December 30th, 2024 (1446جمادى الثانية28)

شمالی کوریا اور برما ۔۔۔ عالمی برادری کا تضاد

شمالی کوریا نے ایٹم بم سے زیادہ طاقتور ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا جس کے فوراً بعد امریکا کی سرکردگی میں ساری دنیا کو تشویش لاحق ہوگئی۔ ہونا بھی چاہیے۔۔۔ آخر اتنا طاقتور بم کس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس بم کے تجربے کی خبر آنے کے 24گھنٹے کے اندر اندر بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا، اجلاس کا ایجنڈا شمالی کوریا کی مذمت اس پر پابندیاں اور ’’کوئی کارروائی‘‘ ہے۔ یہ کارروائی کون کرے گا یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کو بدمعاش ریاست قرار دے دیا ہے اور سخت نتائج کے لیے تیار رہنے کا انتباہ بھی۔ شمالی کوریا ،جنوبی کوریا اور اس کے سرپرستوں کی وجہ سے مسلسل فوجی تیاریوں اور ہتھیاروں کی نمائش میں مصروف ہے۔ اس سارے عمل میں اقوام متحدہ، امریکا اور شمالی کوریا کی مذمت کرنے والے ممالک کے دو چہرے سامنے آرہے ہیں۔شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا اور اس کے چند گھنٹے کے اندر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا لیکن یہی ممالک اس وقت سے اب تک سو رہے ہیں جب امریکا نے افغانستان میں بموں کی ماں کے نام سے بہت بڑا بم مارا تھا۔ اس کے لیے افغانستان تجربہ گاہ کے طور پر استعمال ہوا اس بم سے کئی کلو میٹر کا علاقہ جل کر راکھ ہوگیا وہاں کی تباہی سے دنیا کو بے خبر رکھا گیا پاکستان سمیت تمام ممالک ایسے خاموش رہے جیسے کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔ شمالی کوریا کے خلاف بیان دینے میں پاکستانی حکومت کی چستی بھی دیدنی ہے۔ شمالی کوریا کی ساری تیاریاں جنوبی کوریا کے خلاف ہیں یا کسی طرح امریکا کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ۔ پاکستان اس پر تو فوری ردعمل دے رہا ہے لیکن اپنے پڑوس میں بم حملے پر اب تک کیوں خاموش رہا۔ افغانستان میں مارے جانے والے بم کی تباہ کاریوں کا براہ راست اثر پاکستان پڑا۔ پشاور میں اس دھماکے کے اثرات محسوس کیے گئے۔ تابکاری کا تو کوئی جائزہ ہی نہیں لے رہا ہے اور جو لے رہے ہیں وہ صرف اس لیے جائزہ لے رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ جو بم ہم نے مارا وہ کس حد تک تباہی پھیلاتا ہے تاکہ آئندہ کسی ملک کے خلاف یہ بم استعمال کرتے ہوئے اس کی طاقت کے مطابق علاقہ منتخب کیاجائے۔کیا صرف شمالی کوریا کے ہتھیار تباہی پھیلاتے ہیں ۔ یہ سوال اقوام متحدہ اور شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کرنے کے حامی ممالک سے کیا جانا چاہیے جن کو صرف وہی ممالک بدمعاش ممالک نظر آتے ہیں جن کو امریکا بدمعاش قرار دیتا ہے۔ شمالی کوریا کی بدمعاشی یہ ہے کہ اس نے ایک خطرناک بم کا تجربہ کیا ہے جو میزائل کے ذریعے دوسرے براعظم تک مار کرسکتا ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ یہ نہایت خطرناک عمل ہے اس سے کی روک تھام کی جانی چاہیے اور ایسے اسباب ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو شمالی کوریا کو اس طرح کا بم استعمال کرنے پر مجبور کریں۔ لیکن ذرا اس امر کا جائزہ تو لیا جائے کہ شمالی کوریا کے مبینہ بم سے کتنی انسانی ہلاکتیں ہوسکتی ہیں اور امریکا افغانستان اور عراق میں اس سے کہیں زیادہ انسانی جانیں اپنے معمول کے روایتی ہتھیاروں اور کیمیکل ہتھیاروں سے لے چکا ہے۔ افغان جنگ کے دوران ڈیزی کٹر بم امریکا نے ہی استعمال کیے تھے۔ آج کل شام میں امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور ان کے اتحادی صرف عوام اور شام کی اہم عمارتوں اور فیکٹریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں ہزاروں لوگ یہاں بھی شہید ہوچکے ہیں۔فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مظالم ہوں یا کشمیر میں بھارت کے مظالم کسی کو ان ممالک کے اقدامات بدمعاش ریاست والے نہیں لگتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی امکانات پر تو شمالی کوریا کی بدمعاشی نظر آرہی ہے کہ اس کے بم سے تباہی کے امکانات ہیں لیکن خود امریکا نے کتنی تباہی مچا رکھی ہے یہ کسی کو کیوں نظر نہیں آتا ؟ کسی ملک کے سربراہ کی جانب سے دوسرے ملک کو آگ اور خون کے کھیل کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دینا ، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ، ڈونلڈ ڈک کی طرح کی کارٹون فلموں والے ڈائیلاگ بول کر بھی بدمعاش قرار نہیں پاتے۔ دنیا میں لاکھوں انسانوں کو قتل کر کے بھی امریکا بدمعاش ریاست قرار نہیں پاتا۔ ایٹم بم سے لاکھوں لوگوں کو امریکا نے قتل کیا تین نسلیں معذور پیدا ہوئیں۔ افغانستان میں تباہ کن ہتھیار استعمال کیے سب سے بڑا بم مارا، کیمیکل ہتھیار استعمال کیے انسانوں پر غیر انسانی مظالم کیے پھر بھی بدمعاش نہیں ٹھہرا۔ تو پھر شمالی کوریا ہی کیوں ؟ اس صورت حال کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ برما کی نسل پرست حکومت کی سرپرستی میں برمی فوج مسلمانوں کو ذبح کررہی ہے ان کی بستیاں بلڈوز کررہی ہے ان کو ہر طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے کسی ملک کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مسلمان ممالک محض مذمت کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔کیا برما اتنی بڑی طاقت ہے کہ پاکستان، سعودی عرب اور ترکی مل کر اس کا دماغ ٹھکانے نہیں لگا سکتے۔ جتنے لوگ شمالی کوریا کے مبینہ بم سے ممکنہ طور پر مارے جاسکتے ہیں اس سے کہیں زیادہ تو عراق، فلسطین، کشمیر، شام اور برما میں مارے جاچکے ہیں۔ یہ اسلامی ممالک محض مذمتیں کر کے اپنا حق ادا نہیں کرسکتے۔ ان کو مشترکہ طورپر کوئی جواب دینا چاہیے اور اگر اقوام متحدہ دنیا بھر میں مظلوموں خصوصاً مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تو پھر مسلمان ممالک کو اختیار ہے کہ ملکوں کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے خود جا کر نہ صرف مظلوموں کی مدد کریں بلکہ اگر کوئی مزاحمت کرے تو اس کا دماغ بھی ٹھکانے لگایا جائے۔ مسئلہ اصولوں کا نہیں ہے کہ شمالی کور یا کے لیے ایک اصول اور دوسرے بدمعاشوں کے لیے دوسرا اصول ، بلکہ کوئی اصول ہی نہیں، مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہے۔ برما میں مسلمانوں کے خلاف مظالم کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے لیکن اب امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی کی حکومت میں تمام حدود پامال کردی گئی ہیں۔ انسانیت سسک رہی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شمالی کوریا کے مبینہ بم کے ممکنہ نقصانات پر اجلاس بلا رہی ہے ایسی سلامتی کونسل کس کی سلامتی کے لیے کام کررہی ہے۔