December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

حج: سفرمحبت

خرم مراد

حج کی حقیقت کو تم ایک دفعہ پالو، اچھی طرح اور پوری طرح جان لو، اسی کے مطابق خود کو ڈھالو، اسی کی روشنی میں ہر قدم اٹھاؤ، تو ایک کے بعد ایک، حج کے فیوض و برکات اور انعامات و فتوحات کے دروازے تمھارے لیے کھلتے چلے جائیں گے۔

حج کیا ہے؟ اللہ سے محبت کرنا، ان کی محبت پانا۔ حج کا سفر محبت و وفا کا سفر ہے۔ اس کا مدعا اور حاصل، اللہ کے سواکچھ نہیں۔ اس کا ہر عمل محبت و وفا کا عمل ہے، اس کی ہر منزل محبت و وفا کی منزل ہے۔ یوں سمجھو کہ حج سارے کا سارا یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ، اللہ اپنے ان پروانوں سے محبت کرتے ہیں اور یہ پروانے ان کی محبت میں سرشار ہیں، کی مجسم اور متحرک تصویر ہے۔

دیکھو، بات یہ ہے کہ اللہ تم سے، اپنے بندوں سے، بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جیسا حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ماں باپ سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت کرنے والے ہیں۔ اللہ کو پکارو یا الرحمٰن کو، ایک ہی بات ہے۔ گویا اللہ کے معنی ہی الرحمٰن ہیں۔ ساتھ ہی وہ سارے دنیا والوں پر اپنی بے پایاں رحمتوں کی مسلسل بارش کر رہے ہیں۔ دنیا میں مخلوقات کے درمیان تم جہاں بھی اور جتنی بھی رحمت دیکھتے ہو، وہ سب بھی ان ہی کی رحمت کا جلوہ ہے۔ مگر دنیا میں وہ جتنی رحمت کر رہے ہیں، وہ ان کی رحمت کے ایک سو میں سے ایک حصے کے برابر بھی نہیں،اگرچہ اس کا بھی احاطہ اور شمار ممکن نہیں۔ ۹۹ حصے انھوں نے آخرت میں عطا کرنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

یہ انھی کی رحمت اور محبت ہے کہ انھوں نے ہمیں قرآن عطا کیا، تاکہ ہم آخرت کی رحمتوں میں سے حصہ پاسکیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین اور رؤف و رحیم ہیں، ہمارے اُوپر اللہ کی رحمت و شفقت کا مظہر ہیں (لَقَدْ مَّنَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔۔۔الخ)۔ موت کے بعد زندگی بخشنا اور اعمال کی جزا دینا بھی ان کی رحمت کا تقاضا ہے (کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَہ ، لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَہ)۔ ہمیں دین اسلام عطا کر کے تو انھوں نے رحمت و انعام کی انتہا کردی، یہ ان کی نعمت کا اتمام ہے کہ یہی آخرت میں ان کی رحمت تک پہنچنے کا راستہ ہے (وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ)۔ یہ بھی ان کی ہمارے ساتھ محبت کا ثمر ہے، ان کا فضل اور نعمت ہے کہ انھوں نے اپنے اوپر ایمان، ہمارے دلوں میں ڈال دیا، اسے دلوں کی زینت بنا دیا، اسے ہمارے لیے محبوب بنادیا۔ ان کے ساتھ ہماری جتنی محبت ہے، ہوگی، وہ ان کی محبت (یُحِبُّھُمْ) اور ایمان کا ثمر ہے۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ، جو ایمان والے ہیں، وہ سب سے زیادہ شدت سے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ ایمان کی ساری شیرینی، مزا اور رنگ ان کے ساتھ اسی محبت کے دم سے ہے۔

یہ بیانِ محبت ذرا طویل ہوگیا۔ لیکن محبت کے بیان کی لذت! دل چاہتا ہے کہ ختم ہی نہ ہو۔ محبت کے سفر کی لذت! دل چاہتا ہے کہ وقت سے پہلے شروع ہوجائے، ختم ہونے کا نام نہ لے۔ اس کی ہر زحمت میں لذت کی چاشنی ملتی ہے۔ حج کی حقیقت کو دل کی گہرائیوں میں پالینے کے لیے کم سے کم اتنا بیان لذیذ ہی نہیں، ضروری بھی تھا۔

