April 27th, 2024 (1445شوال18)

قرآن کی اخلاقی تعلیمات

سیّد معروف شاہ شیرازی

بدی کبھی اپنی اصلی شکل میں رونما ہونے کی جرأت نہیں کرتی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نیکی کا لبادہ اُوڑھ کر ہی سامنے آتی ہے، اور یوں خود اپنی شکست کا خاموش اعتراف کر لیتی ہے۔ اس سے انسان کی حقیقی فطرت کا بھی پتا چلتا ہے جو خیر اور حسنِ خلق سے عبارت ہے۔ انسان کو باقی حیوانی دنیا سے ممیز کرنے والی چیز اخلاق ہی ہے۔ اس کے سنوارنے سے انسان کا سنوار ہے ، اور اس کے بگاڑنے سے انسان کا بگاڑ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ِ تہذیب میں تمام معاشرے اور تمام تمدن جس چیز پر متفق نظر آتے ہیں وہ حسنِ اخلاق ہے۔ سچائی ، پاسِ عہد، رحم ، فیاضی ، صبر ، تحمل، بردباری ، اولوالعزمی ، شجاعت ، ضبطِ نفس، خودداری، میل ملاپ ، شائستگی ، فرض شناسی ، اتفاق اور دوسری اچھی صفات کو سب نے سراہا ہے، اور اس کے برعکس تقریباً تمام معاشروں نے جھوٹ ، بد عہدی ، ظلم ، بخل، بے صبری، بزدلی، ذلت، ترش روئی، خیانت، چغلی، غیبت اور تمام دوسری برائیوں کو بُرا سمجھا ہے۔ یہ اقدار انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں اور اسلام نے ان معروفات اور منکرات کو اپنے نظام میں سمولیا ہے۔ البتہ جس پہلو سے قرآن کا نظامِ اخلاق منفرد ہے وہ یہ ہے کہ اس نے فلسفہ ٔ اخلاق کے تمام بنیادی امور کے بارے میں ایک منظم اور مربوط نظر یہ پیش کیا ہے۔ اور وہ اپنا ایک خاص ماخذ ِ علمِ اخلاق، قوتِ نافذہ اور قوتِ محرکہ رکھتا ہے اور یہ سب مل کر اس کے فلسفۂ اخلاق کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ بنیادی باتیں قابلِ ذکر ہیں:

 (ا ) قرآن کی اخلاقی تعلیمات کی پہلی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمایش اور امتحان کے لیے بھیجا ہے اور ایک دن انسان کو پوری زندگی کا حساب اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنا ہو گا۔ اسلام نے اخلاقی امور کا کمال یہ قرار دیا ہے کہ وہ یہ سمجھ کر ادا کیے جائیں کہ یہ خدا کے احکام ہیں اور انسانوں کو خدا کے بتائے ہوئے معیار ِ خیروشر کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی میں اُن کی فلاح ہے۔

(ب) انسان خود اپنے مفاد اور برے بھلے کے متعلق محض اپنی عقل کی بنا پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز کو اچھی اور مفید سمجھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مضر ہوتی ہے، اور بعض چیزوں کو وہ مضر سمجھتا ہے حالانکہ وہ اس کے لیے حد درجہ مفید ہوتی ہیں۔ قرآن کے یہ الفاظ اسی مضمون کی ترجمانی کرتے ہیں:

وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ۲ : ۲۱۶) عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بُری لگے اور وہ تمھارے حق میں بھلی ہو، اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمھارے لیے مضر ہو۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔

