رضی محمد ولی
قربانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ مہذب انسانی تاریخ۔ انسانوں نے اپنے معبودوں کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیں یہاں تک کہ اپنی جان کی بھی۔ اس کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ایک مثال قدیم مصر میں دریائے نیل کے خشک ہونے پر کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر قربان کیے جانے کی ہے۔ جس کو حضرت عمرفاروقؓ کے دور میں ان کے ایک خط نے ختم کیا۔
قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا حضرت آدمؑ ہی کے زمانے میں شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیا ؑکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۸۳میں بیان فرمایا کہ انھوں نے کہا: ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے‘‘،حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی۔
اُمت محمدیہؐ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکمِ شرعی کی تعمیل اور سنتِ ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا کہلَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج۲۲:۳۷)’’اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ۰ۘ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ۰ۭ (المائدہ ۵:۲۷)اور ذرا انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو ۔ جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی، اور دوسرے کی نہ کی گئی ۔
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ تاہم، عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے۔
سورئہ حج کی آیت ۳۴ میں ہے : ’’اور ہم نے ہر اُمت کےلیے قربانی اس غرض کےلیے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں عطا فرمائے ہیں، لہٰذا تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، چنانچہ اُسی کی فرماں برداری کرو، اور خوش خبری سنادو اُن لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں‘‘۔
سورۂ حج کی آیت نمبر ۶۷ میں ہے کہ ’’ہم نے ہر اُمت کے لوگوں کے لیے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے، جس کے مطابق وہ عبادت کرتے ہیں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نزدیک نحر کے دن( یعنی ۱۰ذی الحجّہ) کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں۔ قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے نہیں پاتا کہ اللہ کے یہاں مقبول ہو جاتا ہے۔ لہٰذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)
ایک اور حدیث میں آتا ہے:صحابہ ؓ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یارسول ؐ اللہ یہ قربانی کیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اس میں ہمارے لیے کیا اجرو ثواب ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آج کے دن، یعنی بقرعید کے دن ہماری پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص ہمارے ساتھ یہ نماز (یعنی بقرعید کی) پڑھے وہ نماز کے بعد ذبح کرے۔
حضرت انَسؓ کا بیان ہے کہ حضرت محمدؐ نے عید الاضحی کے دن فرمایا: جس نے عید کی نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اس کو دوبارہ قربانی کرنی چاہیے اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوگئی اور اس نے ٹھیک مسلمانوں کے طریقے کو پالیا۔
یاد رکھیں! ہر صاحبِ نصاب پر قربانی واجب ہے۔ کچھ علمائے کرام نے اسے سنت مؤکدہ سے تعبیر کیا ہے۔ استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے پر آپؐ نے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے، حتیٰ کہ اس کا عید گاہ کے قریب آنا بھی پسند نہیں فرمایا۔ قربانی درج ذیل چھے شرطوں سے واجب ہوتی ہےـ:’’ مسلمان ہونا، مقیم ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عاقل ہونا، صاحب نصاب ہوناــ‘‘۔ بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ فرضیت ِزکوٰۃ اور وجوب ِقربانی کا نصاب ایک ہی ہے۔ حالانکہ دونوں کا نصاب الگ الگ ہے۔ زکوٰۃ کے لیے نصاب پر سال گزرجانا ضروری ہے لیکن قربانی کے لیے سال گزرجانے کی شرط نہیں ہے بلکہ عیدِ قرباں کے وقت صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے۔
عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبۂ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارۂ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا۔ اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرسکو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورکشاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔
چنانچہ آپؐ نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ ہرسال قربانی فرماتے رہے۔ (ترمذی)
قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندۂ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘ (الانعام۶:۱۶۲)۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی، سماجی اور اُخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔
ہمارا یہ طرزِ عمل نہیں ہونا چاہیے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکیں۔ قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ
۱-اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعلیٰ منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔
۲- اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع نہیں دے سکتے تو اس کی حسرتوں کاخون بھی نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔
۳-قربانی کا حکم آنے پر ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کردیں۔
۴-ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لیے کوئی جانور خرید سکتے ہیں اور نہ کوئی صاحب ِثروت انسان انھیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا حصہ دینا گوارا کرتاہے۔ لہٰذا یہ قربانی درس دیتی ہے کہ مسلم اُمہ کے ناداروں کی بھوک و پیاس کا خیال رکھیں۔ انھیں اپنے جسم ہی کا ایک حصہ سمجھیں اور ان کی داد رسی پورے سال کرتے رہیں۔
۵-قربانی ہمیں درسِ اخوت دیتی ہے کہ خاندان اور محلوں میں کسی سے بھی کسی بات پر ناچاقی ہوجانے کی صورت میں اپنی انانیت کے بت کوپاش پاش کردیں اور اپنی ضد کی قربانی دیں اور ہر کسی کو آگے بڑھ کر گلے لگائیں۔
۶- قربانی ہمیں درسِ اجتماعیت دیتی ہے کہ جیسے پوری مسلم اُمہ تین دن مل کر قربانی کے جانور ذبح کرتی ہے، اسی طرح زندگی کے ہر ہر عمل پر ایک ہونے کا مظاہرہ کرے تاکہ اسلام دشمنوں کو جرأت نہ ہوسکے کہ وہ شعائر اسلامی، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی بے حُرمتی تو دور کی بات اُن کا مذاق بھی نہ اُڑاسکیں۔
۷-قربانی ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ کا سبق دیتی ہے کہ جس طرح اللہ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم نے اس کی راہ میں اللہ اکبر کہہ کر جانور کو ذبح کیا، بالکل اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اُس ربّ کی کبریائی کو نمایاں کریں۔ اپنے رسم و رواج، اپنی ثقافت، وراثت، معاشرت، معیشت، عدالت، سیاست، داخلی معاملات، خارجی معاملات، خانگی معاملات، غرض ہرجگہ پر اللہ کی کبریائی نظر آئے۔