December 18th, 2025 (1447جمادى الثانية27)

16 دسمبر: سقوطِ ڈھاکا!

16 دسمبر 1971 صرف پاکستان ہی نہیں ملت ِ اسلامیہ کا وہ المناک باب ہے جسے کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا، سقوطِ سلطنت ِ عثمانیہ،سقوطِ غرناطہ اور سقوطِ بغداد کا زخم ابن الوقتوں اور موقع شناسوں کے ہاتھوں ملت کے جسد پر وہ کاری وار ہے جو آج بھی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے سانحے کا ذکر گویا ذکر ِ کربلا ہے مگر کربلا کی یاد میں غم و الم کے ساتھ ساتھ لاشعور میں ایک تفاخر کا احساس بھی پنہاں ہے کہ خانوادۂ رسول نے اپنے 72 ساتھوں سمیت تمام تر بے سروسامانی کے باوجود وقت کے ظالم و جابر حکمرانوں کے آگے سپر ڈالنے اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے سرنگوں ہونے کے بجائے بے مثل و لازوال جرأت و ہمت اور شجاعت کی داستان رقم کرتے ہوئے اپنے شیر خوار بچوں سمیت سرکٹوانا تو گوارہ کیا مگر جھکانا نہیں، یزید ِ وقت نے جفا کی تیغ سے وفا شعاروں کی گردنیں تو کاٹ ڈالیں مگر وہ ایک خدا کے آگے سرجھکانے والوں کے سروں کو اپنے آگے خم نہیں کراسکے، کربلا کی یہ شکست ِ فاتحانہ آج بھی پوری ملت کا سرمایۂ افتخار ہے کہ جس میں مقتول آج بھی زندہ و تابندہ ہیں اور قاتل پیوند ِ خاک۔ سقوطِ ڈھاکا اس اعتبار سے درناک بھی ہے اور عبرت انگیز بھی کہ جاوا سے مراکش تک 3 لاکھ 41 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی مملکت اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری سے دولخت ہوگئی، مگر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے طالع آزماؤں کو اس کا کوئی غم نہ تھا۔ مشرقی محاذ پر ملک کی بقا و سلامتی کے لیے مامور ذمے دار قوم کو آخری وقت تک یہ باور کراتے رہے کہ ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، دشمن ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ڈھاکا پہنچے گا، جبکہ مغربی پاکستان میں سیاسی شعبدہ بازی کے شناور اور موقع پرستی و چاپلوسی کے ہنرور عوام کو یہ طفل تسلیاں دیتے رہے کہ ہم ہندوستان سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے، مگر یہی بلند و بانگ دعوے کرنے والے اور ملکی دفاع کو ناقابل ِ تسخیر باور کروانے والوں نے دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ باوقار قوموں کی زندگی میں ذلت کی زندگی عزت کی موت سے بہتر ہوتی۔ 16 دسمبر کے حادثہ جانکاہ کے اسباب و علل پر بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا ہے اور جب تک اس کرۂ ارض پر پاکستان کا جود برقرار ہے مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کی وجوہات اور سول و فوجی حکمرانوں کی سیاسی عدم بصیرت اور عاقبت نا اندیشیوں پر بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا، مگر ان تمام تجزیوں اور تبصروں میں اس امر کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا کہ قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں اور اس کے بعد سے اب تک ملکی سیاسی بساط پر اسٹیبلشمنٹ کی بازی گری، بالواسطہ و بلاواسطہ مداخت، جوڑ توڑ کی سیاست اور کارِ منصبی سے ہٹ کر سیاسی امور میں بے جا مداخلت، جمہوری کلچر کو فروغ دینے میں گریز بھی کسی طور کم نہیں تھا۔ اس امر کی حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے اہم اسباب میں سیاسی محرومی، مغربی پاکستان کی نوکر شاہی کا متعصبانہ رویہ اور ملکی اقتدار پر قابض فوجی آمروں کی اپنی ناک سے آگے نہ دیکھنے اور ذات سے آگے نہ سوچنے کی مجہولانہ روش تھی۔ پلٹن میدان میں جنرل نیازی نے دشمن کے آگے ہتھیار ڈال کر جس شکست کا اعتراف کیا وہ ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مشرقی کمانڈ کے جنرل امیر عبد اللہ نیازی قوم سے یہی کہتے رہے کہ ہندوستانی افواج ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ڈھاکا پر قبضہ کرسکتی ہے مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ 2 دسمبر کو بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا اور 16 دسمبر کو ڈھاکا کے سقوط کا دل خراش سانحہ وقوع پذیر ہوگیا اس طرح محض 13 روز کے اندر انہوں نے دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 55 فی صد تھی، یہاں کی زمین بھی سونا اُگلتی تھی اگر ملک میں جمہوری قدروں کو بحال رکھنے کی کوشش کی جاتی اور عوامی رائے عامہ کا احترام کیا جاتا اور ذوالفقار علی بھٹو اِدھر ہم اْدھر تم کا نعرہ بلند نہ کرتے اور نہ ہی ارکانِ اسمبلی کو یہ دھمکی دیتے کہ جو مشرقی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، تو صورتحال قدرے مختلف ہوتی۔ اصولاً 70 کے انتخابات میں اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ کر کے مشرقی پاکستان کے عوام بالخصوص بنگلا زبان بولنے والوں کے اندر محرومی کا احساس پیدا کیا گیا اور لطف یہ کہ انتخابات کے نتائج کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر کے ان کے احساسِ محرومی کو مزید مستحکم کردیا گیا، خواجہ ناظم الدین جو پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم تھے، انہیں اقتدار سے نہ صرف بے دخل کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا گیا۔ تنگ آمد بجنگ آمد کی مانند اس صورتحال کا جو لازمی نتیجہ تھا وہ بالآخر ابھر کر سامنے آگیا اور 71 کے اواخر میں شر پسند اور ملک دشمن عناصر کھل کر سامنے آگئے جن کی تربیت ایک عرصے سے بھارت میں کی جارہی تھی، اس طرح پاکستان کے ازلی دشمنوں کو مکمل طور پر کھل کھیلنے کا موقع مل گیا، اور بالآخر ملک دو ٹکروں میں بٹ گیا، بنگلا دیش کے قیام کے فوراً بعد ہی پلٹن میدان میں ہونے والے ایک عوامی جلسہ عام سے بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس پر بھپتی کسی کہ ہم نے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے اور آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوگیا۔ سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ گزرے 54 سال ہوگئے مگر المناک صورتحال یہ ہے کہ ہم آج بھی اس سانحے سے کسی قسم کا کوئی سبق لینے کے لیے تیار نہیں آج بھی عوامی مینڈیٹ کی توہین و تذلیل کا سلسلہ جاری ہے، طاقت کے مراکز کو عوام کے منتخب نمائندے قبول نہیں، عوام اپنے ووٹوں سے جب اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرتے ہیں تو ان کے مقدس ووٹوں پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے اور انتخابی نتائج ڈھٹائی کے ساتھ تبدیل کر کے من پسند افراد کے حق میں کردیا جاتا ہے، فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے غیر منتخب قوتیں کر رہی ہیں، جس طرح 71 میں سیاسی مسئلے کو سیکورٹی کا مسئلہ باور کرایا گیا اسی طرح آج بھی سیاسی مسئلے کو سیکورٹی کا مسئلہ بنادیا گیا، کل اگر سیاسی رہنما غدار، قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور سیکورٹی رسک تھے تو آج بھی انہی الزامات کی جگالی کی جارہی ہے، سیاسی مسائل کو بات چیت، مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے طاقت کا بے جا استعمال کیا جارہا ہے، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے آج بھی محرومی کا احساس جنم لے رہا ہے، جو فضا ہموار کی گئی ہے اس کے باعث ملک کی سلامتی، بقا، خود مختاری اس کا نظریاتی اور جداگانہ تشخص بری طرح مجروح ہورہا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اربابِ اختیار اس سانحے کے اسباب و وجوہات پر غور کرنے اور اسے شعور سے گزارنے کے لیے تیار نہیں، بحیثیت مجموعی یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدرت انفرادی لغزش کو تو نظر انداز کردیتی ہے، مگر اجتماعی غفلت کا انجام ٹلتا نہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس سانحے سے سبق لینے کی ضرورت ہے، ان اقدمات سے گریز کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ملکی سلامتی خطرات سے دوچار ہوئی۔ ماضی میں جو غلطیاں کی گئیں انہی غلطیوں کا اعادہ کسی بھی طور دانش مندی نہیں، اب وقت آگیا ہے کہ مملکت ِ خداداد کی بقا اور سلامتی اور اس کے قیام کے حقیقی مقاصد کے حصول کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جائے اور عملاً ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے جمہوری اقدارو روایات کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے اور ملک میں حقیقی جمہوری اور اسلامی نظام کا قیام ممکن ہوسکے۔