آخر میں وجہ بھی بتا دی کہ اللہ ہی حقائقِ اشیا سے کما حقہ با خبر ہے اور تمھارے علم کا دائرہ محدود ہے۔ اگر ہر انسان یا انسانی گروہ اپنے لیے خود اخلاقی ضابطے وضع کرنے لگے تو انسانی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاق کا تعلق باہمی معاملات ومسائل سے ہے۔ یا یوں کہیے کہ باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی کا دوسرا نام اخلاق ہے۔ ’’دنیا کی ساری خوشی، خوش حالی اور امن وامان انھی اخلاق کی دولت سے ہے۔ اسی دولت کی کمی کو حکومت وجماعت اپنی قوت اور طاقت کے قانون سے پورا کرتی ہے۔ اگر انسانی جماعتیں اپنے اخلاق وفرائض کو پوری طرح خود انجام دیں تو حکومت کے جبری قوانین کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے۔ اسی لیے بہترین مذہب وہ ہے جس کا اخلاقی دبائو اپنے ماننے والوں پر اتنا ہو کہ وہ ان کے قدم قدم کو سیدھے راستے سے بہکنے نہ دے‘‘۔ (سیرت النبی ؐ، سیّد سلیمان ندوی، جلد ششم، طبع چہارم،۱۹۶۴ء،ص ۲)

اس اعتبار سے اسلام دنیا کے تمام مذاہب اور نظاموں سے کہیں زیادہ جامع ہے۔ اخلاق کے دائرے میں تو زندگی کے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی پہلوبھی آ جاتے ہیں لیکن ہم اپنے مطالعے کی آسانی کے لیے اخلاق کو اس کے معروف اور عام تصور اور تعریف تک محدود رکھیں گے، اور اس ضمن میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کو اختصار کے ساتھ پیش کریں گے۔ ویسے تو دنیا کے ہر مذہب اورنظام نے اخلاق پر زور دیا ہے لیکن قرآن نے اخلاق کی بلندی کا وہ معیار پیش کیا ہے، جہاں انسان اللہ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں اسماے حسنیٰ کا پر تو نظر آتا ہے۔

قرآن نے اخلاقی تعلیمات کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے:

٭  نفسانی اور ذاتی اغراض سے پاک :

 اسلام میں چونکہ اخلاق بھی دوسرے مذہبی امور کی طرح ایک عبادت ہے۔ اس لیے اس کی غرض وغایت بھی، ہر قسم کی دنیاوی، نفسانی اور ذاتی اغراض سے پاک ہونی چاہیے۔ اگرایسا نہیں ہے تو اس کی حیثیت کچھ نہیں ہے، اور نہ ان اخلاقی اُمور کا کوئی اُخروی فائدہ ہو گا:

وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا  ج  وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا ط                               ( ٰال عمرٰن ۳ ۳: ۱۴۵) اور جو شخص دنیا میں (اپنے اعمال کا ) بدلہ چاہے اس کو ہم یہیں بدلہ دے دیں گے، اور جو آخرت میں طالب ثواب ہو اس کو وہاں اجر عطا کریں گے۔

کوئی بھلائی کا کام اگر بد نیتی ، ریاکاری اور نمایش کے جذبے سے کیا جائے ، وہ باطل ہوگا، اور اس کا کوئی اجر نہ ملے گا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی (البقرہ ۲: ۲۶۴) مومنو! اپنے صدقات کو احسان رکھنے اور ایذا دینے سے برباد نہ کرو۔

٭  رہبانیت کی نفی:

اخلاق ، درحقیقت انسانوں کے باہمی تعلقات میں خوش نیتی اور اچھائی برتنے کا نام ہے، یا یوں کہیے کہ انسانوں کے باہمی میل جول سے جو فرائض اور ذمہ داریاں ایک دوسرے پر عائد ہوتی ہیں ان کا بحسن وخوبی اد اکرنا اخلاق کہلاتا ہے۔ اس لیے اخلاق کے وجود کے لیے انسانوں کا باہمی میل جو ل اور وابستگی ضروری ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے رہبانیت کو جائز نہیں قرار دیا ۔  قرآن کریم یہ کہتا ہے:

وَّ رَہْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْ ھَامَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ (الحدید ۵۷: ۲۷) اور رہبانیت ، جسے انھوں نے از خود گھڑا ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔

٭  حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین:

