December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

مظلوم روہنگیا مسلمان

حافظ محمد ادریس

روہنگیا کے بے بس اور مظلوم مسلمان آج پوری انسانیت سے شکایت کناں ہیں کہ اس کی انسانیت کہاں دفن ہوگئی ہے؟ بنیادی انسانی حقوق کے دعوے کرنے والے، کسی بلی اور کتے کے مرجانے پر سراپا احتجاج بن جانے والے اور انسانی حقوق کے چمپئن کہاں سو گئے ہیں؟ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کو اب نصف صدی ہونے کو ہے۔ اس وقت تو ظلم تمام حدوں کو پھلانگ گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر کوئی انتہائی سنگ دل ہی ہوگا، جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آگئے ہوں۔ ماؤں کی لاشوں کے پاس بیٹھے معصوم بچے بلک رہے ہیں، ان مظلوم و معصوم بچوں کی صدائیں عرشِ عظیم تک پہنچ رہی ہیں۔
اس المناک صورت حال پر ترکی کے صدر نے جو اعلان کیا ہے وہ ایمان اور غیرت کا عکاس ہے۔ انہوں نے کھل کر یہ کہا کہ اگر اقوام متحدہ اس ظلم پر خاموش رہی تو ہم تمام جغرافیائی حدوں کا انکار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ترک صدر کی کاوشوں کے نتیجے میں بنگلا دیش حکومت نے بالآخر ان مظلومین کے لیے اپنے ملک کے دروازے عارضی طور پر کھولے ہیں۔
ترک حکومت نے ان پناہ گزینوں کی کفالت کا ذمہ بھی لیا ہے جو ایثار و اخوت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ زندہ باد اردوان زندہ باد! ’’ایں کا راز تو آید و مرداں چنیں کنند‘‘
ایک دور وہ تھا کہ دیبل کے ساحل پر ایک مسلمان بچی کی آواز پر پورا عالم اسلام حرکت میں آگیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں محمد بن قاسم اپنی مسلم بہن کی پکار پر لبیک کہتا ہوا عالم عرب سے برصغیر ہند میں داخل ہوا۔ ظالم راجا داہر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور اپنی مظلوم بہن کی داد رسی کی۔ اس وقت ہم زندہ تھے، آج ہم مردوں کی طرح ہیں۔ بغداد کے دربار میں معتصم باللہ کو روم میں ایک مسلمان خاتون کے ساتھ ظلم و زیادتی کی داستان سنائی گئی، جس نے بے بسی کے عالم میں کہا تھا ہائے معتصم! تم کہاں ہو؟ تو معتصم باللہ تخت سے نیچے اترآیا، آنکھوں میں آنسو آگئے اور بے ساختہ زبان پر یہ نعرہ آیا لبیک یا اختی، اے میری بہن میں آرہا ہوں۔
معتصم باللہ عباسی حکمرانوں میں واحد حکمران تھا، جو بالکل ان پڑھ تھا۔ وہ فال گیری کا بھی قائل تھا۔ اس کے دربار میں موجود نجومیوں اور فال گیری کے دعوے داروں نے کہا کہ اے خلیفۂ وقت، یہ گھڑی اس مہم پر روانگی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ معتصم نے اسی وقت اعلان کیا کہ آج کے دن کے بعد کوئی نجومی اور فال گیر میرے دربار میں قدم نہ رکھے۔ ان سب کو دھکے دے کر نکالتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے: ’’وہ کون بے غیرت ہوگا، جس کی بہن اس کو مدد کے لیے پکار رہی ہو اور اسے کہا جائے کہ بیٹھ جاؤ یہ منحوس گھڑی ہے اور وہ بیٹھا ٹسوے بہاتا رہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی فوجوں کو تیاری کا حکم دیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ مسلمان راکھ کا ڈھیر نہیں ہیں۔ آج نہ محمد بن قاسم نظر آتا ہے، نہ معتصم باللہ۔ غنیمت ہے کہ ترکی کا صدر اس قبرستان کی خاموشی میں نعرۂ مردانہ بلند کرکے یہ ثابت کر دیتا ہے کہ راکھ میں بھی چنگاریاں موجود ہیں۔
ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہیں جنہوں نے بنوخزاعہ کے مظلومین کی پکار پر کہا تھا ’’اے بنو خزاعہ اگر میں تمہاری مدد کو نہ اٹھا تو اللہ میری مدد نہیں کرے گا۔‘‘ ان مظلومین کی داد رسی کے لیے نبئ رحمت ؐ مدینہ سے اپنے لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تھے اور مکہ سے کفر کا خاتمہ کرکے خانہ کعبہ پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ شام کے غسانی حکمران نے جب آپ کے ایلچی کو شہید کیا اور آپؐ تک خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’اے حارث بن عمیرؓ تمہیں ناحق قتل کیا گیا، تم میرا پیغام سلامتی لے کر گئے تھے، تمہارے خون کا بدلہ لینا میری اور اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے۔‘‘ اسی کے نتیجے میں آپؐ نے سیدنا زید بن حارثہؓ، جعفر بن ابی طالبؓ اور سیدنا عبداللہ بن رواحہؓ کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر روانہ فرمایا۔ موتہ کے مقام پر تاریخی جنگ کا سبب یہی خون ناحق تھا۔ ایک بے گناہ مسلمان کے خون کا بدلہ لیا گیا اور رومی و شامی فوجوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اُمت مسلمہ کو حکم دیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔ جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔‘‘ (النساء۴:۷۵،۷۶)
اسلام ظلم کی نفی کرتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان بھی کسی غیر مسلم پر ظلم ڈھائے تو اسلام مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوگا، ظالم کے ساتھ نہیں۔ جب مسلمانوں کو ہر جانب سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور بالخصوص روہنگیا کے بے بس مسلمانوں پر تو زمین تنگ کر دی گئی ہے،
تو سوال یہ ہے کہ ایسے میں کیوں نہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ مسلمان ملکوں کو سفارتی، معاشرتی، معاشی اور عسکری ہر محاذ پر ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔ پوری دنیا کی آبادی خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم پر واضح کر دینا چاہیے کہ ہم ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں، اس وجہ سے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ موقف کسی تعصب کی بنیاد پر نہیں، بلکہ خالص انسانی بنیادوں پر ہے۔ اقوام متحدہ میں اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اس موقف پر کھڑے ہوجائیں تو اس ظلم کا خاتمہ ممکن ہے۔
قرآن آج بھی پکار کر کہہ رہا ہے ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم ظالم کے مقابلے پر مظلوم کی داد رسی کے لیے نہیں اٹھتے۔‘‘ اے کاش ہم اللہ کی اس پکار پر اپنے ایمان کی روشنی میں غور کریں اور عملی طور پر لبیک کہیں۔