December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔ سیرتِ مطہرہ کی روشنی میں

حافظ ساجد انور

 ذی الحجہ کا پہلا عشرہ عبادات اور اللہ تعالیٰ کی طرف انابت کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتاہے۔ان ایام میں جہاں ایک طرف حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے فقر کے لباس احرام میں ملبوس ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہیں اور اپنے ایمان کو جلا بخشتے ہیں، وہیں دوسری طرف اس فریضے کی ادایگی نہ کرنے والے اہل ایمان کے لیے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب و تحریص احادیث مطہرہ میں ملتی ہے۔ عبادات کی طرف توجہ کے اس پہلو میں ہمیں نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتی ہے، جب کہ اُمت کی اکثریت اس وقت اس فریضے کی ادایگی نہیں کررہی ہوتی۔ چنانچہ آپؐ کی سیرتِ مطہرہ اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے اسی پہلو کی طرف سب کو متوجہ ہونا چاہیے کہ نفلی عبادات، نوافل، انفاق فی سبیل اللہ، ذکر و اذکار کی طرف خصوصی توجہ کی جائے۔ آپؐ کی حیاتِ طیبہ سے ثابت ہے کہ حج بیت اللہ کا فریضہ آپؐ نے زندگی میں ایک مرتبہ ادا کیا ہے، جب کہ ان دنوں میں عبادات کی ترغیب و تحریص کا خصوصی تذکرہ آپؐ کی سیرتِ مطہرہ میں ملتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیک اعمال کے حوالے سے ان دنوں سے زیادہ پسندیدہ دن اور کوئی نہیں (اس سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی ۱۰دن ہیں)۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ ! کیا جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے ؟ آپؐ نے فرمایا :جہاد بھی اس سے بڑھ کر نہیں ہے الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کراللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلے اور واپس کچھ نہ لے کر آئے (یعنی شہادت بھی نصیب ہو اور مال بھی خرچ ہوجائے)۔(بخاری)

ذی الحجہ کے ان ۱۰دنوں کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور احادیث مطہرہ میں ان دنوں میں عبادات کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن بکثرت لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتے ہیں ۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کا طلب گار ہوناچاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا دن یوم النحر (قربانی کا دن) اور یوم عرفہ ہے (احمد ، ابوداؤد،عن عبداللہ بن قرطؓ) ۔ آپؐ نے اس دن کی سب سے بہترین دُعا اسے قرار دیا ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَءٍی قَدِیْرٌ ، ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کاکوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہت اور تعریف ہے اور وہی ہرچیز پر قادر ہے‘‘۔

یوم عرفہ کا روزہ

غیر حاجی کے لیے عرفہ کاروزہ رکھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور اس کا عظیم اجر وثواب ذکر کیاگیاہے۔ آپؐ سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھاگیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا : ’’یہ روزہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے سال کاکفارہ بن جائے گا‘‘۔ (مسلم، عن ابی قتادہؓ )۔ تاہم حاجی کے لیے افضل اور مستحب یہ ہے کہ وہ یوم عرفہ کاروزہ نہ رکھے تاکہ وہ حج کے موقعے پر ذکر، دعا اور دیگر عبادات کا حق ادا کرسکے، اور اسے کمزوری ونقاہت لاحق نہ ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کی سہولت کے پیش نظر خود بھی یوم عرفہ کاروزہ نہیں رکھا۔

حضرت ام فضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پاس چند لوگ آئے اور عرفہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے سے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔ بعض نے کہاکہ آپؐ روزے سے ہیں اور بعض نے کہاکہ آپؐ روزہ سے نہیں ہیں۔ میں نے (اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے ) آپؐ کی خدمت میں دودھ کاپیالہ بھیجا۔ آپؐ اپنے اُونٹ پر سوار وقوف فرما رہے تھے ۔ آپؐ نے دودھ پی لیا (بخاری ، مسلم)۔عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر اور دعائیں مسنون اور باعث اجر و ثواب ہیں۔

یوم النحر: قربانی کادن

حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے جہاں دیگر مناسک حج کی ادایگی کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کرتے ہیں، وہیں غیر حاجی عام اہل ایمان کے لیے بھی اُن کی عبادت ’نحر ‘ قربانی کے وقت کی فضیلت ہے، اور جانوروں کی قربانی کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کاذریعہ بتایا گیاہے۔ اس اہم عبادت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خشیت وللہیت ہے۔ آج جہاں دیگر عبادات بھی تدریجاً ایک رسم و روایت کی صورت اختیار کرتی جارہی ہیں وہیں قربانی کو بھی نام و نمود اور نمایش کاذریعہ بنادیاگیاہے۔

قربانی کی اس اہم عبادت میں شریعت مطہرۃ کے پیش نظر یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اختیار کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷) اللہ تعالیٰ تک (قربانی کے جانور وں کا )نہ تو گوشت پہنچتاہے اور نہ خون ہی بلکہ اللہ تعالیٰ تک تمھارا تقویٰ پہنچتاہے۔

قربانی کے ذریعے ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اعزا و اقربا کے لیے صدقہ و انفاق کی کیفیت ہو اور باہم محبت ومؤدت کے تعلقات کو بڑھایاجائے۔ قربانی کاگوشت خود بھی کھانا مستحب ہے۔ قربانی کے ذریعے شعائر اسلام کااظہار اور اس کی عظمت واضح ہوتی ہے ۔ قربانی کا یہ عمل حاجیوں کے ساتھ مشابہت کاعمل ہے جس میں ایک گونہ ترغیب اور تشویق کاپہلو بھی غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے لیے حاجیوں سے مشابہت کے پیش نظر اپنے بال نہ منڈوانا اور ناخن نہ کتروانا مستحب ہے۔