اسلام میں جماعت کے افراد پر، ان کی قوت کے مطابق ، جماعت کے دوسرے افراد کی نگرانی فرض ہے۔ اسی اخلاقی اور شرعی فرض کا نام امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ قرآن کریم کی وضاحت کے پیش نظر امت ِ مسلمہ کی فضیلت ہی اس بات پر ہے کہ یہ امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتی ہے:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰ ) تم بہترین امت ہو، جو سارے انسانوں کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔

لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ جہاں بھی برائی کو دیکھے اسے مٹانے کی کوشش کرے اور ہرحالت میں حق بات کہے:

وَتَــوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَــوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o (العصر ۱۰۳: ۳) اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

٭ عدل و احسان

عدل وانصاف کو ہمیشہ مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ کسی فرد یا قوم کی دشمنی کی وجہ سے ، راہ ِاعتدال سے ہٹنا یا سچی شہادت دینے سے گریز کرنا ناجائز ہے خواہ اس کی خاطر رشتہ داروں، دوستوں اور حد یہ کہ اپنی ذات کے خلاف ہی گواہ کیوں نہ بننا پڑے۔ اسی طرح اگردو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا معاملہ پیش آئے تو بے لاگ فیصلہ کرنا چاہیے:

وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کا فیصلہ کرو ۔

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ط (المائدہ۵: ۸) اور لوگوں کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔

کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ(النساء ۴: ۱۳۵) انصاف پر قائم رہو، اللہ واسطے کے گواہ بنو خواہ تمھاری گواہی تمھارے یا تمھارے ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

اس سے بھی آگے بڑھ کر قرآن نے عدل کے ساتھ ساتھ احسان کو بھی مسلمانوں کی ایک اخلاقی خصوصیت بتایا ہے۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی کی کمی کو پورا کر دینا ، تا کہ معاشرے اور زندگی میں حسن قائم رہے۔ اسلامی مملکت میں عدل کا تعلق بڑی حد تک ریاست کے ہاتھ میں ہو گا، لیکن احسان ہر شخص کے ہاتھ میں :

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تمھیں عدل اور انصاف کا حکم دیتا ہے ۔

٭ مذموم صفات کی نفی:

قرآن کے نزدیک وہ تمام صفات مذموم ہیں، جو معاشرے کی اخلاقی فضا کو مکدّر کریں اور مسلمانوں کے اتحاد اور نظم وضبط کو نقصان پہنچائیں اور جن سے اس بات کا خطرہ ہو کہ پوری سوسائٹی ناقابلِ اعتماد قرار پائے۔ مثلاً جھوٹ ، انتشاروافتراق، افتراپردازی ، بدگمانی ، چغلی ، غیبت ، نفاق اور تحقیر وغیرہ ، کہ یہ محرکات ہیں جن سے کسی سوسائٹی کی فضا مکدّر ہو سکتی ہے۔ ان سب سے بچنے کے لیے اس طرح ہدایات دی گئیں:

……   وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (الحج ۲۲:۳۰) اور بچتے رہو جھوٹی بات سے۔

……  وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ ( ٰال عمرٰن ۳:۱۰۳ )اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو ۔

……  ُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبہ ۹:۱۱۹) سچوں کے ساتھ رہو ۔

……  اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ(الحجرات۴۹:۱۲) قیاس آرائیوں سے بچو ۔

……    وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا (الحجرات۴۹:۱۲) ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔

……   لَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات۴۹:۱۲) ٹوہ میں نہ لگے رہو ۔

……  وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ (الحجرات۴۹:۱۱) ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو  ۔

……  لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّنْ قَوْمٍ(الحجرات۴۹:۱۱) کچھ لوگ دوسروں کا مذاق نہ اڑائیں  ۔

……  وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط (الحجرات ۴۹:۱۱) ایک دوسرے کو بُرے ناموں سے نہ پکارو۔

 

٭  انسانی جان اور عزتِ نفس کا احترام:

