اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
انھی میں ایک اہم مسئلہ ’راستے کے حقوق‘ کا ہے ۔کوئی شخص راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگرراستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جاسکتا ہے ۔راستے کے حقوق کیاہیں؟ شریعت نے کن امور کی نشان دہی کی ہے؟ کن امور کا خیال رکھنا اور کن کاموں سے بازرہنے کی اس نے تلقین کی ہے تاکہ ہر کسی کی زندگی اچھے طریقے سے گزرے؟ ان سوالوں کا جواب اس تحریر میں پیش ہے۔
راستے سے مراد صرف گلی یا سڑک کاراستہ نہیں، بلکہ اس کے مختلف مفاہیم ہیں، مثلاً: *کسی محلے/سوسائٹی میں جانے والا راستہ *کسی تعلیمی/کاروباری ادارے میں مختلف کلاسوں یا دفاتر میں جانے والا راستہ * شاہراہیں (موٹر ویز اور عمومی پگڈنڈیاں بھی)۔
ان راستوں کے کچھ حقوق ایک جیسے ہیں اور کچھ متفرق ہیں۔ ان تمام میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگوں کی مشترکہ گزرگاہ ہو، اس پر کسی کی خاص ملکیت نہ ہو۔
راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں‘‘۔رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘۔صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے ؟‘‘فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو،تکلیف دہ چیز کو دُور کرو،سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو‘‘۔(بخاری، ۲۴۶۵)
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریمؐ نے راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو پھر چند امور کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔واضح رہے کہ راستوں پر بیٹھنے سے مراد دکانوں ،ہوٹلوں ،مساجد کے باہر،گلی کے کونے میں کھڑے ہو نا اور اسی طرح بیچ راستے میں گاڑی روک کر بات چیت کرنا یا کسی کا انتظار کرنا بھی، اس میں شامل ہے ۔
آج کل ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں تو اخلاق کا خیال رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ؟اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکان داروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔ وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے یا دکانوں کے آگے کرسیاں لگا کر بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو، اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کا اثر نہ پڑے۔
وہ امور جن کا خیال رکھنا ضروری ہے:
نظروں کی حفاظت:
راستے کا سب سے پہلاحق ہے کہ وہاں بیٹھنے والا اپنی نظروں کی حفاظت کرے ۔کیوں کہ وہاں سے گزرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس لیے آدمی وہاں بیٹھ کر ہرکسی کو گھورتا نہ رہے، خاص طور پر خواتین کو۔ ایک تو اس لیے کہ یہ شریعت کے منافی ہے، دوسرے یہ کہ اس میں اخلاقی قباحت بھی ہے ۔حضرت جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑجانے کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریمؐ نے مجھے حکم دیا کہ: ’’میں اپنی نگاہ پھیر لوں‘‘۔(مسلم، ۲۱۵۹)
اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو باہر راستے پر جارہے ہوں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو کسی کاروباری ادارے میں کام کرتے ہیں یا کسی کام کے سلسلے میں ان کا وہاں جانا ہوتا ہے۔ اور اسی طرح وہ لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں جو کسی مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا واسطہ نامحرم سے پڑتا ہے۔
تکلیف دہ اشیا ہٹانا:
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں یا فرمایا: ساٹھ اور کچھ شعبے ہیں ،پس اس میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دُور کرنا ہے، اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔(مسلم)
یعنی ’ایمان‘ دراصل اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دُور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا ،کوئی اینٹ کا ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔
رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا‘‘۔(بخاری، ۲۴۷۲)
اس شخص کواللہ تعالیٰ نے اس لیے معاف کر دیا کہ اس کے فعل کا فائدہ دوسروں کو پہنچ رہا تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کردیا ۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں: رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے‘‘۔پھر فرمایا:اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانابھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)
