March 29th, 2024 (1445رمضان19)

فطرہ کے احکام

 

صدقتہ الفطرہر مسلمان مرد عورت بالغ و نابالغ پر واجب ہے خواہ وہ نصاب وزکوٰۃ کا مالک ہو یا اصل ضروریات سے زائد زمین جائیداد‘مکان اور سامان واشیائ وغیرہ کا مالک جو نصاب زکوٰۃ کے برابر ہو،دونوں پر صدقتہ الفطر واجب ہے‘ اگر نابالغ بچوں کی ملکیت نہ ہو والد نابالغ بچوں کی طرف سے بھی ادا کرے گا۔صدقتہ الفطر نماز عید سے قبل ہی ادا کر دینا چاہیے اور یہ رقم کسی ملازم کی تنخواہیں دینے اور تعمیر مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے ،غربائ ومساکین بیوہ عورتیں، یتیم اور مدارس عربیہ کے غریب الد یارحاجت مند طالب علم اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں ۔ مستحق رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا حق پہلے ہے، دینی طالب علموں کو دینے میں دوگنا ثواب ہے ایک غریب کی امداد دوسرے علم دین کی اشاعت۔یہ لازمی ہے کہ صدقتہ الفطرنماز عید سے پہلے ادا ہوجائے ۔ عید الفطر کا چاند دیکھ کر ہی رات کو ادا کردیں ‘بلکہ ایک دو روز پہلے ادا کردینا زیادہ درست ہے، رمضان کے روزوں میں جو خامی یا نقص رہ جاتا ہے، صدقتہ الفطراس کی تلافی کردیتا ہے؛

 اور بارگاہ الہیٰ کے حضور اظہار اطاعت  صلوٰۃ ہے؛

عید الفطر کی تقریب دو اہم باتوں  پر مشتمل ہے، ایک فطرہ دوسرا دوگانہ نماز، فطرہ حقوق العباد سے متعلق ہے اور نمازعید حقوق اللہ سے تعلق رکھتی ہے ‘مگر اللہ اور اللہ کے رسول نے ان دونوں چیزوں نماز اور فطرہ میں سے فطرے کو نماز پر ترجیح دی ہے، اوّل یہ کہ اس عید کا نام ہی فطرہ کی نسبت سے عید الفطر رکھا دوسرے یہ کہ فطرہ کی ادائیگی کو نماز سے اول رکھا اور وہ سخت تاکید کے ساتھ کہ نماز سے پہلے فطرہ ادا کرو یہ اصرار اور تاکید ایسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو نماز سے پہلے بغیر کسی عذر کے فطرہ ادا نہ کرے، اللہ کے حضور اس کی آمد پسند  نہیں؛

جشن عید کا آغاز فطرہ سے  ہوتا ہے یہ بارگاہ الٰہی میں بندوں کی طرف سے ایک نذرانہ ہے جو بذات خود ایک التجا اور عرضداشت کی حیثیت رکھتا  ہے کہ:

’’اے اللہ اگر ہمارے روزوں میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا ہم نے ماہ صیام کی عبادتوں میں کوئی قصوروکوتاہی کی ہو تو اس فطرہ کو اس کی تلافی کے لیے قبول فرمالے اور ہماری نمازوں کو ہماری نیکیوں اور بھلائیوں اور  تلاوتِ قرآن کو قبول فرمالے اور ہمارے حق میں ماہ صیام اور مقدس قرآن کی سفارش و شفاعت کو منظور کرلے ‘‘

 اس فطرہ کو ادا کرنے کے بعد رمضان کی ذمہ داریوں کی تکمیل ہوجاتی ہے تکمیل فرض کی خوشی میں سجدہٓ شکر بجا لانا چاہیے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا یا عید کی دوگانہٓ نماز دراصل شکرانہ کہ نماز ہے اس نماز میں عام نمازوں سے زیادہ تکبیریں کہنے کی یہی عارفانہ توجیہہ ہے کہ اس کے خادم تکمیل خدمت کی خوشی میں بے خود ہوجاتے ہیں اور والہانہ طور پر اپنے آقا کا نام لےلے کر پکارتے ہیں اس کی عظمت و کبریائی کا اعلان کرتے ہیں اس کی حمد و تقدیس بیان کرتے ہیں

اَللہ اَکبرْ اللہُ اَکبرْ لَا اِلَّاللہُ وَاللہُ اَکبرْاللہُ اکبرْوَاللہِ الْحَمد

عید الفطر ایک تہوار نہیں بلکہ رفاہ عامہ کی ایک تدبیر بھی ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ عید فطرہ والی عید ہے ‘فطرہ اس تہوار کا ایسا لازمی عضر ہے کہ کوئی شخص جو فطرہ دینے کا اہل ہو اور فطرہ نہ دے تو اس کی عید ادھوری رہ جاتی ہے اور اسلامی معاشرے میں وہ ایک سماجی مجرم ہوتا ہے اور وہ اس تہوار میں حصہ لینے کا حق دار نہیں ٹھہرتا کیونکہ وہ ماہ صیام کا فطرہ نہ دے کر ماہ صیام کی تربیت کو جھٹلاتا ہے جو غریبوں،مستحقوں کو سہارا دینے اور پسماندہ خاندانوں کو معاشرے  کی سطح تک پہنچانے کے لیے ایثار وقربانی کے جذبات پیدا کرتی اور بھوک پیاس کی تکلیف کا احساس دلاتی ہے،وہ فطرہ میں جو اجناس یا نقد روپیہ اسلامی معاشرے کا ہر فرد ادا کرتا ہے، وہ مجموعی طور پر ملک وملت کے پسماندہ اور مستحق افراد کی وسیع پیمانے پر مدد کا ذریعہ بن جاتا ہےاس طرح عید الفطر اور دوسرے تمام اسلامی تہوار ہر سال قومی دولت کو معاشرے کے   ہر طبقہ میں گردش میں رکھتے ہیں۔