مسلمانوں کی جان ومال ، عزت و آبرو، سب محترم ہیں۔ ناحق کسی کی جان لینا یا بے عزت کرنا ، یا ذلیل وخوار کرنا جائز نہیں ہے، جیساکہ خیانت ، بددیانتی ، ظلم ، غرور و تکبر ، خود ستائی ، حسد ، بغض ، ناپ تول میں کمی بیشی، انتقام ، قتل ناحق وغیرہ۔  قرآن کے نزدیک یہ سب مذموم صفات ہیں۔ ذیل کی آیات میں ان باتوں کی وضاحت موجود ہے:

……    لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ (انفال ۸: ۲۷) اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو۔

……  وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ (لقمان ۳۱: ۱۸) اور لوگوں سے گال پھلائے نہ رکھو، اور نہ زمین پر اکڑ کر چلو ۔

……     وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا(بنی اسرائیل۱۷ : ۳۷) زمین پر اکڑ کر نہ چلو ۔

……    فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ (النجم ۵۳: ۳۲) اپنی پاک بازی نہ جتائو ۔

……     وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ (الفلق ۱۱۳: ۵) حاسد کے حسد سے پناہ مانگتا ہوں۔

…… اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (النور۲۴ :۲۳ ) جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی ، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا وآخرت دونوں میں لعنت ہے ۔

……     لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ( ٰالِ عمرٰن۳:۵۷) اللہ ظالموں کو محبوب نہیں رکھتا ۔

……    فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ(الاعراف۷ :۸۵) تول پورا کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو۔

 

٭ ناجائز سفارش اور رشوت کی نفی

قرآن مجید کا یہ بھی حکم ہے کہ جائز سفارش کرو اور کسی کا مال ناجائز طور پر نہ کھائو، یعنی بطور رشوت یا کسی اور ناجائز ذریعے سے :

وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲: ۱۸۸) ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو اور نہ اس کو حاکموں کے پاس پہنچائو تا کہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جائو اور اسے تم جانتے ہو ۔

 

٭ حُسنِ اخلاق:  باہمی میل ملاپ میں اور بات چیت میں تواضع اور شیریں زبانی سے کام لو اور غروراور بدمزاجی سے پرہیز کرو:

قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرہ ۲: ۸۳) سب لوگوں سے اچھی بات کہو ۔

وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَo (الشعراء ۲۶:۲۱۵) ان مومنوں کے ساتھ خاطر تواضع سے پیش آئو جو آپ کے تابع ہیں۔

٭  ضبطِ نفس:

عفوو درگزر سے کام لو اور ہر چھوٹی اور معمولی بات پر آپے سے باہر نہ ہوجائو :

وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ( ٰال عمرٰن ۳: ۱۳۴ ) غصہ پی جانے والے اور لوگوںسے درگزر کرنے والے ۔

وَ اَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط(البقرہ ۲: ۲۳۷) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے ۔

وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط (النور ۲۴:۲۲) انھیں چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں ۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo (الشورٰی ۴۲: ۴۳ ) اور جو صبر کرے اور درگزر سے کام لے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔

٭قناعت اور اعتدال:

معاشی نقطۂ نظر سے وہ ایسی روش اختیار کریں جس میں قناعت اور خرچ میں اعتدال ہو اور اسراف سے دُور رہیں۔ اگر اللہ نے کسی کو زیادہ دیا ہے تو لالچ نہ کریں اور نہ اس سے حسد کریں۔ اگراللہ نے انھیں زیادہ دیا ہے تو اسراف نہ کریں اور نہ بخل سے کام لیں :

اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (النساء ۴: ۵۴) کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟

وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط (النساء۴: ۳۲ ) اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو۔

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۹ ) نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے کھلا چھوڑ دو ۔

وَالَّذِیْنَ اِذَٓا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo (الفرقان ۲۵:۶۷) اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی اور  بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ اس کے درمیان اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ۔