ کی سرزنش کی جاتی۔
اسی سرزمین میں علم و تعلّم کا حکم نازل ہوا۔ اسی میں علما کی اہمیت و برتری بیان ہوئی۔ چنانچہ حج کے موقع پر حاجیوں میں قرآن کریم کے نسخے اور مفید شرعی کتب تقسیم کی جاتی ہیں، نیز حُرمین شریفین کے مختلف کتب خانے کتابیں فروخت کرکے علم کو عام کرتے ہیں۔ حج دنیا بھر سے آنے والے اہلِ علم کے ملنے کا سنگم ہے جہاں وہ باہم استفادہ کرسکتے ہیں، نئے پیش آمدہ حالات کے بارے میں اپنی راے ظاہر کرسکتے ہیں اور دوسروں کی آرا سے واقف ہوسکتے ہیں۔ نیز حجاج علماے کرام سے سوالات کر کے اپنی علمی پیاس بجھاسکتے ہیں۔ اہلِ علم اس موقع پر باہم متعارف ہوکر بعد میں رابطوں کے جدید ذرائع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے سے علمی استفادہ کرسکتے ہیں اور یوں اپنے علم میں مسلسل اضافہ کرسکتے ہیں۔
اپنے اپنے علاقائی و مقامی لباس ترک کر کے احرام جیسے ایک ہی لباس میں ملبوس، ایک مقام پر ایک جیسی عبادت کرنے والے اور اپنی اپنی زبانوں میں عہدوپیمان باندھنے کے بجاے عربی زبان میں لبیک اللھم لبیک۔۔۔ بآواز بلند پکارنے والے دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان، اپنے آپ میں حج کی بدولت یک جہتی و یک رنگی کا احساس پاتے ہیں۔ اس سے وحدتِ اسلامی میں استحکام اور پختگی آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب ہی حاجی اپنے آپ کو ایک ہی بدن کے اعضا کی مانند سمجھتے ہیں۔ کاش کہ یہی احساسِ وحدت مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی، عسکری اور سیاسی وحدت میں بدل جائے اور مسلمانانِ عالم اس وحدت کے ثمرات سے بہرہ ور ہوں۔
حج ایک لحاظ سے ایک سیاسی سالانہ کانفرنس بھی ہے کہ اس کی بدولت دنیا کے تمام مسلم زعما و قائدین کو مل بیٹھنے، باہم متعارف ہونے اور اپنی اپنی قوموں کے مسائل کا تذکرہ کرنے، ان کا حل پیش کرنے اور مسلم ممالک کے حالات جاننے کا موقع مل سکتا ہے۔
حج نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت کا ایک عالمی مدرسہ ہے، اس لیے کہ عزمِ حج کرنے کے ساتھ ہی حاجی کی تربیت شروع ہوجاتی ہے۔ اسے اپنے نفس کو مؤدب و مہذب بنانے کا زریں وقت ملتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو تقویٰ کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ حاجی اپنے آپ کو بخل و کنجوسی کی مذموم صفت اور مال کی حرص سے پاک کرلیتا ہے، کیونکہ وہ حج کے سلسلے میں کافی بڑی رقم بطیبِ خاطر خرچ کرتا ہے۔اپنے گھربار، عزیز و اقارب اور وطن عزیز سے دُور رہنے اور سفر کی مشقت اُٹھانے میں حاجی کی قوتِ ارادہ اور صبروبرداشت کی تربیت ہے۔ اپنے حاجی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر حج کرنے میں ایثار و قربانی، مساوات و برابری اور ’انانیت‘ کی نفی کی تربیت ہے۔ اس سے تکبر و غرور کا خاتمہ اور صرف اللہ کے لیے عبودیت کی تربیت ہوتی ہے۔ اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ دنیا کی ایک بہت بڑی قوم کا ایک فرد اور عظیم الشان برادری کا رکن ہے۔ سب حاجیوں کو وحدت و یک جہتی کا احساس اور ایک ایسی بہترین اُمت سے نسبت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے برپا کی گئی ہے۔(ہفت روزہ الجمتمع، کویت، شمارہ نمبر ۱۷۷۹، ۱۷۸۰)