April 23rd, 2024 (1445شوال14)

قربانی : مقاصد اور تقاضے

مرزا سبحان بیگ

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ نہ انسانی معاشرے کی گاڑی قربانی اور ایثار کے بغیر چل سکتی ہے اور نہ معاشرہ اس کے بغیر استحکام پاسکتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فرد میں کسی نہ کسی درجے میں قربانی کا داعیہ موجود ہے۔ یعنی قربانی انسان کا فطری داعیہ ہے۔

قربانی کا اصل مرکز و محور اور مقصد؟

لیکن یہاں ان چھوٹی موٹی چیزوں کی قربانی پر بحث کرنا مقصود نہیں ہے‘ جنہیں کسی نہ کسی درجے میں انسان شب و روزکرتا ہے۔ بلکہ مقصودِ بحث وہ قربانی ہے جو انسان اپنی عزیز ترین چیز (اپنی جان اور اپنا مال) کی دیتا ہے اور کسی کی محبت اور عقیدت میں دیتا ہے۔ اس قربانی کے ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس قربانی کا مرکز و محور کس ذات کو بنائے اور اس کا مقصد کیا ہو؟ کیا اپنے نفس کو، اور ہوائے نفس کی تکمیل کے لیے؟ یا اپنے خاندان‘ قوم اور وطن کو، اور اسی کی ترقی و بقا اور بالادستی کے لیے؟ یا اپنے ہی جیسے انسانوں کو، اور ان کی خوشنودی کے لیے؟ ان سوالات میں سے کسی ایک کا بھی جواب کوئی سنجیدہ اور خردمند انسان اثبات میں نہیں دے سکتا۔ بلکہ وہ تو یہ کہے گا کہ اس قربانی کا اصل مرکز و محور تو صرف وہ ذاتِ خداوندی ہونی چاہیے جو انسان اور ساری کائنات کی خالق، مالک، حاکم اور رازق ہے، اور اسی کے بتائے ہوئے طریقے پر اور اسی کی رضامندی و خوشنودی کے لیے ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو انسانی معاشرہ نہ استحکام پاسکتا ہے اور نہ اس کی گاڑی امن و فلاح کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ کم از کم ایک مسلمان کا تو یہی جواب ہوگا‘ اس لیے کہ اسلام اسے یہی بتاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(ترجمہ) ’’ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ (ان مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اسی کے تم مطیع فرمان بنو۔‘‘ (الحج:34 )

اس آیت کی تشریح میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

’’اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائعِ الٰہیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جزو رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کرکے صرف اللہ کے لیے مختص کردیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائعِ الٰہیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کردیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائعِ الٰہیہ نے انہیں ممنوع کرکے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کردیا۔ انسان نے معبودانِ باطل کی تیرتھ یاترا کی ہے۔ شرائعِ الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مقدس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت و طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع ِالٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کردیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خودساختہ معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتا رہا ہے، اور شرائعِ الٰہیہ نے ان کو بھی غیر اللہ کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے لیے واجب کردیا۔‘‘

’’دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے، نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملّتوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں‘ مگر سب کی روح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔‘‘

(تفہیم القرآن‘ سورۃ الحج‘ حاشیہ:64 )

واضح ہوا کہ قربانی نہ صرف شعائرِ اسلام میں سے ہے، بلکہ ایک عبادت بھی ہے۔ اس لیے اسے مناسک حج میں شامل کیا گیا ہے اور ساری دنیا کے ذی استطاعت مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریکِ حال ہوکر جانوروں کی قربانیاں کریں۔ اس قربانی کی غرض اور علت قرآن مجید میں اس طرح واضح کی گئی ہے:

(ترجمہ) ’’اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھلائی ہے۔ ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر کرو۔‘‘(الحج:36۔37 )

آیت 36 کے پہلے فقرے کی تشریح میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:

’’یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکرِ نعمت کے لیے، بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کرنے کے لیے بھی، تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز اور روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ اُن اموال کی قربانی ہے جومختلف شکلوں میں ہم کو اللہ نے دیے ہیں، جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوار ہوتے ہیں، جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں، جن کے گوشت کھاتے ہیں، جن کے دودھ پیتے ہیں، جن کی کھالوں اور بالوں اور خون اور ہڈی‘ غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اٹھاتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن‘ الحج‘ حاشیہ 68)

اسی آیت کے دوسرے فقرے کی تشریح مولاناؒ اس طرح کرتے ہیں:

’’یہاں پھر اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا: اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کرکے تمہیں بخشی ہے۔‘‘

اور آیت 37 کی تشریح میں مولاناؒ لکھتے ہیں:

’’جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا گوشت بتوں پر لے جاکر چڑھاتے تھے، اسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لاکر رکھتے اور خوب اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت پیش کیا جائے۔ اس جہالت کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون اور گو شت نہیں‘ بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکرِ نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا۔ ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہی بات ہے جو حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔‘‘

(ایضاً‘ حاشیہ 73 )