’تکلیف دینے والی‘ وہ تمام چیزیں ہیں، جو وہاں سے گزر نے والوں کے لیے تکلیف دینے کا سبب بنیں۔ان میں بے سبب بیریئر لگانا بھی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح کے بیرئیر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ جنت کا مستحق بھی ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ایک شخص نے راستے سے کانٹا ہٹایا جس نے کبھی نیک کام نہیں کیا تھا ،یا راستے میں [رکاوٹ بننے والا] درخت تھا جسے اس نے کاٹ کراکھاڑ دیا،یا وہ درخت راستے میں گرا ہوا تھا، اس نے ایک طرف کر دیا، پس اس کے اس عمل کی اللہ نے قدر دانی کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)
راستے میں تکلیف کی باعث چیزیں
حدیث کے الفاظ کَفُّ الْاَذَیٰ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دینا شامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے ۔جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
پروگرامات کا انعقاد:
قناتیں لگا کر راستہ بند کرنا بھی تکلیف دینے میں شامل ہے۔ البتہ ایسی جگہ پر قنات/شامیانا لگانا جہاں لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہوتو اس کی گنجایش ہوسکتی ہے۔ اس میں ہر طرح کے پروگرامات شامل ہیں، چاہے وہ شادیاں ہوں یا مذہبی نوعیت کے پروگرامات۔ اگر اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو راستہ بند کرکے ان پروگرامات کا انعقاد شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ کام ہے ۔
نظروں سے تکلیف دینا :
تکلیف دینے میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کوئی شخص وہاں سے سامان لے کر گزر رہا ہو اور راستے میں بیٹھا شخص اس کے سامان پر نظریں جما کر بیٹھ جائے، تانک جھانک کرے کہ یہ کیا لے کر جا رہا ہے ۔
کھانے کی چیزیں راستے میں ڈالنا:
تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانے سے مراد کیلے کے چھلکے بیچ راستے میں نہ پھینکے جائیں، پانی اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں راستے میں نہ پھینکی جائیں اوراسی طرح کی جو چیزیں تکلیف دینے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کیا جائے ۔
راستے میں کھدائی کرنا :
یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ بیچ راستے میں کوئی شخص اپنے مقصد کے لیے گڑھا وغیرہ کھودے اور پھر اس کو صحیح طریقے سے ہموار کرکے بند نہ کرے ۔اس میں انفرادی طور پر بھی لوگ شامل ہیں اور ادارے بھی۔ کیوں کہ کچھ ادارے، مثلاً واپڈا ،سوئی گیس، ٹیلی فون وغیرہ کے ادارے اپنے صارفین کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے سڑکوں کی کھدائی کردیتے ہیں مگر پھر صحیح طور پر اسے بند نہیں کرتے ۔لہٰذا، انھیں چاہیے کہ سہولت مہیا کرنے کے بعد انھیں اذیت میں مبتلا نہ کریں بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر بند کریں ۔
پانی کی ٹنکی بنانا / رکھنا:
آج کل راستوں میں مسافروں کے لیے جگہ جگہ پانی کی ٹنکیاں رکھی جاتی ہیں، جو ایک اچھی سوچ اور قابلِ اجر کام ہے۔لیکن اس میں بھی اس بات کا خیال رکھنابے حدضروری ہے کہ یہ کسی ایسی جگہ پر نہ ہوں کہ ان کی وجہ سے راستے میں کیچڑ ہو اور وہاں سے گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس دوران اسے پیاس لگی تو وہاں اس نے ایک کنواں پایا۔ پس وہ اس میں اُترا اور سیراب ہو کر باہر نکلا تو اس نے وہاں ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی اتنی ہی پیاس لگی ہے جتنی تھوڑی دیر قبل مجھے لگی تھی۔ پس وہ کنویں میں اترا اور اپنا موزہ پانی سے بھرا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اس کی بخشش فرما دی‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! کیا جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے ؟آپؐ نے فرمایا: ہرذی روح جگر والے میں اجر ہے ۔(بخاری، ۲۴۶۶)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کا عنوان بَابٌ فِی الْآبَارِ عَلَی الطُّرُقِ اِذَا لَمْ یَتَأَذَّ بِہَا باندھا ہے،یعنی راستے میں کنواں بنانے کاحکم، جب اس سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ پانی پلانابڑے اجر وثواب کا کام ہے اور ایک ایسا کام ہے کہ اگر کسی جانور کی بھی پیاس بجھائی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھی قدر کرتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔نہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہو اور نہ راستے میں کیچڑ اور گندگی وغیرہ پیدا ہو ۔
