December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

حج کے بعد

مفتی ناصر الدین مظاہری

اسلام کا اہم ترین رکن حج بلاشبہ ان تمام مسلمانوں پر فرض ہے جو اسے مکمل اور احسن طور پر ادا کرنے کی طاقت اور وسعت رکھتے ہوں، اس اہم ترین فرض کی ادائیگی ہر صاحب وسعت پر عمر میں کم از کم ایک بار فرض ہے ، اور جس نے قدرت اور وسعت کے باوجود حج نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ؛ ترجمہ:’’اور اللہ ہی کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرج ہے جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔(البقرۃ)

حج ایک عاشقانہ عبادت ہے جس کے لیے اللہ کی عبادت کا عاشق دنیا کی ہر چیز کو خیر باد کہہ کر مستانہ وار نکل کھڑا ہوتا ہے اور تکالیف و مصائب کی پرواہ نہیں کرتا اس لیے محض اللہ کی خوشنودی اور اداء فرض و تعمیل ارشاد کی نیت سے حج کریں، نام و نمود یا سیر و تفریح، تبدیلی آب و ہوا اور حاجی کا لقب حاصل کرنے کے لیے ہرگز سفر نہ کیا جائے اس سے اگرچہ حج کا فریضہ ادا ہوجائے گا مگر ثواب کی محرومی ہوگی۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی اس فرض کی ادائیگی اور حرم محترم کی حاضری کے لیے ہر ملک، ہر شہر اور علاقہ سے بندگانِ الٰہی جوق در جوق پہنچے اور حج کے ارکان کو حتی الامکان خوبی و خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی کوشش کی۔

ہم میں سے اکثریت ایسے افراد و اشخاص پر مشتمل ہے جو حج کرنے کی طاقت اور وسعت رکھنے کے باوجود اس کی ادائیگی میں تساہلی اور کوتاہی کرکے عذاب جہنم کے مستحق بن رہے ہیں۔(اعاذ ناللہ)

اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حاجی حج کے بعد خود کو مافوق الفطرت ہستی تصور کرنے لگتا ہے، اسے دوسروں پر اپنی افضلیت اور اہمیت کا احساس ہونے لگتا ہے، حج کے باعث غیر حاجی کو حقیر و کمتر تصور کیا جاتا ہے، حج کے بعد اپنے آپ کو ’’حاجی‘‘ کہلوانے کا شوق اور خبط سوار ہوجاتا ہے، دوسرے بھی ’’حاجی صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں اور ’’حاجی‘‘ اس نئے لقب کو سن کر پھولے نہیں سماتا حالانکہ یہ بھی شیطانی چال ہے، اپنی عبادتوں کو مشتہر کرنا ریا ہے، دکھاوا اور نفاق ہے، اسلامی تعلیمات کے قطعاََ خلاف ہے۔

غور کریں! حج کوئی سند اور ڈگری نہیں ہے کہ اس کو کرنے سے آدمی سند یافتہ ہوجائے گا، بلکہ حج بھی اسلام کا اہم رکن ہے، ایک فرض ہے، جس فرض کی ادائیگی بلندیٓ درجات کا باعث اور عند اللہ مسٓولیت سے بچنے کا ذریعہ ہے۔

آج کے دور میں حج کے نام پر طرح طرح کی بدعات و خرافات جنم لے رہی ہیں، حج بیت اللہ کے لیے روانگی سے پہلے اپنے عزیزوں، دوستوں اور حلقہٓ یاراں کو باقاعدہ دعوت بھیجے جاتے ہیں، انہیں دعوت ناموں کے ذریعے بلایا جاتا ہے، طرح طرح کی تیاریاں کی جاتی ہیں، شامیانے اور کھانے پینے کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے،مستورات بھی بے پردہ گھومتی نظر آتی ہیں اور پھر بے پردہ مستورات پر مشتمل کارواں قریبی ہوائی اڈہ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹینڈ تک ساتھ جاتا ہے، فوٹو گرافی ہوتی ہے، محرم اور نامحرم کے فوٹو کھینچے جاتے ہیں ویڈیو کیسٹیں تیار کی جاتی ہیں جنہیں اپنے اور پرائے اسکرین پر دیکھتے ہیں، جن لوگوں کو ایسے مواقع پر حاجی کے ساتھ بطور مشایعت ایسی جگہوں پر جانا کا موقع ملا ہے ان سے اس بے پردگی کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

