بنگلا دیش کی خون آشام وزیر اعظم حسینہ واجد اپنے باپ اور خاندان کے قتل کابدلہ لینے میں اندھی ہو چکی ہیں حالاں کہ شیخ مجیب اور ان کے تمام گھر والوں کا قتل بنگالی فوج کے افسران نے کیا تھا جن کو 1971ء کی خانہ جنگی میں لاکھوں افراد کے مارے جانے کا غم و غصہ تھا۔ لیکن حسینہ واجد اپنا سارا غصہ بنگلادیش کی سب سے بڑی مذہبی و سیاسی جماعت، جماعت اسلامی پر نکال رہی ہیں ۔ پہلے بھی نام نہاد انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے ذریعے جماعت اسلامی کے کئی انتہائی محترم رہنماؤں کو پھانسی دی جاچکی ہے اور اب اس ٹربیونل نے جماعت کے مزید 6رہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنا دی ہے۔ ان پر بھی یہی الزام ہے کہ انہوں نے 1971ء کی خانہ جنگی میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور لوٹ مار کے علاوہ کئی قتل بھی کیے۔ ان میں کتنے ہی رہنما ایسے تھے جو 1971ء کے بعد بنگلا دیش کی اسمبلیوں کے منتخب ارکان اور وزیر بھی رہے۔ اس سانحہ کو 46سال گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں کسی پر بھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ لیکن بات صرف الزام اورسزا کی نہیں بلکہ حسینہ واجد بنگلا دیش میں جو کچھ بھی کررہی ہیں اس کے پیچھے بھارت کی انتہا پسند حکومت ہے اور حسینہ واجد ان بھارئی انتہا پسندوں کی اسیر ہیں ۔ انہیں شاید یاد نہیں کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ڈھاکا میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ بنگلا دیش کسی مکتی باہنی نے نہیں بلکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را اور دیگر ایجنسیوں نے بنایا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں جو خون خرابہ ہوا وہ بھارت کا کیا دھرا تھا اور جن افراد کے قتل کا الزام جماعت اسلامی کے فرشتہ صفت ارکان پرلگایا جاتا ہے وہ درحقیقت را اور مکتی باہنی کے بھیس میں بھارتی فوج کی کارستانی تھی۔ اس کا اعتراف ایک بھارتی جرنیل شوبیگ سنگھ برسوں پہلے کرچکا ہے جو اندرا گاندھی کے آپریشن بلیو اسٹار میں گردوارہ دربار صاحب میں مارا گیا۔ لیکن حسینہ واجد یہ اعتراف کرنے کو تیار نہیں کہ یہ ساری سازش ان کے بھارتی مربیوں کی تھی اور بھارت نے بنگلا دیش اپنے لیے بنوایا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش بھارتی مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان تمام معاملات میں حکومت پاکستان کہاں ہے ؟ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان بنگلا دیش میں پھانسیوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائے اور وہ سہ فریقی معاہدہ عالمی عدالت میں پیش کرے جس میں مجیب الرحمن شریک تھا اور جس کے تحت 1971ء کی جنگ اور علیحدگی کے واقعات کی بنا پر کسی کو بھی سزا نہ دینے اور عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان یہ کہہ کر معاملات کو نظر انداز نہیں کرسکتی کہ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ بصورت دیگر اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ بنگلا دیش کی حکومت مشرقی پاکستان میں لڑنے والی پاک فوج کے افسران کو طلب کرلے۔ مشرقی پاکستان میں جن لوگوں نے بھی علیحدگی کی مزاحمت کی انہوں نے پاکستان کی محبت میں پاک فوج کا ساتھ دیا تھااور یہ فوج اب بالکل لاتعلق ہے۔