اوور ٹیکنگ(overtaking):
گاڑی چلاتے وقت بے ڈھنگے انداز میں اور ٹیکنگ کرکے کسی کو پریشانی میں مبتلا کرنا بھی تکلیف دینا ہے۔ البتہ اگر او رٹیکنگ کے قواعد کا لحاظ رکھا جائے اور جہاں قانون اجازت دے تو پھر وہاں اس کی ممانعت نہیں ہے،مثلاً جب تک آپ محفوظ طریقے سے ایسا نہ کرسکتے ہوں اور ٹیک نہ کریں ۔آئینوں کا استعمال کیجیے اور باہر کی طرف نکلنے سے پہلے اشارہ جلائیں ۔رات اور کم روشنی کے وقت جب گاڑیوں کی رفتار اور فاصلے کا اندازہ مشکل ہوتا ہے اور ٹیک کرنے کے وقت زیادہ احتیاط کریں۔(شاہراہوں اور موٹر وے کا ضابطہ، محمدزکریا ساجد، ص ۳۳)
اشارے کی خلاف ورزی:
اس میں دوسری طرف سے آنے والی سواری پریشانی میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ایسے چوک پر جہاں ٹریفک اشاروں سے کنٹرول کی جاتی ہے ۔وہاں سرخ بتی جلنے پر لازم ہے کہ آپ سڑک کے آرپار بنائی گئی سفید رکنے والی لکیر کے پیچھے سڑک پر سبز بتی کے جلنے تک کھڑے رہیں(ایضاً، ص ۳۷)۔اسی طرح دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی وجہ سے راہ گزرتے مسافر پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے اور سامنے کچھ نظر بھی نہیں آتا۔ اس لیے یہ چیز بھی ممنوع ہے ۔
ہارن اور آلاتِ موسیقی کا استعمال :
اسی طرح کَفُّ الْاَذَیٰ میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کسی نے اپنی گاڑی میں تیز آواز والا پریشر ہارن لگوایا ہو اور اسے بجاتا ہواگزرے یا بغیر سائلنسر والی گاڑی میں سوار ی کرے جس کی آوازکی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہواوراسی طرح تیز آواز میں گاڑی کا ساؤنڈ چلائے ۔اس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے : جب آپ کی گاڑی چل رہی ہو تو ہارن کا صرف اس وقت استعمال کریں جب آپ دیگر سڑک استعمال کرنے والوں کو اپنی موجودگی کے بارے میں متنبہ کرنا چاہتے ہوں، اور کبھی بھی ہارن کو غصے میں نہ بجائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور باربرداری والی گاڑیوں میں آلاتِ موسیقی، مثلاً ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ یا مونو گرام وغیرہ کا استعمال ممنوع ہے۔ (ایضاً، ص ۴۹)
یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس میں صرف لہو و لعب کی موسیقی منع نہیں ہے بلکہ تیز آواز میں تلاوت یا نعت وغیرہ بھی سننا منع ہے۔ کیوں کہ اس سے بھی لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کام میں مصروف ہو ،کوئی بیمار ہو یا کوئی نماز پڑھ رہا ہو توان کے ان کاموں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
غلط پارکنگ:
گاڑی کو غلط جگہ پر کھڑا کرنا بھی کسی کو ایذا دینے میں آتا ہے ۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص کسی غلط جگہ گاڑی پارک کرتا ہے تو بعد میں وہاں گاڑی پارک کرنے والے اس کی پیروی کرتے ہوئے گاڑی پارک کرتے ہیں اور گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور آمدورفت میں پریشانی بھی ہوتی ہے۔حتیٰ کہ جہاں گاڑی پارک کرنا ممنوع ہوتا ہے، وہاں پہ بھی گاڑی پارک کرنے سے لوگ نہیں چوکتے اور قانون کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ شریعت کی نگا ہ میں ناپسندیدہ عمل ہے کہ انتظامی اور عوام کی بھلائی کے لیے کوئی قانون بنایاجائے اور اس کی خلاف ورزی کرکے عوام کو پریشانی میں مبتلا کیا جائے ۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو غلط پارکنگ سے روکیں الٹا وہ خود پبلک ٹرانسپورٹ چلانے والوں کی غلط مقامات پر کھڑے ہونے کی سرپرستی کر رہے ہوتے ہیں۔لہٰذا ٹریفک پولیس کے ادارے کو بھی اس کا جائزہ لینا چاہیے اور سختی سے اس کو روکنا چاہیے تاکہ لوگ اس ادارے پر اعتماد کر سکیں اور ان کے بنائے ہوئے قوانین پر بخوشی عمل کریں۔
جارحانہ انداز میں گاڑی چلانا:
جارحانہ انداز میں ڈرائیونگ نہ کریں ۔اگر کوئی دوسرا ڈرائیور مسئلہ پیدا کر رہا ہو تو درگزر کریں اور اس سے نہ الجھیں ۔اگر آپ کو غصہ آجائے تو گاڑی کھڑی کر لیں اور دل ودماغ کو پُر سکون ہونے دیں ۔ رہایشی علاقوں کی تنگ سڑکوں جن پر گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں عموماً آپ کو ۳۰کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھنا نہیں چاہیے۔(ایضاً، ص ۹۶)
