November 21st, 2024 (1446جمادى الأولى19)

قربانی کا گوشت کراچی کے پسماندہ گھوٹوں تک

عرفان بن رفیع

“میں نے دو سال بعد گوشت کی شکل دیکھی ہے-”

دیہہ لنگ لوہار کی یہ بوڑھی عورت اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گوشت کی چھوٹی سی تھیلی لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔

”ہمارے پاس یہاں تک کوئی نہیں آتا ،نہ ہی ہمارے پاس شہر تک جانے کا کوئی ذریعہ ہے-”

یہ عیدالاضحٰی کا موقع تھا الخدمت کے رضا کار پروفیسر محمود علی بلوچ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گوٹھ میں قربانی کا گوشت تقسیم کر رہے تھے۔

ہمدرد یونیورسٹی سے حب ڈیم 23 کلومیٹر ہے۔ اور حب ڈیم کے دائیں کنارے سے مزید 50 کلومیٹر آگے تک کراچی کی حدود ہیں۔ جو کہ دیہہ کنڈ جھنگ پر جا کر ختم ہوتی ہیں۔ 75 کلومیٹر اس طویل پٹی پر بے شمار چھوٹے بڑے قدیم گوٹھ آباد ہیں ۔اسی طرح گڈاپ شہر سے لے کر کنڈ جھنگ تک 66 کلومیٹر ایک دوسری پٹی ہے اور ان دونوں کے بیچ مہر جبل نامی پہاڑ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جو کہ ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر ہے، اس میں ایک ایسا بھی علاقہ ہے جہاں نہ بجلی ہے اور نہ موبائل کے سگنل آتے ہیں۔ بیشتر علاقے پختہ سڑکوں سے محروم ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ہی بس کنڈ جھنگ سے گڈاپ شہر تک آتی ہے، دو سو روپے کرایہ ہے۔ اسی طرح ایک بس موئیدان کی پٹی سے بھی گڈاپ شہر تک آتی ہے،ا س کا کرایہ ڈھائی سو روپے ہے۔ واضح رہے کہ یہ گڈاپ شہر بھی سہراب گوٹھ سے 30 کلومیٹر دور ہے۔

اس صورت حال سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہاں باشندوں میں جو غرباءاور مساکین ہیں،   یتیم بچے اور بیوائیں ہیں ،ان کے لیے عیدالاضحی کے موقع پر کراچی کے شہری علاقوں تک پہنچنا اور قربانی کے گوشت سے اپنا حصہ وصول کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر ایک طرف تو شہر میں رہنے والے تقریباً سارے ہی غربا اور مساکین قربانی کا گوشت جمع کر رہے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوس میں تیس سے چالیس کلومیٹر کے فاسلے پر محرومیاں طاری رہتی ہیں۔

الخدمت کراچی کے گڈاپ کے کوارڈینیٹر پروفیسر محمود علی بلوچ اس علاقے میں ایک طویل عرصے سے سرگرم عمل ہیں۔ اس علاقے کے رہنے و الے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ان کو  “چاچا مام دلی” کے نام سے جانتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے ہماری توجہ عیدالاضحی کے موقع پر ان علاقوں کی طرف مبذول کروائی۔

ان ہی دنوں کی بات ہے کہ مسلم ایڈ کے رضوان بیگ نے سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں قربانی کے لیے 10,10 گائیں دینے کی بات کی، اور کہا کہ اس قربانی کو کراچی سے علیحدہ رکھنا ہے۔ ہم نے ان کو اس پسماندہ اور نظر انداز کیے جانے والے علاقے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ یہ سندھ اور بلوچستان کے بارڈر پر واقع ہے اور کراچی میں رہنے کا کوئی فائدہ بھی انہیں نہیں پہنچ رہا۔ پھر ان کو اس علاقے کا دورہ بھی کرایا تووہ قائل ہو گئے کہ یہ علاقہ تو بہت ہی پسماندہ ہے اور پھر پورے بیس جانور اسی علاقے میں قربان کیے گئے۔