’’یعنی دل سے اس کی بڑائی اور برتری مانو اور عمل سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے‘ بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں اور جس نے انہیںہمارے لیے مسخر کیا ہے‘ اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہوجائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جاتا ہے کہ اللھم منک ولک ’’خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔‘‘ (ایضاً ‘حاشیہ :74 )

علاوہ ازیں قربانی کی غرض و علت پر وہ کلمات بھی روشنی ڈالتے ہیں جو قربانی کرتے وقت ادا کیے جاتے ہیں:

(ترجمہ)’’میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ذات کی طرف کرلیا‘ جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں‘ بے شک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اور میں سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے۔‘‘

مری زندگی کا مقصد ترے دیں کہ سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں قربانی کے مقاصد کا خلاصہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر درج ذیل صفات نشوونما پائیں:

(1) اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا دل سے بھی اور اپنے قول و عمل سے بھی ہر وقت شکریہ ادا کرنا۔

(2) ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بڑائی‘ برتری اور مالکیت کا دل سے بھی اور قول و عمل سے بھی اعتراف اور اظہار واعلان کرنا۔

(3) اپنے اندر اللہ تعالیٰ کے لیے فدویت و جاں نثاری کا جذبہ زندہ رکھنا‘ اس کے لیے ہر وقت تیار اور آمادہ رہنے کا عزم مستحکم کرنا۔

قربانی کے تقاضے

چنانچہ جب ہم جانوروں کی قربانیاں کریں تو اسی تصور کے ساتھ کریں اور انہی مقاصد کا حصول ہمارے پیش نظر رہے‘ جب ہم جانوروں کے گلوں پر چھری چلائیں تو اس تصور اور اس عزم کے ساتھ کہ فی الحقیقت ہم چھری چلارہے ہیں:

(1) اپنی نفسانی خواہشات پر‘ جو اللہ کے دین پر چلنے میں مانع بنتی رہتی ہیں، اس فدویت و جاں نثاری سے ہمیں‘ ہماری ازواج کو اور ہماری اولاد کو روکتی ہیں جس کا اعلیٰ نمونہ حضرت ابراہیم ؑاور آپؑ کی نیک بیوی حضرت حاجرہؑ اور نیک فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی زندگیوں میں ہمیں ملتا ہے۔

(2) خاندان اور آباء و اجداد کی غیر اسلامی رسموں پر اور خرافات و بدعات پر جو امت کے ایک بڑے حصے پر مسلط ہیں‘ جو اس کے عقیدۂ توحید کو مشتبہ بناتی ہیں اور جو غیر مسلم دنیا کے اسلام کے قریب آنے اور قبول کرنے میں مانع بنتی ہیں۔

(3) خود غرضی‘ بخیلی ‘ مفت خوری‘ حرام خوری‘ فضول خرچی اور ریا کی خباثت پر‘ جس نے ہمارے عوام ہی نہیں خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

(4) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائی سے غفلت پر‘ کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے بڑے جانوروں کی قربانیاں تو کرتے ہیں لیکن ان حقوق کی ادائی کی انہیں کم ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

(5) بے شرمی‘ بے حیائی و بے پردگی کی لعنت پر‘ جس کے شکار اب عام مسلمانوں ہی کے نہیں علماء و دانشورانِ اسلام کے گھرانے بھی ہوتے جارہے ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ حضرات خود اس لعنت کے دروازے کھولنے پر مُصر نظر آتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث کی من مانی تاویلات کرکے جواز پیدا کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ مزید برآں ان کی سرگرمیوں اور تحریروں کا مرکز و محور ہی یہ نظر آتا ہے کہ ملّت کی ترقی و سرخروئی بس اسوۂ مغرب میں ہے۔ کیونکہ اس نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے مغرب ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اگرچہ یہ سب کچھ یہ حضرات اس مرعوبیت اور شکست خوردگی کو چھپانے کے لیے کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں جس کے شکار وہ مغرب کی غیرمعمولی مادی ترقی اور سیاسی غلبہ کو دیکھ کر، نیز اسلام‘ اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر ہر طرح کے اور پیہم حملوں کی تاب نہ لاکر ہوئے ہیں‘ تو چھری اس مرعوبیت اور شکست خوردگی پر بھی چلائیں۔

(6) اتحاد و اتفاقِ ملّی سے غفلت پر‘ ملّی انتشار و افتراق کو ہوا دینے والی ذہنیت پر اور گروہی و مسلکی عصبیت پر‘ کہ ان امراض نے ملّت کو پارہ پارہ کردیا اور اس کی ہوا اکھڑ گئی۔ ان امراض کو دعوت دینے کے نتیجے میں فطری طور پر ایسا تو ہونا ہی تھا۔

(7) اقامتِ دین و غلبۂ دین کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف نقصانات اور مصیبتوں سے دوچار ہوجانے کے ڈر پر، نیز بے صبری‘ مداہنت و عافیت پسندی اور سہل انگاری و تعیش پسندی کے رجحان پر‘ جو رہ رہ کر باطل نظریات اور نظام باطل کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

یہاں بس اسی پر اکتفا کیا جاسکتا ہے‘ اگرچہ خبیث اور مذموم چیزیں اور بھی ہیں جن پر قربانی کرتے وقت چھری چلانے کی ضرورت ہے۔