December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

قربانی اور اس کی روح

سید ابو الا اعلیٰ مودودیؒ

"اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا تا کہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں"(الحج:35)

اور یہ طریقہ جس طرح دوسری امتوں کے لئے تھا اسی طرح شریعت محمدی میں امت محمد کے لئے بھی مقرر کیا گیا:

"اے محمد، کہو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے، اور سب سے پہلے میں سرِ اطاعت جھکانے والا ہوں"(الانعام:162)

"پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر"(الکوثر:2)

یہ حکم عام تھا جو قربانی کے لئے قرآن میں دیا گیا۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ قربانی کب کی جائے، کہاں کی جائے، کس پر واجب ہے اور اس حکم پر عمل درآمد کرنے کی دوسری تفصیلات کیا ہیں۔ ان چیزوں کو بیان کرنے اور ان پر عمل کر کے بتانے کا کام اللہ نے اپنے رسول پر چھوڑ دیا، کیونکہ رسول اس نے بلا ضرورت نہیں بھیجا تھا۔ کتاب کے ساتھ رسول بھیجنے کی غرض یہی تھی کہ وہ لوگوں کو کتاب کے مقصد و منشاء کے مطابق کام کرنا سکھائے۔

اوقات قربانی کی تعین:

اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ اس کی یہ شکل حضور   ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے۔

اولًا،  محمد نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑ دی کہ فرداََ فرداََ جس مسلمان کا جب جی چاہےاللہ کے لئے  کوئی جانور قربان کردے بلکہ آپ نے تمام امت کے لئے تین دن مقرر فرما دیے  تا کہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انہی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، ہفتے میں ایک دفعہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی تا کہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں۔ اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کیں تا کہ انہیں ادا کرنے کے لئے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملے میں بھی تمام مسلمانوں کے لئے ایک مہینہ مقرر کردیا گیا تا کہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اس خاص عبادت کا ماحول طاری ہوجاتا ہے جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیّز ہوتے ہیں اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔

ثانیاً اس کے لئے حضور نے خاص طور پر یوم عید مقر فرمایا اور خاص طور پر مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں، پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں، یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔

قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے۔ ان صلوٰتی ونسکی، فصل لربک وانحر۔ پھر یہ مسلم معاشرے کی اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔ ہر معاشرہ فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں جن میں اس کے سب افراد مل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ  کی ایک عبادت یعنی نماز سے ہو اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہر وقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جا رہی ہو۔ اور اس عبادت کے طفیل ہر گھر کے لوگ اپنے دوستوں عزیزوں اور غریب ہمسایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں۔ یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ، رنگ، لہو و لعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لئے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے جو خدا پرستی اور الفت و محبت اور ہمدردی و مساوات کی پاکیزہ روح سے لبریز ہو۔

قربانی کا تاریخی پس منظر:

ثالثاً اس کے لئے حضور نے وہ خاص دن مقرر انتخاب فرمایا جس دن تاریخ اسلام کا سب سے زریں کارنامہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیلؑ  نے انجام دیا تھا، یعنی یہ کہ بوڑھا باپ اپنے رب کا اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے جوان بیٹے کو قربان کر دینے کے لئے ٹھنڈے دل سے آمادہ ہو گیا، اور بیٹا یہ سن کر کہ مالک اس کی جان کی قربانی چاہتا ہے چھری تلے گردن رکھ دینے پر بخوشی راضی ہو گیا۔ اس طرح یہ محض قربانی عبادت ہی نہ رہی بلکہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کی یادگار بھی بن گئی جو ایمانی زندگی کے اس منتہائے مقصود اس کے اس آئیڈیل مثل اعلیٰ کو مسلمانوں کے سامنے تازہ کرتی ہے کہ انہیں اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ قربانی کا  حکم بجا لانے اور عید کا تہوار منانے کے لئے سال کا کوئی دن بھی مقرر کیا جاسکتا تھا اس سے دوسرے تمام فوائد حاصل ہوجاتے، مگر یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا۔ اس کے لیے اس خاص تاریخ کا انتخاب بیک کرشمہ دوکار کا مصداق ہے۔ ایک حدیث میں نبی نے خود اس انتخاب کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے آپ سے پوچھا گیا: یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے(مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ    اس واقعہ کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو جانور قربان کیا کرتے تھے۔ حضور نےاس سنت کو زندہ کیا اور اپنی امت کو ہدایت فرمائی کہ قرآن میں قربانی کا جوعام حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل خصوصیت کے ساتھ اس روز کریں جس روز حضرت ابراہیمؑ اپنی اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کیا کرتے تھے۔ اپنی تاریخ کے یادگار واقعات کا "یوم" دنیا کی ہر قوم منایا کرتی ہے۔ اسلام کا مزاج یادگار منانے کے لئے بھی اس دن کا انتخاب کرتا ہے جس میں دو بندوں کی طرف سےخدا پرستی کے انتہائی کمال کا مظاہرہ ہوا۔