حضرت جنید بغدادیؒ کی خدمت میں ایک صاحب حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟ عرض کیا:’’حج سے آرہا ہوں‘‘۔ پوچھا حج کرچکے؟ عرض کیا:’’کرچکا‘‘ فرمایا: جس وقت گھر سے روانہ ہوئے اور عزیزوں سے جدا ہوئے تھے، اپنے تمام گناہوں سے بھی مفارقت کی نیت کرلی تھی؟ کہا:’’ نہیں یہ تو نہیں کیا تھا۔ ’’فرمایا: بس پھر تم سفر حج پر روانہ ہی نہیں ہوئے پھر فرمایا کہ راہِ حق میں جوں جوں تمہارا جسم منزلیں طے کررہا تھا تمہارا قلب بھی قرب حق کی منازل طے کرنے میں مصروف تھا؟ جواب دیا کہ’’یہ تو نہیں ہوا‘‘ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سفر حج کی منزلیں طے ہی نہیں کیں۔ پھر پوچھا کہ جس وقت احرام کے لیے اپنے جسم کو کپڑوں سے خالی کیا تھا اس وقت اپنے نفس سے بھی صفات بشریہ کا لباس اتارا تھا؟ کہا: ’’نہیں! یہ تو نہیں ہوا تھا۔‘‘ ارشاد ہوا پھر تم نے احرام ہی نہیں باندھا، پھر پوچھا عرفات میں وقوف کیا تو کچھ معرفت بھی حاصل ہوئی؟ کہا:’’نہیں! یہ تو نہیں ہوا‘‘ارشاد ہوا پھر عرفات میں وقوف ہی نہیں کیا پھر پوچھا کہ جب مزدلفہ میں اپنی مراد کو پہنچ چکے تو اپنی ہر مراد نفسانی کے ترک کا بھی عہد کیا تھا؟ کہا:’’نہیں یہ تو نہیں کیا تھا‘‘۔ ارشاد ہوا کہ پھر طواف ہی نہیں ہوا، پھر پوچھا کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو مقام صفا اور درجہٓ مروہ کا بھی کچھ ادراک ہوا تھا؟ کہا:’’نہیں!یہ تو نہیں ہوا‘‘ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے سعی بھی نہ کی، پھر پوچھا کہ جب منیٰ آئے تو اپنی ساری آرزؤں کو تم نے فنا کیا؟ کہا:’’ نہیں! یہ تو نہیں کیا تھا‘‘ ارشاد ہوا کہ پھر تمہارا منیٰ جانا لاحاصل رہا، پھر پوچھا کہ قربانی کہ وقت اپنے نفس کی گردن پر بھی چھری چلائی تھی؟ کہا’’نہیں! یہ تو نہیں کیا تھا‘‘ ارشاد ہوا کہ پھر تم نے قربانی ہی نہیں کی، پھر پوچھا کہ جب کنکریاں ماری تھیں تو اپنے جہل و نفسانیت پر بھی ماری تھیں؟ کہا’’نہیں! یہ تو نہیں کیا تھا‘‘ارشاد ہوا کہ پھر تم نے رمی بھی نہ کی اور اس ساری گفتگو کے بعد آخر میں فرمایا کہ تمہارا حج کرنا نہ کرنا برابر رہا اب پھر جاؤ صحیح طریقہ پر حج کرو‘‘۔

