October 13th, 2024 (1446ربيع الثاني9)

بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی

انجینئر سیداظفر شکیل
(ٹورنٹو- کینیڈا)

دسمبر کا مہینہ دردمند پاکستانیوں کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے خصوصاً ان کے لئے جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح سابقہ مشرقی پاکستان سے رہا ہے۔ دردمند کی اصطلاح اس لئے استعمال کرنی پڑی ہے کہ ایک طبقُہ آبادی اس سارے سانحے سے یا تو لاعلم ہے یا قصداً لا علم رہنا چاہتا ہے جو 51 سال قبل دسمبر میں پاکستان کو دو لخت کرگیا- جس پر بیتی ہے وہی جانتا ہے کس قیامت کے دن رات تھے اور پاکستان سے وفاداری کی کیا قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہر دکھ بھلا دینے کے لئے نہیں ہوتا کچھ دکھ آگے کی زندگی کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کو وجود میں آئے 51 سال کا عرصہ ہوا- نصف صدی پہلے یہ پاکستان کا مشرقی بازو تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ تاج برطانیہ کے زیر نگیں متحدہ ہندوستان میں تحریک آزادی کے نتیجے میں اگست 1947 میں انگریز ہندوستان چھوڑ گئے اور مذہب کی بنیاد پر دو الگ ملک وجود میں آئے، پاکستان اور ہندوستان۔ نو زائیدہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسا ملک تھا جس کے دونوں حصے ایک دوسرے سے ہزار میل کے فاصلے پر تھے اور درمیان میں ہندوستان تھا-بد قسمتی سے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے چند سالوں کے اندر ہی مشرقی پاکستان میں اپنے دوسرے بازو میں قائم مرکزی حکومت سے بے چینی اور بے اعتمادی کی تحاریک جنم لینے لگیں جس کی بنیادی وجوہات تھیں 1۔ زبان 2۔ ثقافت 3۔ استحصال۔ حکومت اور عوام میں خلیج بڑھتی گئی-بہت ساری انسانی جانوں کا زیاں ہوا- طویل اور تاریک تاریخ ہے جو محفوظ ہوگئی اس وقت ان تفاصیل کا ذکر مقصود نہیں- مگر اس سارے ہنگامے میں اردو بولنے والے غیر بنگالی افراد جو لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف مرکزی شہر ڈھاکہ بلکہ دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں کی آ بادی میں شامل تھے وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے غیظ و غضب کا شکار ہوگئے-نہ صرف 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ سے قبل قتل و غارت گری کا شکار ہوئے بلکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی انہیں چن چن کر نشانہ بنایا گیا-ان کا قصور یہ تھا کہ وہ متحدہ پاکستان پر یقین رکھتے تھے، پاکستانی فوجی ہتھیار ڈالنے کے بعد ہندوستانی فوج کی حفاظت میں آگئے اور ہندوستان لے جائے گئے-جنگی قیدیوں کی کل تعداد تقریبا” 90 ہزار تھی جس میں نصف تعداد فوجیوں کی تھی بقیہ ان کے لواحقین ، مغربی پاکستان سے آئے ہوئے سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے افسران اور ان کے اہل خانہ شامل تھے، مذکورہ افراد ہندوستان کی تحویل میں جنگی قیدیوں کی حیثیت میں تقریبا” دو سال اسیری کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے مابین ایک معاہدے کے تحت رہائی پا کر سرکاری طور پر پاکستان آ گئے اور یہاں پھر سے بس گئے۔جو اردو بولنے والے غیر بنگالی افراد بنگلہ دیش میں زندہ بچ گئے اور وہاں سے نکل نہیں پائے اُن کا تو سب کچھ ہی لُٹ گیا- نوکری گئی ، کاروبار گیا، مال و اسباب گیا حتی کہ ان کے گھر بھی ان سے چھین لئے گئے، ایسے میں ریڈ کراس کی عالمی تنظیم ان کی مدد کو آئی اور انہیں عارضی کیمپوں میں سر چھپانے کو جگہ ملی، یہ کیمپ بنگلہ دیش کے طول و عرض میں قائم ہوئے- ایک محدود اندازے کے مطابق اس وقت تقریبا’ تین سے چار لاکھ افراد ان کیمپوں میں پچھلے 50 سالوں سے انتہائی کسمپرسی اور غیر انسانی صورت حال میں زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں- بنگلہ دیش کی حکومت انہیں اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں – اُس کے نزدیک یہ اردو بولنے والے غیر بنگالی 1971 میں ہونے والے واقعات میں پاکستانی فوج کے سہولت کار تھے اور بنگلہ دیش کے مخالفین ہیں – انہیں عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق تو دے دیا گیا کیونکہ یہ سیاسی پارٹیوں کے ضرورت تھی مگر اُس کے علاوہ اُن کے کوئی حقوق نہیں۔ ان محصور پاکستانیوں کی پاکستان منتقلی اور آبادکاری کے لئے کئی بین القوامی تنظیمیں آگے بڑھیں خصوصا” رابطہ عالم اسلامی ٹرسٹ نے 1988 میں ایک فنڈ قائم کیا، حکومت پاکستان نے اس مد میں 25 کروڑ روپے کی خطیر رقم جمع کرائی جو آج بھی پاکستان کے ایک بینک میں موجود ہے اور ایک محدود اندازے کے مطابق اس وقت 2 بلین روپے سے زیادہ ہوچکی ہے- 1973 میں پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے دور میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں ایک سہ فریقی معاہدے کے تحت ایک لاکھ تہتر ہزار ( 173،000)محصورین کی پاکستان منتقلی عمل میں آئی پھر 1991 میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں رابطہ عالم اسلامی ٹرسٹ کی مدد سے تقریبا” ایک ہزار افراد کی پاکستان منتقلی اور آبادکاری ممکن ہوئی لیکن اُس کے بعد انسانیت پر سیاست کی مصلحت آڑے آگئی بعد کی پاکستانی حکومتوں نے آنکھیں پھیر لیں اور ان بدنصیب شہریوں پر اپنے ہی ملک کے دروازے بند کردیے گئے- اب صورت حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں محصور یہ پاکستانی کہیں کے نہ رہے -بنگلہ دیش انہیں اپنے شہری نہیں مانتا اور پاکستان اُن سے انجان بن گیا-یہ لوگ کہاں جائیں اب اُن کی تیسری نسل جوان ہورہی ہے جن کا کوئی مستقبل نہیں- کیمپوں میں بے حد ابتری کی حالت ہے ، نہ صرف یہ کہ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں بلکہ جان، مال اور آبرو بھی محفوظ نہیں- جن زمینوں پر یہ کیمپ قائم ہیں وہ زمینیں تو سونے کے مول ہو گئی ہیں مگر وہ ان کی ملکیت نہیں- ستم یہ کہ بااثر بلڈرز اپنے کارندوں کے ذریعے وہ زمینیں خالی کراکر ہتھیالینا چاہتے ہیں-اس ضمن میں سازش کے تحت آئے دن ان کیمپوں میں آتشزنی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں- یہ بے خانماں و بے یار و مددگار لوگ ہماری توجہ اور امداد کے مستحق ہیں- ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی بہبودی اور آبادکاری کے لئے آواز بلند کریں، اہل اقتدار کی توجہ مبذول کرائیں تاکہ پاکستان اور بنگلہ دیش مل کر اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل تلاش کریں