December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

ہے جرمِ ضعیفی کی سز امرگِ مفاجات

صائمہ تسمیر،
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ نجانے روہنگیا مسلمانوں سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوگیا جس کی وہ سزا کاٹ رہے ہیں۔۔۔ سزا بھی ایسی کہ دو صدیاں گزرجانے کے باوجود بجائے کم ہونے کے، ہر لمحے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اپنے گھروں میں رہیں تو ہر لمحہ خطرہ کہ کب برمی درندے حملہ آور ہوکر زندگی کا ٹمٹماتا چراغ گل کردیں، باہر نکلو تو برمی فوج کے تربیت یافتہ بدھسٹ غنڈوں کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ بدھسٹ جس مسلمان کو چاہتے ہیں زود وکوب کرکے قتل کردیتے ہیں، لوٹ مار، خواتین کی آبرو ریزی ان کا معمول ہے، پھر اپنے کارنامے بڑے فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں مگر انہیں عالمی میڈیا نہ شدت پسند گردانتا ہے نہ ہی دہشت گرد، شاید ان الفاظ کا استعمال صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اراکان کے قدرے پرامن شہروں میں ایسے بدھسٹ گروہ تعینات کیے گئے ہیں جو صرف اس بات کی نگرانی پر مامور ہیں کہ کہیں کوئی بدھسٹ اور مسلمان آپس میں لین دین تو نہیں کررہا، تمام بدھسٹ عوام کو مسلمانوں کا معاشی مقاطعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جارہی ہیں، اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ انسانیت کے خلاف بدترین جرم ہے کہ لوگوں کو اس طرح بھوکا مارا جائے کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوجائیں۔ ان حالات سے تنگ لوگ جب اپنے آشیانے چھوڑ کر پہاڑوں اور جنگلوں میں پناہ لیتے ہیں تو وہاں بھی انہیں سکون کا سانس لینے نہیں دیا جاتا، دریائے ناف کی جانب بڑھتے ہیں تو دریا کی بے رحم موجیں ان کا مقدر بنتی ہیں۔ کچھ خوش قسمت جان بچا کر بنگلا دیش پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہاں کے مصائب و آلام کی ایک الگ داستان ہے، گویا کہ ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں پہنچ جاتے ہیں۔ دربدری اور بھوک پیاس کے ستائے ہوئے جب پل بھر کے لیے سوتے ہیں تو جنگلی ہاتھی انہیں کچل جاتے ہیں گویا احتجاج کرتے ہیں کہ تم نے ہماری گزرگاہوں پر کیوں قبضہ جمالیا؟ کتنے ہی معصوم بچے اور بوڑھے ان جنگلی جانوروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ زمین ان پر تنگ کردی گئی ہے، یہ تمام صورت حال سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے تو بزبانِ اقبال جواب ملتا ہے کہ:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اقبال کا یہ شعر روہنگیا مسلمانوں کی موجودہ حالت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ جرمِ ضعیفی جیسا سنگین جرم جن قوموں سے سرزد ہوجایا کرتا ہے انہیں اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے جرمِ ضعیفی سے تائب ہوکر مضبوط بننا ہوگا، ورنہ ایسی ہی دربدری اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر بنتی ہیں۔
بحر و بر، زمین و فلک جیسے سب دشمنی پر اتر آئے ہیں، اطلاعات کے مطابق موسم کی خرابی کے باعث روہنگیا مہاجرین کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، جس میں اکثریت خواتین اور معصوم بچوں کی تھی، جو دریائے ناف پار کرکے بنگلا دیش پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رواں عشرے میں ہونے والا یہ تیسرا کشتی حادثہ ہے جس میں سیکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

دریائے ناف کے اس پار ساحل پر روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کئی روز سے اس آسرے پر بیٹھے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ انہیں دریا پار کروا دے، کیوں کہ وہ کشتی کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے، دریائے ناف تک پہنچتے پہنچتے وہ کنگال ہوچکے ہیں، وہ کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار بیٹھے ہیں، وقتاً فوقتاً ہونے والی طوفانی بارشوں سے معصوم بچے موت کی وادی میں گم ہورہے ہیں، گزشتہ دنوں پوری رات بارش ہوتی رہی وہاں موجود برمی فوجیوں سے ان لوگوں نے قریبی کسی جگہ پر جانے دینے کی درخواست کی تاکہ بارش سے بچا جاسکے لیکن ان ظالموں نے انکار کردیا، نتیجتاً وہ پوری رات بھیگتے رہے، صبح ہوئی تو پتا چلا کہ ایک درجن سے زائد بچے دنیا کی مصیبتوں سے آزاد ہوچکے تھے۔ وہ دھوپ میں تپتے اور بارش میں بھیگتے سسک سسک کر موت کی منہ میں جارہے ہیں۔
زمیں بھی دشمن، فلک بھی دشمن
زمانہ ہم سے ہوا ہے بدظن،
تم ہی محبت سے کام لے لو
نبی اکرمؐ شفیعِ اعظمؐ
دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے
کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو

