ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے ارد گرد بوسنیا اور چیچنیا کے مسلمانوں کے اوپر ہونے والے مظالم کی داستانیں سنتے تھے وہ نوے کی دہائی کے اوائل کے دن تھے خبروں اور تشہیر کے ذرائع کے لئے ملکی اور غیر ملکی اخبارات کا سہارا لیا جاتا تھا اور الیکٹرانک میڈیا کا ذریعہ صرف پی ٹی وی تھا زیادہ سے زیادہ خبروں کا بڑا ذریعہ بی بی سی ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں بھی آج کے ہی دور کی طرح امت پر ہر طرف سے ظلم کا بازار گرم تھا۔ وہ سفید روئی کے گالوں جیسے بوسنیائی بچے جن کے جسم پر گولیوں کے نشان اور انُ سے بننے والے سوراخ ان کے نیلے ہونٹ اور بند آنکھوں میں بھی کئ سوال ۔۔۔ سرب افواج کی جانب سے مظالم کے کون سے پہاڑ نہ توڑے گئے اس قوم کے اوپر، اجتماعی قبروں کا ایسا سلسلہ جو آج سےچند سال پہلے تک جاری تھا۔ انہی دنوں ۱۹۹۲ کے آخر کے دن تھے جب ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔ اس سے چند برس بعد کی ہی بات ہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں ہندو مسلم فسادات کے نام پر مسمانوں کے اوپر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ آنکھ بھر کہ ان مناظر کو دیکھا نہ جا سکے۔ کشمیر ہو یا فلسطین، عراق میں گوانتا نامو جیل کے مناظر ہوں یا افغانستان کے شہروں اور دیہاتوں پر طاقتور ترین بموں کی بمباری ظلم اور فسطائیت کی ہر نئی کہانی پرانی داستانوں کو شرمائے دیتی ہیں۔ ہلاکو خان اور چنگیزیت کی راہ پر چلنے والے تو آج بھی زندہ ہیں اور ہر بار وحشت و بربریت کی نئی داستانیں رقم کرتے ہیں۔ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے آج برما کے مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے چلے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی خبروں اور تصاویر نے ہر ذی روح انسان کے دل کو مسل کہ رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں ہر حساس دل شخص سوال کر رہا ہے کہ ہم کیا کریں؟ ہم کیا کر سکتے ہیں اپنے ان بے بس مسلمان بھائیوں کے لئے۔ دلوں میں ان سوالات کا اٹھنا اور دل میں امت کا درد محسوس کرنا سب سے پہلے تو یہ پیغام دیتا ہے کہ آپ الحمدللہ کم از کم ایمان کے آخری درجے پہ موجود ہیں۔ یہ سوال کہ ہم کیا کریں اپنے مظلوم بہن بھائیوں کے لئے اس سے پہلے ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے ذہنوں میں کہ امت کا یہ حال کیوں کر ہوا؟ اس سوال کا فوری جواب یہ ہرگز نہیں ہے کہ یہ سب مسلم حکمرانوں کی بزدلی کا نتیجہ ہے اور او آئی سی کی خاموشی اس کی وجہ ہے ان سب سے پہلے ایک سوال ہمارا اپنے آپ سے بھی ہونا چاہئے کہ مسلمان عوام اپنے حکمرانوں کے چناؤ کے وقت شاید یہ بھول جاتی ہیں کہ انہیں اپنے لئے کسی بزدل حکمران کا انتخاب نہیں کرنا بلکہ ایک ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو امت کی نگہبانی کرے اس کی ترجمانی کا حق ادا کرے پاسبانی امت کا کام کرنے والے رہبرو رہنما کا انتخاب کریں گے تو اس تکلیف سے گزرنا نہیں پڑے گا جس غم سے آج امت دوچار ہے اور وقت کے فرعونوں کا ڈٹ کے مقابلہ کر سکیں گے۔
اب آئیے اپنے غم کا کچھ مداوا کریں اپنے دکھی، مضطرب دل کو ڈھارس بندھائیں کہ دِل مضطرب کو قرار ہی جب آتا ہے جب یہ خود دکھی دلوں کی ڈھارس بندھاتا ہے، زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کہ مظلوم و بے کسوں کی آواز بن جاتاہے۔
آئیے ایک دفعہ پھر سے تاریخ کے اوراق الٹتے ہیں۔ یہ ۷۱۲ء جون ہے جب محمد بن قاسم نے سندھ کے حکمران راجہ داہر کے ظلم سے ستائی ایک مظلوم لڑکی کی فریاد سن کر اس کی داد رسی کی اور سندھ کو فتح کرلیا۔ واضح رہے کہ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو مقامی باشندوں کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار تھی، جو ان کے اخلاق اور رحمدلی سے مانوس ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئی مظلوموں کی داد رسی کا یہ واقعہ ملت اسلامیہ کے سنہری دور کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہونے لگا تو اس ظلم کےخلاف آواز اٹھانے والے کوئی اور نہیں بر صغیر کے مولانا شوکت اور مولانا محمد علی جوہر ہی تھے پس ثابت ہوا کہ شرق و غرب میں مسلم امہ پر کہیں بھی ظلم ہوا تو اس کے لئے آواز اٹھانے والے زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانا فرض کفایہ نہیں فرض عین ہے۔ آئیے آج اپنی مظلوم اور بے کس امت کے حق میں آواز اٹھائیں اور ایمان کے آخری درجے سے دوسرے درجے کی جانب ہجرت کرجائیں۔ ہم جانتے ہیں نہ کہ ایمان کا آخری درجہ صرف دل میں برا جاننا ہے اور ایمان کا دوسرا درجہ زبان سے برا کہنا اور ایمان کا سب سے برتر درجہ ہاتھ سے برائی کو روکنا ہے میرے اور آپ کے لئے ایمان کے پہلے درجے پرآنا شاید ممکن نہیں لیکن ایمان کے دوسرے درجے پر آنا ہر طرح سے ممکن ہے۔ سب سے پہلے برما کے بےبس امتیوں کے لئے انفرادی دعائیں کریں رب تعالیٰ سے مدد طلب کریں۔ اس وقت برما سے نکلنے والے مہاجرین کی مالی امداد کے ذریعے ہم ان کے دکھوں کا مداوا کرسکتے ہیں، خود بھی یہ کام کریں اور آگے بڑھ کے دوسرے لوگوں کو بھی اس کام میں شامل کریں، برمی سفارت خانے میں رابطہ کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور سب سے بڑھ کے میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں ہونے والے احتجاج میں شامل ہونے کے لئے گھروں سے نکلیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ اس امت کے حکمران بے حس ہوں گے لیکن یہ امت آج بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ہے۔
ساتھیوں ایمان اور آزمائش ساتھ ساتھ رہتی ہیں کہیں کسی کی آزمائش ہو تو وہ جان لے کہ رب انہیں سر خرو کر رہا ہے اور کہیں ہمارا رب ہمیں ہمارے نرم بچھونوں اور ٹھنڈے گھروں میں بٹھا کہ آزما رہا ہے لیکن ہمیں اس آزمائش میں سرخرو ہونا ہے، کیونکہ ایماں کی حرارت بہرحال بڑھنی چاہئے اسے گھٹنے نہیں دینا۔ میانمار کے مسلمانوں پر آزمائش کے یہ دن آخرت میں ہماری فلاح کے ضامن بھی بن سکتے ہیں ،چھوٹی سی وہ کوشش جو ان مظلوموں کے حق کے لئے کریں گے ہمارےلئے آخرت میں بڑا سامان کردے گی۔