زمین کی حدود سے بڑھ کر قبضہ کرنا:
اپنے گھر کی حدود سے بڑھ کر زمین پر قبضہ کرنا ،دکان کے آگے قبضہ کرنا، یا راستے میں کوئی چیز بیچنے کے لیے کھڑے ہوجانا، یہ تمام چیزیں اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور سڑک پر آمدو رفت اور ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ دکان دار اپنی دکان کے آگے کسی اور کو اپنا سامان بیچنے کے لیے کھڑا کردیتے ہیں اور پھر اس سے پیسے بھی لیتے ہیں۔ یہ عمل تو اور زیادہ قبیح ہے۔ اس لیے کہ ایک توایسی زمین پر قبضہ کیا جو اس کی ملکیت نہیں تھی اور پھر برائی کی سرپرستی کی کہ راستہ تنگ ہوگیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ پیسے بھی وصول کیے جو اس کا حق نہیں تھا ۔یہ صرف انفرادی سطح کی بات نہیں ہے بلکہ آئے روز خبریں آتی ہیں کہ فلاں علاقے کی پولیس یا کوئی بڑا افسر ان ناجائز کاموں کی سرپرستی کررہا ہے ۔لہٰذا انفرادی اور اجتماعی/اداراتی سطح پر اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
پرنالہ سڑک پر گرانا:
راستے کے تکلیف دہ امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اپنے گھر کا پرنالہ باہر سڑک پر گرائیں۔ اس کی وجہ سے سڑک پر پانی اور پھر کیچڑ جمع ہوتا ہے اور لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ چیزبھی ممنوع ہے ۔اسی طرح گھر کا صحن یا گلی دھو کر پانی سڑک یا گلی میں بہادینا ،جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو، یہ بھی مناسب نہیں۔
یہ تمام چیزیں صرف اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے۔غرض یہ کہ راستے میں کسی کوآپ کے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے یہ شریعت کا مطالبہ ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین وہ ہے جو انھیں فائدہ پہنچا نے والا ہو‘‘(مسندالشہاب، ۱۲۳۴)۔لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ پہنچے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان یا پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی بات کو لے کر حضرت ابوذرؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا تھا: یارسولؐ اللہ! آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں کوئی بھلائی کا کام کرنے سے عاجز آجا ؤں؟آپؐ نے فرمایا: اپنے شر سے لوگوں کو بچائے رکھو، پس یہ تمھاری طرف سے تمھارے نفس پر صدقہ ہے۔(مسلم، ۱۱۹)
وہ شخص جو لوگوں کے لیے مصیبت کا باعث بنتا ہے اور اس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں تو قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اس کا سب سے بد ترین درجہ ہو گا ۔ اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ کے رویے کی وجہ سے لوگ آپ کی گلی سے گزرنا چھوڑ دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بد ترین شخص وہ ہوگا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں‘‘۔(سنن ابوداؤد، ۴۷۹۱)
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کے قول وفعل یا کسی بھی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو یا روحانی،وقتی ہو یا دائمی،بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ ہمیشہ آپ کی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچے۔
ایک موقعے پرکچھ لوگ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان سے فرمایا :کیا میں تم میں سے بد ترین اور بہترین شخص کا نام بتاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر وہ لوگ خاموش رہے۔آپؐ نے تین مرتبہ یہ بات پوچھی تو ایک شخص نے کہا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! ہم میں سے بد ترین لوگوں میں سے بہترین اشخاص کی نشان دہی فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے، جس سے بھلائی کی امید ہو اور جس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں ،اور تم میں سے بد ترین وہ ہے جس سے خیر کی ذرا بھی امید نہ ہو اور اس کے شر سے بھی حفاظت نہ ہو۔ (بخاری، ۲۲۶۳)
سلام کا جواب دینا:
اسلام کی بنیاد اور اس کی پہچان امن و سلامتی ہے۔ اس کے اظہار کے لیے اپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ ہے کہ سلام پھیلاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے پوچھا: اسلام میں بہترین عمل کون سا ہے ؟آپؐ نے فرمایا:کھانا کھلانا اور جسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے اسے سلام کرنا ۔ (بخاری، ۲۸)