اسے عالمگیر بنانے میں مصلحت:

رابعاََ، قربانی کے لئے اس دن کے انتخاب میں ایک اور مصلحت بھی تھی۔ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال جب حج کا زمانہ آیا تو مسلمانوں کو یہ بات بری طرح کھل رہی تھی کہ کفار نے ان پر حرم کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس غم کی تلافی اس طرح فرمائی کہ ایام حج کو مدینے ہی میں ان کے لئے ایامِ عید بنا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ۹ ذالحج (یعنی یوم الحج) کی صبح سے جب کہ حاجی عرفات کے لئے روانہ ہوتے ہیں، وہ ہر نماز کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کا ورد شروع کریں اور ۱۳ ذالحج تک (یعنی جب تک حجاج منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں) اس کا سلسلہ جاری رکھیں پھر ۱۰ ذالحج کو جب حجاج منیٰ سے مزدلفہ کی طرف پلٹتے ہیں اور قربانی اور طواف کے سعادت حاصل کرتے ہیں وہ دوگانہ نماز ادا کرکے قربانیاں کریں۔ یہ طریقہ فتح مکہ سے پہلے تک تو مسلمانوں کے لئے گویا ایک طرح کی تسلی کا ذریعہ تھا کہ حج سے محروم کردیے گئے تو کیا ہوا، ہمارا دل تو حج میں مشغول ہے اور ہم اپنے گھر ہی میں بیٹھے ہوئے حجاج کے شریک حال ہیں۔ لیکن فتح مکہ کے بعد اسے جاری رکھ کر عملاً اس کو تمام دنیائے اسلام کے لئے حج کی توسیع بنادیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوگئے کہ حج صرف مکہ میں حاجیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ جس زمانے میں چند لاکھ حاجی وہاں مناسک حج ادا کر رہے ہوتے ہیں اسی زمانے میں ساری دنیا کے کروڑوں مسلمان ان کے شریکِ حال ہوتے ہیں۔ ہر مسلمان، جہاں بھی وہ ہے اس کا دل ان کے ساتھ ہوتا ہے اس کی زبان اللہ اکبر کی تکبیر بلند کرتی رہتی ہے وہ ان کی قربانی اور طواف کے وقت اپنی جگہ ہی نماز اور قربانی ادا کررہا ہوتا ہے۔

قربانی کی حقیقی روح:

خامساً، قربانی کا جو طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا وہ یہ تھا کہ عیدالاضحٰی کا دوگانہ نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے:

"میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بے شک میری نماز قربانی میرا مرنا اور  جینا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں خدایا یہ تیرا ہی مال ہے تیرے ہی لئے حاضر ہے"۔

ان الفاظ پر غور کیجئے ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں جن کی بنیاد پر قرآن مجید میں قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتاؤں کے لئے قربانیاں کرنے والے مشرکین کے برعکس ہم  صرف خدائے وحدہ لا شریک کے لئے قربانی کی عبادت بجا لا رہے ہیں۔ ان میں اس بات کا اعلان بھی ہے کہ اپنے پیدا کئے ہوئے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں بخشی ہے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے یہ نذر ہم اس کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ ان میں یہ اعلان بھی ہے کہ اس مال کہ اصل مالک ہم نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ کے جانور ہیں جن پر اس نے ہمیں تصرف کا اختیار بخشا ہے اور اس کی کبریائی کے اعتراف میں یہ نذرانہ ہم اس کے حضور گزران رہے ہیں۔ اس میں یہ اظہار بھی ہے کہ جس طرح ہمیں حکم دیا گیا تھا ٹھیک اسی طرح ہم ابھی صرف اللہ کے لئے نماز ادا کرکے آئے ہیں اور اب  خالصتاً اسی کے لئے قربانی کے فرمان کی تعمیل کر رہے ہیں۔ پھر ان سب سے بڑھ کر ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد و پیمان بھی ہے کہ ہماری نماز اور ہماری قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا اور جینا بھی صرف اسی کی ذات پاک کے لئے ہے اور یہ عہد و پیمان اس تاریخی دن میں کیا جاتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اپنے عمل سے بتایا تھا کہ جینا اور مرنا اللہ کے لئے ہونے کا مطلب کیا ہے۔