اس وقت سے آج تک الخدمت تقریباً 12 سال سے ان دور دراز گوٹھوں میں عیدالاضحٰی کا گوشت پہنچا رہی ہے۔ گلشن معمار میں رہنے والے الخدمت کے رضا کار، سید عبدالماجد، مقصود احمد خان، سیدافتخار عالم، فواد احمد خان شروانی، متین فاروقی، رضوان شاہ اور بہت سارے دیگر بھی اس مشن میں جت گئے ،یہ لوگ عیدقرباں کے قریب آنے سے پہلے ہی دنیا بھر میں پھیلے ہو ئے اپنے دوستوں ، مخیر حضرات اور این جی اوز سے رابطے کرتے اور زیادہ سے زیادہ جانوروں کے حصول میں کوشاں رہتے۔

ایک سال تو ایسا بھی گزرا جب دو سو گائیں اور دو سو بکرے قربان کر کے تقسیم کیے گئے۔ اس موقع پر منگھوپیر، ہاکس بے، درسانوچنو اور مراد میمن گوٹھ کے علاقوں میں بھی گوشت تقسیم کرایا گیا۔

ایک سال ایسا بھی ہوا کہ عید کے تیسرے دن شام کے وقت مقصود بھائی کے پاس مرکز سے فون آیا کہ آپ چوتھے دن قربانی کرسکتے ہیں 70 گائیں ہیں ، لیکن بینک بند ہونے کی وجہ سے رقم عید کے ایک ہفتہ بعد مل سکے گی۔ ساتھیوں نے ہمت دکھائی اور بھاگ دوڑ کرکے صبح قربانی کردی۔ البتہ “فقہی جنگ” سے بچنے کے لئے ہم نے یہ قربانی گڈاپ کے فارم ہاﺅس میں کی۔

ان علاقوں میں گوشت کی تقسیم میں ایک مشکل یہ سامنے آئی کہ مرکز میں قربانی کے بعد پلاسٹک کے تھیلوں میں پیکٹ بنا کر رکھ دیے جاتے۔ دور دراز علاقوں میں پہنچنے تک گوشت خراب ہو جاتا ہے۔ کیونکہ بعض علاقوں تک پہنچنے کے لیے تین تین چار چارگھنٹے لگ جاتے ہیں۔

لہٰذا س کاایک  حل یہ نکالا گیا کہ بجائے گوشت کے پیکٹ پہنچانے کے زندہ گائے گوٹھ میں دے دی جائے، گوٹھ والے از خود ذبح کر کے گوشت تقسیم کر دیتے ہیں۔

 زندہ جانور دینے پرایک واقعہ یاد آگیا۔ گڈاپ شہر سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پرامینیہ مسجد واقع ہے۔ پروگرام کے مطابق16گائے اس مرکز پر قربان ہونی تھیں ۔عید کے پہلے روزگزرنے کے بعد رات میں الخدمت نے جانور بھجوا دیے۔ علی الصبح معمار سے پیشہ ور قصائیوں کی ٹیم کو ہم نے جاوید کامل اور شاہد سلیم کے ہمراہ روانہ کردیا ایک گھنٹہ بعدامینیہ مسجد سے جاوید کامل کا پریشانی میں گھرا فون آیا کہ یہاں تو کوئی ایک گائے بھی موجود نہیں ۔ہم بھی حیران اور پریشان ہوگئے ، یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا گڑ بڑ ہوگئی، کوئی فون بھی نہیں اٹھا رہا، کیا جانور چوری ہوگئے۔ اللہ رحم ۔ تھوڑی دیربعد پتہ چلا کہ رات کو سارے جانور بھاگ گئے۔ اور اس وقت سے انور بروہی، حیات بروہی، شاہ جان جوکھیو، شفیع جوکھیو اور الخدمت کے سارے رضا کار جنگلوں میں ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ کوئی بھی فون سننے کے لیے فارغ نہیں ۔ گلشن معمار سے مقصود احمد خان اور ان کے ساتھ دیگر رضا کار بھی گڈاپ پہنچ گئے ، پتہ چلا کہ رات کو بارہ بجے الخدمت سے جانور پہنچے۔ مرکز کی چار دیواری میں سارے جانور اتار دیے گئے اور مرکزی دروازہ بند کردیا ۔ چند گھنٹوں بعد فجر ہوجانی تھی اس کے بعد قربانی شروع۔ لہٰذا باندھنے کا تکلف نہیں کیا گیا۔ رضا کار پہلے تو صحن میں بیٹھے رہے پھر اندر مسجد کے ہال میں جا کر باتوں میں مشغول ہوگئے۔ اس دوران کوئی صاحب اپنے گھر جانے کے لئے اٹھے، مرکزی دروازہ کھولا اپنی موٹر سائیکل باہر نکالی اسٹارٹ کی اور چلتے بنے۔ دیہی علاقوں میں دروازے بند کرنے کی عادت کم ہی ہوتی ہے۔ ایک جانور اٹھا اور ٹہلتے ٹہلتے باہر آگیا۔ تھوڑی دیر میں ہی ایک ایک کر کے سولہ کے سولہ جانور بغیر کسی شور شرابے کے باہر نکل آئے۔