عید الفطر ایک جشن مسرت ہی نہیں ایک عبادت بھی ہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی عبادت یعنی روزہ کا اختتام ہے پھر اس کے لیے بھی فطرہ ادا کرنےکے بعد یوم فطر کی سب سے پہلی مشغولیت عید کی نماز ہے جو اللہ کے حضور بطور شکرانہ ادا کی جاتی ہے،اسلامی معاشرہ کے تمام افراد کا عید گاہ میں جمع ہونا مل کر اللہ کی تکبیر بلند کرنا اس کی حمد و ثنا بیان کرنا۔ اس کے حضور رکوع وسجود کرنا،اس سے مغفرت چاہنا اس کی بارگاہ کرم سے مغفرت طلب کرنا بھلائیوں اور رحمتوں  کی دعائیں مانگنا شکرو عبادت کی ایک ایسی مقدس فضا پیدا کر دیتا ہے کہ دل ایک دوسرے کی طرف جھکتے اور سب کے لیے ایک ہونے اور نیک بننے کی ترغیب پیدا ہو جاتی ہے۔

نماز عید کی یہ اجتماعی تقریب جس میں چھوٹے بڑے، ہر نسل ہر قبیلہ ہر برادری اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان اکھٹے ہو جاتے ہیں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں ،مختلف زبانیں بولنے والوں کی یہ یکجائی ان کے باہمی اتحاد و اتفاق کے رجحان کو تقویت دیتی ہے اور یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم علیٰحدہ نہیں ہم ایک ہیں ہم غیر نہیں، ہم بھائی بھائی ہیں ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا رسول ایک ہے ہمارا قبلہ ایک ہے ہمارا قرآن ایک ہے ہمارا مسلک اور دین ایک ہے اور ہم ایک بہت بڑی عالمی برادری کے رکن ہیں جو خدا کی وفاداری اور رسول کی پیروی و متابعت کے پاکیزہ اصولوں پر وجود میں آئی ہے۔ ہم کو ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرنا چاہیے  بلکہ ایک دوسرے سے محبت ومعاونت کرنا چاہیے، عید سعید کا یہی مقصود اور یہی پیغام ہے۔

 عید الفطر کے دن معمولاتِ نبویﷺ

جب ماہ صیام کے دن پورے ہوجاتے عید کا چاند دیکھ لیا جاتا۔ اور ایک شب گزر جاتی تو صبح اللہ کے رسول حسبِ معمول مسجد نبوی میں نماز فجر کی امامت فرماتے، پھر آپ اپنے کاشانہٓ مبارک میں تشریف لے جاتے جب کچھ دن چڑھ جاتا تو آپ غسل فرماتے اور اپنے کپڑوں میں صاف ستھرا اور اجلا لباس زیب تن فرماتے آنکھوں میں سرمہ پھرتے۔ کپڑوں میں خشبو ملتے۔ سر کے  بالوں میں تیل ڈالتے اور کنگھے سے سنوارتے پھر آپ چند کھجور، دودھ اور جو کچھ بھی اس وقت میسر ہوتا نوش فرماتے اس کے بعد اپنے اصحاب کے ساتھ عید گاہ تشریف لے جاتے اور وہاں جو پہلا کام آپ کرتے وہ نماز تھی، جب لوگ صفوں کو درست کر لیتے تو آپ عید کی دو رکعتیں زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت بلالؓ کا سہارا لے کر کھڑے ہوجاتے پھر اس مجمع سے جو آپ کا خطبہ سننے کے لیے بے چینی سے منتظر ہوتا، خطاب فرماتے لوگوں کو نصیحت اور وصیت فرماتے ان کو ہدایت و احکام دیتے۔

 نماز عید اور تکبیرات  

عیدین کی دورکعت نماز مسلمان پر واجب ہے، عید کی نماز خطبہ سے پہلے ہوتی ہے، اس کے لیےاذان نہیں ہوتی صف بندی کے بعد زبان یا دل سے نیت کریں کہ دو رکعت نماز عید الفطر مع ۶ تکبیروں کے اس امام کے پیچھے، جب امام تکبیر، اللہ اکبر کہے تو دونوں ہاتھ کاندھوں تک اٹھاکر  باندھ لیں اور وہ دعا جو سب نمازوں میں پڑھی جاتی ہے پڑھیں :

’’سبحانک‘‘ پڑھیں اس کے بعد امام دوسری تکبیر کہے تو ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں،تیسی تکبیر کہے تو بھہ ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں، جب چوتھی تکبیر کہے پھر ہاتھ باندھ لیں، امام قرات کرے گا۔ رکوع کرے گا۔ سجدہ کرے گا اور دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے گا اورپھر قرات کرے گا اس کے بعد امام چار تکبیریں کہے گا۔ پہلی دوسری اور تیسری دفعہ ہاتھ چھوڑ دیں۔ چوتھی تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں اور امام کے ساتھ دوسری رکعت پوری کرلیں ، نماز سے فارغ ہوجانے کے بعد خطبہ سننا لازم ہے یہ خطبہ سنت موکدہ ہے جسکو نماز عید نہ ملے وہ اپنے طور پر ادا کر سکتا ہے۔