April 20th, 2024 (1445شوال11)

عید کیسے مکمل ہوگی؟

 

سلیم اللہ شیخ

 

آج عید الفطر کا دن ہے۔تمام عالم اسلام اس وقت خوشی منا رہا ہے۔عید دراصل اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ(GIFT)ہے۔لیکن ٹھریئے ۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ تحفہ کس لئے عطا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو ایسی کونسی ادا بھاگئی کہ اس نے بندوں کو اس انعام سے نوازا؟جواب ہے کہ مسلمان رمضان المبارک کے متبرک مہینے میں متواتر ایک ماہ تک روزہ رکھتے ہیں،اپنے رب کی خوشنودی کےلئے حلال کو بھی اپنے اوپر حرام کرلیتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن پاک،فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام،اللہ کی رضا کے لئے اپنی نیند قربان کرکے رتجگے(شب بیداری ) کرتے ہیں۔راتوں کو طویل طویل قیام (نماز تراویح ) کرتے ہیں ۔اسی مہینے میں صاحب نصاب مسلمان اپنے مال کو پاک کرتے ہیں اور اس کی زکٰوة ادا کرتے ہیں جبکہ عام مسلمان صدقہ فطر ادا کرتے ہیں۔ ان ساری عبادات کے نتیجے میں اللہ کو خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔حدیث شریف میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کردے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اس کی جزاءیہ ہے کہ اس کو پورا اجر عطا کیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا،پھر وہ دعا کے لئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں مجھے میری عزت و جلال کی قسم ! میں ان کی دعاﺅں کو ضرور قبول کرونگا پھر فرماتے ہیں،بندوں تم گھروں کو لوٹ جاﺅ میں تمہین بخش دیا تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر وہ سارے (عید کی نماز ) سے لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں۔

آج ہر طرف شادمانی ہے،خوشیاں ہیں۔کیا بچے کیا بوڑھے اور جوان،کیا عورتیں اور کیا مرد۔جس کو دیکھو آج خوش ہے۔تما م لوگوں نئے نئے ملبوسات پہن کر خوشی سے سرشار گھوم رہے ہیں۔ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔کتنا دل کش نظارہ ہے جب دو مسلمان بھائی آپس میں گلے ملتے ہیں،ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں،زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔آج کے دن برسوں کے روٹھے ہوئے بھی مان جاتے ہیں۔کتنے ہی خاندان ایسے ہوتے ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی رنجشوںکے باعث دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آج ایسے خاندان بھی پھر سے ایک ہوگئے ہیں۔

جناب اصل عید تو بچوںکی ہوتی ہے،اپنے والدین،بڑے بھائیوں ،چچاﺅں،ماموﺅں اور خالاﺅں سے عیدی وصول کی جارہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کوئی کنجوسی نہیں کررہا ہر فرد اپنی استعداد کے مطابق بچوں کو عید ی دے رہا ہے ۔اور بچے بڑی خوشی سے عید وصول کرتے جارہے ہیں۔یہ میلے ٹھیلے تو بچوںکے لئے ہی لگائے گئے ہیں ۔اب ذرا دیکھئے ہر محلے میں ایک چھوٹا سا میلہ لگ جاتا ہے۔یہ دیکھیں یہ دو تین قسم کے جھولے بھی موجود ہیں۔اونٹوں والے اپنے اونٹ آبادیوں میں لیکر آگئے ہیں اور بچوں کو پانچ پانچ دس دس روپے میں اونٹ کی سواری کرا رہے ہیں اور بچے!! بچوںکا پسندیدہ آئٹم ہی اونت کی سواری ہے جب اونٹ ہچکولے کھاتا ہوا چلتا ہے تو بچوں کو اسی میں مزہ آتا ہے لیکن اصل لطف تو اونٹ کے بیٹھنے اور اٹھنے میں ہے یوں لگتا ہے کہ بس اب گرے کہ تب گرے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا اور بچے اونٹ کی سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ کہیں کہیں گھڑ سواری کا بھی انتظام ہے ۔میلے میں چاٹ والے بھی ہیں،شربت والے بھی ۔اب بچوں کے تو خوب مزے آگئے ہیں اور دراصل وہی عید کا اصل لطف اٹھا رہے ہیں.