امینیہ مسجد گڈاپ شہر سے ملحق نسبتاً ویران جگہ پر واقع ہے اس وقت تو آبادی اوربھی کم تھی۔ مسجد کے چاروں جانب کھلا میدان تھا۔ جانور بھی منڈی سے علیحدہ علیحدہ خریدے جاتے ہیں۔ کسی ایک گلے کے ہوتے شاید ایک ساتھ ہی رہتے ، جس کا جہاں سینگ سمایا ادھر ہی نکل گیا۔

رات کے دو بجے ہوں گے مسجد کے ہال میں شاہ جان جوکھیو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ اچانک کسی نے کہا کہ باہر ایک دم سناٹا چھا گیا ہے ، کوئی آواز نہیں آرہی۔ باہر آئے توسب کے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ فوری طور پر باقی لوگوں کو فون کر کے بلایا گیا۔ چاروں طرف رضا کار پھیل گئے۔ گوٹھوں میں جا کر لوگوں سے پوچھنا شروع کیا ہمارا جانور تو نہیں دیکھا۔ لوگ پوچھتے کہ آپ کا جانور کیسا تھا؟ کس رنگ کا تھا ؟ اب یہ کیا بتاتے؟ رات دو بجے سے دن کے دو بج گئے ۔رضا کاروں نے اعلان کرادیا کہ گوٹھ والے اپنے اپنے جانور باندھ لیں ،پندرہ سے بیس کلو میٹر کے دائر ے میں تلاش جاری رہی اور الحمدللہ 16میں سے 14جانور 2بجے تک ڈھونڈ کر قربان کردیے گئے ایک جانور تیسرے دن ملا اور ایک جانور نہ مل سکا۔ گڈاپ کے طول عرض میں یہ بات پھیل گئی الخدمت کے سولہ جانور بھاگ گئے۔

نیت صاف تھی، کام جاری رہا۔ شروع کے سالوں میں ہم ہی تقسیم کیا کرتے تھے۔ NGOسے بھی بھرپور تعاون مل جاتا لیکن پھر الخدمت کراچی کو ملنے والا حصہ آہستہ آہستہ ہوتا گیا۔ اب تمام گوٹھوں تک گوشت پہنچانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اللہ کا کام اللہ ہی جاری رکھے گا ۔ ذریعہ کوئی بھی بنے۔

آپ بھی اپنے اطراف میں دیکھ سکتے ہیں کہ کون فی سبیل اللہ قربانی کرنا چاہتا ہے اور مستحق لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ آپ اس کا رابطہ پروفیسر محمود علی بلوچ، سومار برفت 2881270-0300 یا الخدمت کراچی کرا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں گوٹھوں کی تعداد 80سے زائد ہے ۔ الخدمت کی کوشش ہے کہ کم از کم ایک گائے ہر گوٹھ تک پہنچائی جائے، اب تک 4گائے خریدی جا چکی ہیں۔

ایک وقت تھا جب ہماری رہائش سمن آباد میں تھی۔ شام کے وقت الخدمت کے کیمپ پر بیٹھے تھے صبح سے کھالیں جمع کر کر کے رضا کار تھک کر گھروں میں جا چکے صرف دو تین باقی بیٹھے انتظار کررہے تھے کہ مغرب ہو اور کیمپ بند کریں پھر ہم بھی گھر جائیں کہ اچانک الخدمت کے مرکز سے ایک ہائی روف آ کر کیمپ کے سامنے رکی اس میں ایک گوشت کا ٹوکرا نکال کر اسٹال پر رکھا اور کہاکہ غریبوں میں تقسیم کروادیں اور گاڑی یہ جا وہ جا ۔ اور ہم ہکا بکا کہ اس گوشت کے ایک “پورے” ٹوکرے کو کہاں اور کیسے تقسیم کریں گے۔ یعنی کئی گھنٹے مزید۔ لیکن اب یہاں گڈاپ میں ایک ٹوکرا تو کیا سو سو گائیں بھی کم لگتی ہیں