مندرجہ بالا واقعہ کو ملاحظہ فرما کر غور کیا جائے کہ حج کے سلسلہ میں ہم سے کس قدر کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں، نہ صحیح طور پر حج کے ارکان ہم سے ادا ہوتے ہیں، نہ سفر حج کو مبارک و مسعود بنانے کی ہم کوشش کرتے ہیں نہ تو حقوق العباد کا خیال ہوتا ہے اور نہ حقوق اللہ کی کوئی فکر دامن گیر ہوتی ہے، نہ مشتبہ مال سے اجتناب ہوتا ہے، نہ دل کی صفائی اور فکری پر اگندگی دور کی جاتی ہے، نہ خواہشات نفسانی کو دبایا جاتا ہے، نہ عاجزی و انکساری اختیار کی جاتی ہے، نہ نظروں کو نیچا کیا جاتا ہے۔ سفر حج کے لیے انواع و اقسام کے پر تکلف کھانوں اور ناشتوں کا انتظام کیا جاتا ہے کہ اس پر ’’سفر‘‘ کا اطلاق بھی نہ ہوسکے، حرم محترم میں دنیاوی گفتگو، تجارتی معاملات، اشیاء خورونوش کی تیاری، ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے بھاگ دوڑ، مکہ المکرمہ کی مارکیٹوں اور مدینہ منورہ کی بازاروں میں ایسے لوگوں کا جم غفیر جو صرف اور صرف عبادت اور ایک فرض کی تکمیل کے لیے ہزاروں میل کی صعوبتیں برداشت کر کے وہاں پہنچے ہیں یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عبادات کے بجائے تجارتی معاملات طے کیے جانے لگیں، کمال تو یہ ہے کہ اس مبارک سفت سے واپسی پر ریڈیو، ویڈیوگیم، کیمرے اور ٹی وی وغیرہ بھی حجاج کرام اپنے ساتھ لارہے ہیں پھر ایسے ’’سفر‘‘ کو کس طرح مبارک اور مسعود قرار دیا جاسکتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کا ارشاد ہے کہ آخر زمانہ میں بیت اللہ کے حاجیوں کی کثرت ہوجائے گی، ان کے لیے سفر کرنا آسان ہوجائے گا اور روزی بافراط ملے گی مگر وہ محروم اور چھنے ہوئے واپس ہوں گے۔

ممکن ہے یہ سطور پڑھ کر قارئین کرام یہ خیال فرمائیں کہ ہر شخص تو ایسا نہیں کرتا تاہم اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ تالاب کی سبھی مچھلیاں خراب نہیں ہوتیں، پھر بھی بدنام سبھی ہوتی ہیں، اس لیے شرعی اور قانونی طور پر ممنوع چیزوں کا ساتھ لے جانا اور لانا دونوں غلط ہیں۔

حج کی ادائیگی ایک فرض سمجھ کر کرنا چاہیے اس کو سیر و تفریح، تجارت اور ریا و نمود کا ذریعہ بنانا ناجائز اور حرام ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک زمانہ وہ بھی آنے والا ہے کہ مالدار سیر و تفریح کی غرض سے حج کریں گے، متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے واسطے، علماء ریا و شہرت کے لیے حج کریں گے اور فقراء بھیک مانگنے کی خاطر حج کریں گے۔

موٓرخ اسلام حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ فرماتے ہیں کہ ’’احتساب کیجیے کہ آپ کا حج کس قسم کا ہے، مالدار بھی سوچیں کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں حج کیا ہے یا سیر و تفریح کے طور پر روپیہ پیسہ کے بل پوتے پر ایک لمبا چوڑا سفر کرڈالا ہے۔ توسط درجہ کے لوگ بھی غور کریں کہ انہوں نے اس مقدس سفر میں خرید و فروخت اور تجارت کا کام دھندا ہی کیا ہے یا حج و مناسک کو دینی روح کے ساتھ ادا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ علماء جماعت کو بھی احتساب کرنا چاہیے کہ اس نے اس مبارک موقع پر اپنی عزت و شہرت کے لیے کیا کیا، کیا ہے ؟ اور اللہ اور رسول کے لیے کیا کیا ہے؟ مفلس و تنگ دست  جن کے پاس کھانے تک کا ٹھکانہ نہیں تھا مگر وہ حج کے لیے گئے ان کو بھی جائزہ لینا چاہیے کہ انہوں نے اللہ وحدہ لاشریک لا اور اس کے پاک رسول کے دربار میں آتے جاتے کن کن مقامات پر کیسے کیسے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کیا ہے۔

ایک صاحب دل عارف باللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ بہت سے خراسان کے رہنے والے اس آدمی کے مقابلہ میں کعبہ سے زیادہ قریب ہیں جو اس کا طواف کررہا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حج کو اس کی مکمل صفات کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