سلام کرنے کی وجہ سے سامنے والے کوایک طرح کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس شخص سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔سلام کا جواب دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق ہے ۔نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا :اور جس سے ملاقات ہو اسے سلام کرنا صدقہ ہے (سنن ابوداؤد، ۵۲۴۵)۔ خود قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے کہ سلام کا اس سے اچھے طریقے سے یااسی طرح جواب دو:’’اور جب تمھیں سلام کیا جائے تو اس سے احسن انداز میں اس کا جواب دو یا اسی طرح لو ٹا دو۔ بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘(النساء ۴:۸۶)۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو جتنے اچھے طریقے سے سلام کرتا ہے اسے اتنا ہی اجر ملتا ہے ۔
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ۱۰۔پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہا اور بیٹھ گیا۔ آپؐ نے اس کے بھی سلام کا جواب دیا اورفرمایا: ۲۰۔ پھر ایک تیسرا شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا اور بیٹھ گیا۔اس کے بھی سلام کا جواب دینے کے بعد آپؐ نے فرمایا:۳۰۔(سنن ابوداؤد، ۵۱۹۵)
راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اورکم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری، ۶۲۳۳)
آج کل سلام نہ کرنے کا اتنا رواج ہو چلا ہے کہ اگر راہ چلتے کو ئی کسی کو سلام کر ے تو وہ شخص پریشان ہو جا تا ہے کہ مجھے کس نے سلام کر دیا؟ اس لیے سلام کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔نبی کریمؐکی حدیث کی رو سے جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک اہم عمل آپس میں سلام کوپھیلانابھی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم جنت میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے، حتی ٰ کہ ایمان نہ لے آؤ۔اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔کیا میں تمھیں ایک ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں کہ تم اسے اختیار کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے؟آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔ (مسلم، ۱۹۴)
خیال رہے کہ کچھ لوگ ہاتھ ملانا درست نہیں سمجھتے۔ ہاتھ ملانا ضروری نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص سلام کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں اور ہاتھ ملانے یا نہ ملانے کے حوالے سے شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔کیوں کہ یہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے کہ اس کو اختیار نہ کرنے سے گناہ ہوگا۔ یہ کوئی ایسا کام بھی نہیں ہے کہ اس کو اختیار کرنے سے بدعت کا ارتکاب ہوگا کیوں کہ حدیث مبارکہ میں اس کے جواز کا پہلو ملتا ہے ۔حضرت براءؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی بخشش کر دی جاتی ہے۔(سنن ابوداؤد، ۵۲۱۲)
امر با لمعروف ونھی عن المنکر:
راستے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ جو شخص وہاں منکر ہوتے ہوئے دیکھے تو اسے اپنی استطاعت کے مطابق روکے اوراسی طرح وہ اچھائی کا حکم دینے کا فریضہ ادا کرے۔مسلمان پر جس طرح نماز ،روزہ ،زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض بھی ایک اہم فریضہ ہے ۔اس فریضے کو ادا کرنے کے مختلف درجات ہیں۔ صرف قوت و اقتدار ہی اس میں شامل نہیں ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے منکر ہوتے ہوئے دیکھے پس اسے چاہیے کہ اس کو ہاتھ سے روکے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنی زبان سے۔اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اپنے دل میں اسے براکہے اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے ۔ (مسلم، ۷۸)
اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ ہر مسلمان پر لازم ہے۔ یہ صرف حکومتی ذمہ داران کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اسی طرح اس فریضے کی ادایگی کا طریقۂ کار بھی مختلف ہے۔ صرف ایک ہی طریقۂ کار وضع نہیں کیا گیا ۔البتہ فضیلت کی بنیاد پر مختلف درجات ہیں۔ سب سے اعلیٰ درجہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ہے ،اس کے بعد زبان سے اس کے خلاف جہاد کرنے کا درجہ ہے، اور آخر میں دل میں اسے بُراکہنے کا درجہ ہے ۔اسی طرح منکر کے حوالے سے ذہن نشین رہے کہ اس سے مراد کسی انسان کی طبیعت جس کی طرف مائل نہیں ہوتی وہ،یا کوئی فقہی اختلافی مسئلہ مراد نہیں ہے بلکہ شریعت کی نگاہ میں جو کام ناجائز ہے وہ مراد ہے۔اگر کوئی راستے میں دیکھتا ہے کہ ایک شخص دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے تو وہ کان لپیٹ کر وہاں سے گزر نہ جائے بلکہ زیادتی کرنے والے کو اس سے روکے، یہ راستے کے حقوق میں سے ہے۔
قضاے حاجت سے ممانعت:
راستے کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی قضاے حاجت راستے میں نہ کرے کیوں کہ راستے سے گزرنے کا حق سب لوگوں کا ہے۔ اس لیے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ راستوں یا انتظار گاہ (جو مسافروں کے لیے بنائی جاتی ہے) میں قضاے حاجت کرکے مسافروں کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کرے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: لعنت کیے گیے لوگوں سے بچو۔ صحابہؓ نے پوچھا یارسولؐ اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا: جو لوگوں کے راستے یاان کے سایے کی جگہ میں قضاے حاجت کرتا ہے ۔(مسلم، ۳۹۷)
یاد رہے کہ راستوں کو آلودہ کرنے کے حوالے سے یہ چیز بھی شامل ہے کہ راستے میں کوڑا کرکٹ ،گندگی اور اسی طرح کی دیگر اشیاڈالی جائیں۔اسی طرح انتظار گاہ میں تھوکنایا ادارے کے اندرونی راستوں پر تھوکنا یہ چیز بھی گندگی پھیلانے کے زمرے میں آتی ہے ۔
راستوں کوصاف ستھرارکھنے میں انفرادی اور اداراتی سطح پر کام کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں،مثلاً: بلدیہ کا کام ہے کہ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی رکھے اورنکاسی آب (سیوریج) کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے نالوں کی صفائی کرے۔ الا ماشاء اللہ اگر کہیں یہ نظام ٹھیک ہو تو ہو بحیثیت مجموعی جہاں یہ صفائی کرتے ہیں تو ساری گندگی باہر سڑک پر ڈال دیتے ہیں اور اس کو وہاں سے اٹھانے کا کوئی مؤثر انتظام نہیں ہوتا۔ لہٰذا اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
راستہ بھولنے والے کو راستہ بتلانا:
راستے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ کوئی شخص راستہ بھول جائے تو اسے صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا ۔اس میں کسی نابینا کو راستہ بتلانا بھی شامل ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جس نے دودھ دھونے کے لیے جانور بطور ہبہ کسی کو دیا، یا کسی کو راستہ بتلایا اس کے لیے ایک غلام آزادکرنے کا اجر ہے (ترمذی، ۱۹۵۷)۔ امام ترمذی ؒ نے اس کی تشریح میں لکھا ہے : آپؐ کا قول أَوْ ہَدَی زُقَاقًا سے مراد راستہ بتلانا ہے، یعنی راستے کی رہنمائی کرنا ۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئی راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ نہیں بتلاتے۔ یہ انتہائی نا مناسب عمل ہے ۔ایک حدیث میں تو اللہ کے رسولؐ نے راستہ بتلانے کو صدقات میں شمار کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۸۹۱)
سواری پر سوار کرنا یا سامان اٹھانے میں مدد دینا:
راستے سے گزرتے ہوئے اگر کوئی بزرگ گاڑی پر سوار نہ ہوسکے یا کوئی اورہو جسے سواری پر سوار ہونے میں دقّت پیش آئے، تو اسے سوار ہونے میں مدد دینا، اور اسی طرح کسی کا سامان اٹھانے میں مدد دینا بھی راستے کے حقوق میں سے ہے۔ نبی کریمؐ نے اسے صدقات میں شمار کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: ہر جوڑ کے بدلے میں ہر دن صدقہ ہے۔آدمی کو سوار ی پر سوار ہونے میں مدد دینا ، یا اس کا سامان سواری تک اٹھانے میں مدد کرنا بھی صدقہ ہے ۔ (بخاری، ۲۹۸۹)
ہمیں دیکھنا چاہیے اور اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کہاں تک راستے کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اگر راستے میں جاتے ہوئے کوئی ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھ کر اس پر عمل کرے، تو یقیناًاس کی اپنی زندگی بھی خوش گوار ہوگی اور وہ لوگ بھی خوش و خرم ہوں گے جن کواس شخص کی نیکی کی وجہ سے پریشانی سے نجات مل جائے گی۔ اس طرح ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہوگااور معاشرے میں سکون و اطمینان اورمحبت و اخوت کی فضا قائم ہوگی ۔