دیکھو، ویسے تو اس دین کا ہر حکم، جو نعمت و محبت کا اتمام ہے، بندوں سے ان کی محبت کا مظہر ہے،اور ان کی محبت کے حصول کا راستہ، جو بندوں کی غایت ہے۔ ’’سجدہ کس لیے کرو؟‘‘ تاکہ ہم سے قریب ہوجاؤ۔ ’’مال کس لیے دو؟‘‘ علٰی حبہ،ان کی محبت میں، ان کی محبت و رضا کے لیے۔ احکام، حرام و حلال کے ہوں،اخلاق و معاملات کے، ہجرت و جہاد کے۔۔۔ سب ہم پر ان کی شفقت و رحمت پر مبنی ہیں۔ مگر حج کی بات ہی دوسری ہے۔ یہ تم سے اللہ کی محبت کا، اور ان کی محبت کے اظہار کا بے مثال مظہر ہے، اور تمھارے لیے ان سے محبت کرنے کا،اپنی محبت کا اظہار کرنے کا اور ان کی محبت پانے کا انتہائی کامیاب و کارگر نسخہ۔ عبادات میں اس پہلو سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔

ذرا غور کرو! اللہ تعالیٰ لامکان ہیں، وہ ہر جگہ موجود ہیں، وہ کسی مکان میں سما نہیں سکتے، ہرذرہ اور لمحہ ان کا ہے، اور ان کی جلوہ گاہ۔۔۔ لیکن یہ، ان کی، ہم جیسے اسیر مکان و زماں بندوں سے، بے پناہ محبت نہیں تو اور کیا ہے کہ انھوں نے، ہمیں اپنی محبت دینے اور ان سے محبت کرنے کی نعمت بخشنے کی خاطر،مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ایک بظاہر بالکل سادے اور معمولی گھر کو’اپنا گھر، بنالیا اور مشرق و مغرب میں تمام انسانوں کو اپنے اس گھر آنے کا بلاوا بھیجا، کہ آؤ، سب کچھ چھوڑ کر، لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے آؤ۔ پتھروں کے اس گھر آؤ، اس گھر میں اپنے خداے لامکاں کی محبت اور قربت حاصل کرو۔ اس گھر میں، اس کے در و دیوار میں، اس کے گلی کوچوں میں، اس کی طرف سفر میں انھوں نے تمھارے جذبہ عشق و محبت کے لیے تسکین و سیرابی، شادکامی اور لذت و کیف کا وہ سارا سامان رکھ دیا جو ایک عاشق صادق اپنے محبوب کے کوچہ و دیار اور درودیوار سے پانے کی تمنا کرسکتا ہے۔

یہ بھی اللہ کی رحمت و محبت کا کرشمہ ہے کہ انھوں نے عشق و محبت کے اس مرکز میں، جو بظاہر حسن تعمیر اور جمال ماحول سے بالکل مبرا ہے، بڑی عجیب و غریب محبوبیت رکھ دی ہے! اس گھر کو انھوں نے اعلیٰ ترین شرف و کرامت سے نوازا ہے۔ اسے انھوں نے اپنی بے پناہ عظمت و جلال کا مظہر بنایا ہے۔ اس کے سینے سے انھوں نے رحمت و محبت، برکت و ہدایت اورانعام و اکرام کے لازوال چشمے جاری کیے ہیں۔ آیات بینات کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اللہ نے اس گھر کی سادہ مگر محبت کے رنگ سے رنگین داستان کے ورق ورق پر رقم کردیا ہے۔ اللہ کے گھر کے حسن و جمال اور شانِ محبوبیت کا بیان اسی طرح الفاظ کے بس سے باہر ہے، جس طرح کسی حسین کے حسن کا اور کسی شے لذیذ کی لذت کا، جو تم دیکھنے اور چکھنے ہی سے پاسکتے ہو۔