مردوں کا حال یہ ہے کہ وہ محلے میں نکلے ہوئے ہیں۔اپنے دوستو یاروں سے گلے مل رہے ہیں بچے عیدی جمع کرکے موج میلہ کررہے ہیں لیکن عورتوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ان پر آج کے دن بھی دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ایک طرف تو وہ اپنے لباس اور رکھ رکھاﺅ کا خیال کرتی ہیں۔نئے نئے ملبوسات،ہاتھوں پر نت نئے مہندی کے ڈیزائن ہیں۔اپنی دوستوں اور سہیلیوں سے عید کی مبارک بادیں بھی وصول کرنی ہیں ،ان سے ملنا بھی ہے اور دوسری جانب گھر والوں اور متوقع مہمانوں کی خاطر تواضع کابھی انتظام کرنا ہے۔آج تو وہ معمول سے کچھ زیادہ ہی وقت کچن میں گزارتی ہیں کیوںکہ آج خاص دن ہے تو پکوان بھی خاص ہونگے۔سب سے پہلی بات تو یہ کہ عید الفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے اس لئے میٹھا تو لازمی ہوگا، کہیں سویاں بن رہی ہیں تو کہیں شیر خرما،کوئی زردہ بناتا ہے تو کوئی کھیرسے مہمانوں کی اور گھر والوں کی تواضع کرتا ہے۔لیکن صرف میٹھے پکوان سے بات نہیں بنتی عید کا دن ہے آج کسی گھر میں قورمہ بنا ہے تو کوئی بریانی بنا رہا ہے ۔اگر کسی کی مالی پوزیشن کمزور ہے تب بھی ہر گھر میں لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق اچھے اچھے اور بہترین کھانے بنا کر اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتے ہیں۔اور یہ سارا کام صنفِ نازک سنبھالتی ہے۔گویا کہ اگر عورتیں نہ ہو ں تو عید کی خوشیاں بھی ادھوری ادھوری ہوتیں۔ یقیناً یہی بات ہے اور آج عید کے دن اس ساری محنت کے لئے تمام خواتین مبارک باد کی مستحق ہیں ۔لیکن!

لیکن دوستو یہ ساری صورتحال جو میں نے بیان کی ہے،یہ تو ایک مثالی (آئیڈیل) معاشرے کی ہوتی ہے جہاں امن ہو،چین ہو،سکون ہو،بے روزگاری اور بھوک نہ ہو۔قتل و غارت گری نہ ہو،ملک میںدہشت گردی اور بد معاشی نہ ہو، انصاف ہو،اور راوی چین ہی چین لکھ رہا ہو۔کیا آج ہمارے معاشرے کی صورتحال ایسی ہے ؟ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہیں،آئے دن ڈرون حملے ہیں اور غیر ملکی افواج ہماری صرحدوں میںدر آتی ہیں اور ہمارے شہریوں کو قتل کرکے چلے جاتے ہیں ،پڑوسی ملک سے مسلح جنگجو آتے ہیں اور ہماری چوکیوں پر حملہ کرکے ہمارے جوانوں کو شہید کرتے ہیں ۔بلوچستان میں قوم پرستی کازہر پھیل چکا ہے،وہاں علیحدگی اور آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں،مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔غیر بلوچوں کو قتل کیا جارہا ہے،پنجاب میں بھی امن و مان کی یہی صورتحال ہے۔گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی سیلاب نے اندرون سندھ میں بد ترین تباہی پھیلائی ہے اور لوگ کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار کسی مسیحا کی آمد کے منتطر ہیں۔کراچی مقتل بنا ہوا ہے،لوگوں کو اغواءکے بعد بد ترین تشدد کرکے قتل کیا جارہا ہے ۔بوری بند لاشیں ہیں۔بھتہ مافیاز سرگرم عمل ہیں۔کاروبار ماند پڑے ہوئے ہیں۔ ہر طرف خوف وہراس ہے اور لوگ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہیں ایسے میں کوئی کیا عید منائے گا؟

ذرا پوچھئے ان لوگوں سے جن کے پیارے رمضان المبارک کے رحمتوں اور مغفرتوں کے مہینے میں قتل کیے گئے ہیںکیا کسی میں حوصلہ ہے کہ ان کو عید کی مبارک باد دے سکے اور کہہ سکے کہ” اللہ آپ کو ایسی بے شمار عیدیں نصیب فرمائے“۔کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو دہشت گردوں کے چنگل سے تو بچ نکلے ہیں لیکن اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں ،ان کے عزیز و اقارب ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ بے رزگاری اور کاربار کی گرتی ہوئی صورتحال کے باعث لوگوں کی قوت خرید متاثرہوئی ہے اور مارکیٹیں ویران ہیں۔اہل وطن ایک سچی خوشی کے لئے ترس گئے ہیں ۔

اسلام اجتماعیت کا درس دیتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنے پریشان اور مصیبت زدہ بھائیوں کو فراموش کردیں گے تو ہماری بھی عید کی خوشیاں ادھوری رہ جائیں گی ۔اپنی دعاﺅں میں اپنے ان مصیب زدہ،دہشت گردی اور سیلاب سے متاثرہ خاندانوںکو بھی یاد رکھئے۔اپنی دعاﺅں میں ظالموں سے نجات کی دعا بھی شامل کیجئے۔اپنے نادار اور مفلس بھائیوں اور ان لوگوں کو بھی جو سفید پوشی کے باعث کسی سے اپنی حالتِ زار بیان نہیں کرسکتے ان کی مدد کیجئے۔اپنے زکوٰة ،اور فطرہ سے اپنے بھائیوں کی مدد کیجئے۔اگر زکٰوة اور فطرہ ادا کرچکے ہیں تب بھی اپنے بھائیوں کے لئے ایثار کیجئے۔ان کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کیجئے۔اس کے بعد ہی ہماری عید کی مکمل ہوگی۔

تمام اہل وطن کو ہماری جانب سے عید مبارک ہو