March 28th, 2024 (1445رمضان19)

عید یا وعید

 


محمد یوسف اصلاحی
عید کا دن عید بھی ہے اور وعید بھی، یہ مبارک باد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارکباد کا دن ان خوش نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان شکرگزاری کی حالت میں گزرا اور تعزیت کا دن ان کم نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان اس طرح گزرا کہ وہ اس کی برکتوں سے محروم ہی رہے۔ بے شک ایسے لوگوں کے لیے عید، وعید کا دن ہے، یہ مبارکباد کے نہیں تعزیت کے مستحق ہیں:
یہ مبارکباد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارکباد اس کے لیے جس سے رمضان خوش خوش رخصت ہوا اور تعزیت کا دن ہے اس کے لیے جس سے رمضان رخصت ہوگیا اور وہ اس سے محروم ہی رہا۔
عید الفطر یقیناََ مسلمانوں کے لیے اظہارِ مسرت کا دن ہے، یہ خدا کا دیا ہوا تہوار ہے مگر یہ ضرور سوچنے کی بات ہے کہ خوشی کس بات کی؟ رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوا۔ آپ نے اس کو خدا کا انعام سمجھ کر اگر اپنی عاقبت بنانے اور مغفرت و نجات کا سامان کرنے کی فکر کی ہے تو بے شک یہ خوشی کی بات ہے، اور آپ عید الفطر کا تہوار منانے کے مستحق ہیں، مگر جس کم نصیب نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں ذرا بھی اپنی مغفرت و نجات کی فکر نہیں کی، رمضان کا سارا مہینہ اس نے یوں ہی غفلت اور محرومی میں گزار دیا، خدا کو خوش کرنے کے بجائے اس نے خدا کا غضب اور بھڑکایا، اس کو بھلا کیا حق ہے کہ وہ عید کا تہوار منائے اور خوشی کا اظہار کرے۔ وہ آخر کس بات کی خوشی منائے اور کس منہ سے خدا کی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے تکبیر کہے۔
اس شخص کی ہلاکت اور محرومی میں کس کو شک ہوسکتا ہے، جس کی تباہی اور ہلاکت کے لیے جبرئیل امین بددعا کردیں اور اس بددعا پر رسول مقبولﷺ آمین کہیں۔
جو خوش نصیب عید کی مبارکباد اور خوشی کے واقعی حق دار ہیں، ان کا ایمان افروز حال خود نبی کریمﷺ کی زبان سے سنیے اور اس آرزو کو پورا کرنے میں لگ جائیے کہ آپ کا شمار بھی ابھی لوگوں میں ہو۔ نبیﷺ نے فرمایا: جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور ہر بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے، فرشتے زمین میں اتر کر ہر گلی اور ہر راستے کے موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں۔ ان کی پکار ساری مخلوق سنتی ہے، مگر انسان اور جِن نہیں سُن پاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  وہ پکارتے ہیں:
اے محمدﷺ کی امت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف! تمہارا پروردگا بہت ہی زیادہ دینے والا اور بڑے سے بڑے قصور کی معاف کرنے والا ہے۔ اور جب مسلمان عیدگاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خدائے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا؟ فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے۔ اس پر خدا کا ارشاد ہوتا ہے: فرشتو! تم سب گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے بندوں کو جو رمضان بھر روزے رکھتے رہے اور تراویح پڑھتے رہے، اس کے صلے میں اپنی خوشنودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت  فرمادی۔
پھر خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے: میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! آج عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے، اس میں بھی تمہاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ جب تک تم میرا دھیان رکھو گے، میں تمہارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں کے سامنے ہر گز ذلیل اور رسوا نہ کروں گا۔ جاؤ تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے ہو، میں تم سے راضی ہوگیا۔
فرشتے اس بشارت پر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور خدا کی اس بخشش اور نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں، جو وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے، جو رمضان بھر کے روزے رکھ کر آج اپنا روزہ کھولتے ہیں۔ (الترغیب)