دوسری طرف انھوں نے اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اس گھر کی محبت ڈال دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جو جا نہیں سکتے، وہ بھی جانے کی آرزو اور شوق میں سلگتے رہتے ہیں، اور کچھ نہیں تو روزانہ پانچ دفعہ، اس گھر کی طرف رخ کرکے، گھر کے مالک سے قرب اور ہم کلامی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ایک طرف دیار محبوب کی شانِ محبوبیت اور دوسری طرف محبت کرنے والوں کی محبت، ازل سے عشاق بے تاب کا ایک ہجوم بے پناہ ہے جو ہروقت اور ہرجگہ سے کھنچ کھنچ کر اس گھر کے گرد جمع ہوتا چلا آرہا ہے۔ خاص طور پر حج کے وقت، جس کو رب البیت نے جلوہ و زیارت کے لیے مخصوص و متعین کیا ہے۔ آج تم بھی اسی ہجوم کا ایک حصہ ہو،اور میری تمنا ہے۔۔۔ اور تمھاری بھی یہی تمنا ہونا چاہیے۔۔۔ کہ محبت کی یہی چنگاری تمھارے دل میں سلگ رہی ہو، اور وہی تمھیں کشاں کشاں دیارِ محبوب کی طرف لیے جارہی ہو۔

اب ذرا حج کے اعمال و مناسک کو دیکھو جو تم بجا لاؤگے۔ یہ تمام تر عشق و محبت کے اعمال ہیں۔ یہ بھی اللہ کی محبت ہے کہ انھوں نے محبت کی ان اداؤں کی تعلیم دی، ان کو اپنے گھر کی زیارت کا حصہ بنایا، اور ان پر محبت اور اجر کی بشارت دی۔ یہ سنت ابراہیم کا ورثہ ہیں۔ دیکھو شاہ عبدالعزیز صاحب ان اعمال کی حقیقت کی کتنی خوب صورت تصویر کھینچتے ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا [اور یہی حکم تمھارے لیے ہے] سال میں ایک دفعہ اپنے کو اللہ کی محبت میں سرگشتہ و شیدا بناؤ، اس کے دیوانے ہوجاؤ، عشق بازوں کے طور طریقے اختیار کرو۔ محبوب کے گھر کے لیے۔۔۔ ننگے پاؤں، الجھے ہوئے بال، پریشان حال، گرد میں اَٹے ہوئے۔۔۔ سرزمینِ حجاز میں پہنچو، اور وہاں پہنچ کر کبھی پہاڑ پر چڑھو، کبھی وادی میں دوڑو، کبھی محبوب کے گھر کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوجاؤ۔۔۔ اس خانہ تجلیات کے چاروں طرف دیوانہ وار چکرلگاؤ، اور اس کے در ودیوار کو چومو اور چاٹو۔

محبت کرنے اور محبت پانے کے یہ سب طریقے اللہ کی رحمت ہی نے تمھیں سکھائے ہیں۔

یہ ہے وہ حج جس کے لیے تم روانہ ہو رہے ہو۔ جتنا عشق و محبت کا یہ سبق ازبر کرو گے، دل پر اسے نقش کرو گے، اسے یاد رکھو گے، اللہ کو تم سے جو محبت ہے اس کی حرارت اور طمانیت اپنے اندر جذب کرو گے، اللہ سے ٹوٹ کر پورے دل سے محبت کرو گے اور اس کا اظہار کرو گے، حج کے ہر عمل کو زیادہ سے زیادہ اس محبت کے رنگ میں رنگو گے، اس سے اللہ کی محبت کی طلب اور جستجو کرو گے، انھی کی محبت اور قرب کی آرزو اور شوق میں جلو گے، اتنا ہی تم حج کی آغوش سے اس طرح گناہوں سے پاک و صاف ہوکر لوٹو گے جیسے ماں کے پیٹ کی آغوش سے نکلتے ہو، اور تمھارے حق میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پوری ہوگی۔ (حاجی کے نام، منشورات، لاہور، ص ۸۔۱۴)