بے بسی و بے کسی اور مظلومیت کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے، منگڈو ٹاؤن شپ کا مکمل صفایا کرنے کے بعد ہمارے آبائی علاقے بودتھی دونگ کو بھی صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ پے درپے انتہائی ہولناک خبریں موصول ہورہی ہیں، بنا کسی وقفے کے مسلسل مسلم آبادی، مساجد، تبلیغی مراکز اور مرکزی بازاروں کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے، تاکہ بچے کھچے لوگ بھی ہجرت کر جائیں۔ اپنا گھر بار، دھن دولت، اپنی مٹی چھوڑ جانا بہت مشکل ہوا کرتا ہے، میرے نبیؐ پر جب یہ مشکل گھڑی آئی تو میرے آقاؐ بھی بار بار مکے کی طرف دیکھتے ہوئے فرماتے کہ: ’’اے مکہ! اگر تیرے لوگوں نے میری زندگی مشکل نہ بنائی ہوتی تو میں تجھے ہرگز چھوڑ کر نہ جاتا!‘‘ (مفہوم)
آج میرے نبی کے یہ بدحال امتی بھی ایمان کی وجہ سے ستائے جارہے ہیں، اور یہ استقامت کے پہاڑ بنے اپنے ایمان کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ واللہ! یہ ایمان کا معجزہ ہے کہ ناقابلِ برداشت مصائب کے باوجود کسی ایک روہنگیا مسلمان نے اپنے ایمان کا سودا نہیں کیا، اپنی جان قربان کردینا گوارا کرلیا مگر اپنے ایمان پر آنچ نہ آنے دی۔ اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر نبی مہربانؐ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہجرت کی راہ اختیار کرلی، اپنے آرام کدوں، مال و دولت گھربار کو الوداع کہہ گئے مگر ایمان پر سودے بازی نہیں کی۔ ہمارے عزیز رشتہ دار بھی بالآخر ہجرت پر مجبور کردیے گئے ہیں، ان کے غمگین، دکھ بھرے صوتی پیغامات بے چین کردیتے ہیں، نجانے کیوں اپنے مسلمان بھائیوں خصوصاً اہلِ پاکستان سے آس لگائے بیٹھے ہیں، ہر دفعہ ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا کوئی ہمارے لیے کچھ کر رہا ہے؟ مگر افسوس ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے جھوٹی تسلیوں کے سوا کچھ نہیں ہے، ہم انہیں کیسے بتائیں کہ مسلم حکمران ابھی خوابِ غفلت سے بیدار نہیں ہوئے وہ اسی دن جاگیں گے جس دن یہ آگ ان کی دہلیز پر پہنچے گی، بے غیرتی اور بے حمیتی کی حد تو یہ ہے کہ لاکھوں کلمہ گو روہنگیا مسلمانوں کو خاک وخون میں تڑپا دینے والی قاتلہ آنگ سان سوچی کے آگے یہ مسلم حکمران بچھے چلے جاتے ہیں، برونائی میں اس خونیں عورت کا ریڈکارپٹڈ استقبال کیا جاتا ہے، یوں تمہارے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کی جاتی ہے، باقی بچے بے اختیار مسلم عوام۔۔۔ یہ احتجاج ریکارڈ کروا کر اپنا فرض پورا کرچکی انہیں اپنے کام دھندوں سے فرصت کہاں جو تمہارے غم میں ہلکان ہو، اب پوری دنیا سے لوگ ترس کھاتے ہوئے تمہیں کھانوں اور کپڑوں کی بھیک تو دینے آئیں گے مگر کوئی تمہیں تمہارا حق دلانے نہیں آئے گا کیوں کہ اس سطح پر بات کرتے ہوئے صاحبِ اختیار واقتدار حکمرانوں کے پر جلتے ہیں۔ اس لیے اپنے حق کے لیے خود اٹھنا سیکھو، قانونِ فطرت ہے کہ جو کمزور ہوتا ہے وہ کچلا جاتا ہے اس لیے اپنی روش بدلو، بہادر اور مضبوط بن کر اپنی قسمت بدل ڈالو!