December 9th, 2024 (1446جمادى الثانية7)

تزکیۂ نفس:قرآن کی روشنی میں

گوہر ملسیانی

قرآنِ حکیم علم و حکمت کا بحرِ بے کنار ہے۔ یہ وہ کتابِ مبین ہے جو ہدایت کا منبع اور معارف کا خزانہ ہے۔ اس کا موضوع انسان ہے، اس کے مضامین و موضوعات انسانی زندگی کی کامیابی اور فلاح کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پھر اس کا دائرۂ کار وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ انفرادیت اور اجتماعیت، تصورات و اعتقادات کی وضاحت کرتا ہے۔ وحدت اور مساوات کی صراحت کرتا ہے۔ اخلاقی اقدار اور اعمال و افعال کی تطہیر کرتا ہے۔
تزکیۂ نفس کے حوالے سے یہ امر ذہن نشین رہے کہ تزکیہ کے لغوی معنی پاکی، صفائی اور نشوونما کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو آلایشوں سے پاک صاف کرنا، نیکی کی نشوونما کرنا اور اس کو ترقی دینا ہے۔ مگر قرآ نی مفہوم کے مطابق تزکیہ کے معنی نفس کو تمام ناپسندیدہ، مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کرکے خداخوفی، نیکی اور تقویٰ جیسی خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے۔ رذائلِ اَخلاق سے بچنا اور فضائلِ اخلاق سے منور ہوکر بندگیِ خالقِ کائنات کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے۔ اس کے احاطے میں کردار و اَطوار، اعمال و افعال اور مشاہدات و تجربات کے ساتھ ساتھ احکامات کی تعمیل بھی آتے ہیں۔یہ تمام اُمور انسانی طاقت سے باہر نہیں۔ انسان انھیں بہ رضا و رغبت اور بلاتردّد و کراہت انجام دے سکتا ہے۔ اس میں اشکال اور دقّتیں نہیں، صرف تعلیماتِ قرآن سے محبت درکار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی عظمت و عزت خلیفۃ اللہ ہونے کے ناتے دیگر مخلوقات سے برتر ثابت کرنے کے لیے تزکیہ کو اختیار کرنے پر زور دیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o(الشمس ۹۱:۹) ’’یقیناًفلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔
قرآنِ حکیم کی تعلیمات میں اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ نے انبیاے کرام ؑ کو بھی تزکیہ کی تلقین کو اپنی تبلیغ کی اساس بنانے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں اس دعا کو بیان فرمایا، جو حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ مانگ رہے تھے جس میں تزکیے کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ دراصل دعاے ابراہیمی ؑ ہے جس میں رسولِ اکرمؐ کی بعثت کی استدعا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیل ؑ مکہ مکرمہ میں اللہ کے گھر کی دیوار اُٹھا رہے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب! ہم دونوں کو اپنا مسلم، مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ۲:۱۲۷۔۱۲۸)۔ یاد رکھیے یہ ایک برگزیدہ رسول ؑ کی دلی کیفیات کی ربِ کائنات کے حضور التجائیں ہیں۔
یہ تمنائیں، آرزوئیں اور ندائیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں بلکہ روح کی صدائیں بصد احترام ہوا کے دوش پر تڑپ اُٹھتی ہیں۔ یہی حالت حضرت ابراہیم ؑ کی ہے۔ وہ استدعا کرتے ہیں:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (البقرہ ۲:۱۲۹) اے ہمارے رب! ان لوگوں میں خود انھی کی قوم سے ایک ایسا رسول اُٹھائیو، جو انھیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔

یہ ہے سیدنا ابراہیم ؑ کی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی دعا، جس میں تزکیے کے فرض کوا دا کرنے کا بھی خصوصی ذکر ہے۔ گویا تعلیمِ قرآن وہ حاصل تزکیۂ نفس ہے جس میں زندگی سنوارنے، اخلاق، سخاوت، معاشرت، تمدن، سیاست غرضیکہ ہرچیز کو سنوارنا شامل ہے۔
محسنِ انسانیتؐ کی پوری زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا۔ جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا۔ رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔ یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔ اسی پر تو خالقِ کائنا ت نے فرما دیا:
کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۱۵۱) میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے۔ تمھاری زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے، تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔ ذرا حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجیے:

ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی oاِِذْ نَادٰہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی oاِذْہَبْ اِِلٰی فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ طَغٰی oفَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِِآٰی اَنْ تَزَکّٰی oوَاَھْدِیَکَ اِِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی o(النازعات ۷۹:۱۵۔۱۹) کیا تمھیں موسٰی ؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے، جب اس کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ: کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور مَیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔

ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی تزکٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآنِ مجید کی حسب ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں: وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی o(طٰہٰ ۲۰:۷۶) ’’اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓo(عبس ۸۰:۳) ’’اور تمھیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے‘‘، یعنی مسلمان ہوجائے۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰیٓ o(عبس ۸۰:۷) ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے‘‘، یعنی مسلمان نہ ہو۔ (تفہیم القرآن، جلدششم، ص ۲۴۲، بحوالہ ابن جریر)
یہی وہ حکمِ ربانی ہے جو حضرت موسٰی ؑ کو دیا گیا کہ تزکیے کی دعوت دو۔ اللہ تعالیٰ کا اَبرِ لطف و کرم اہلِ ایمان پر ہمیشہ برستا رہا۔ یہ رحمت کی انتہا ہے کہ اللہ کے بندے پاکیزہ و مصفا ہوجائیں۔ گناہوں کی دلدل سے بچ جائیں اور دنیا میں پھیلے کانٹوں سے دامن بچاکر خوفِ خدا کو حرزِ جاں بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخ رو ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس موقعے پر مسلمانوں کے تزکیے کا حکم دیا جب مدینہ کے کچھ منافقین سچے دل سے ایمان لے آئے۔ فرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ط اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ ط وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o(التوبہ ۹:۱۰۳) اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو اور اس سے تزکیہ کرو (نیکی کی راہ میں انھیں بڑھاؤ) اور ان کے حق میں دعاے رحمت کرو کیوں کہ تمھاری دعا ان کے لیے وجۂ تسکین ہوگی،اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
کتنی رحمت و شفقت ہے کہ خالق بنی نوع انسان اپنے بندوں کی تطہیر اور تزکیہ کا فریضہ اپنے رسولِؐ مقبول کو اس وقت بھی سونپتا ہے جب انسان ضلالت کی راہ سے نکل کر منزلِ ہدایت کو پانے کے تمنائی ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کو علم و حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ اس کی ہر آیت اہلِ ایمان کو ایسے ایسے جواہر عطا کرتی ہے، جن میں ایسے ایسے انوار ہدایت چمکتے دمکتے ہیں، جن کی قدرومنزلت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ پھر ان کو عطا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا بھی اظہار کرتا ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۴) درحقیقت اہلِ ایمان پر تو اللہ نے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اُٹھایا جو اس کی آیات انھیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے(تزکیہ کرتا ہے) اور ان کو کتاب (قرآن) اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

یہ آیات قرآنِ حکیم میں تین بار دہرائی گئی ہیں جن سے رسولِ اکرمؐ کے فریضۂ نبوت کی نشان دہی کی گئی ہے۔ سورۂ جمعہ میں اس آیتِ کریمہ کے کچھ تبدیلی کے ساتھ تقریباً یہی الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تکرار سے بعثتِ رسول مکرمؐ کی ضرورت اور اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منصبِ نبوت، کارِ نبوت اور مقامِ نبوت کی بھی وضاحت کردی ہے کہ یہ کتابِ مبین، یہ صحیفۂ ہدایت اور یہ متاعِ حکمت تیری پونجی ہے جسے تو نے بانٹنا ہے۔ علاوہ ازیں خالقِ ارض و سماوات بندے کو خود بھی اپنا تزکیہ کرتے رہنے کی تلقین فرماتا ہے۔ مختلف اسلوب ہیں جن کے ذریعے ایک انسان تزکیہ کر کے فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے، بُرائیوں سے بچ سکتا ہے۔ مقصدِ تخلیق کو سمجھ کر اس کو پورا کرنے کی سعی کرتا ہے۔ کائنات کا ہر انسان اپنا بوجھ خود اُٹھائے گا۔ کوئی بھی اس کا بوجھ اُٹھانے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں کی وضاحت قرآنِ مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کرتا ہے۔ انسان کو سمجھاتا ہے بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ ان کا تذکرہ کرو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔
وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ط وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ اِلٰی حِمْلِھَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ وَّ لَوْ کَانَ ذَاقُرْبٰی اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ط وَ مَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُo (فاطر ۳۵:۱۸) اور کوئی اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کو کسی کو بلائے تو کوئی اس میں سے کچھ نہ اُٹھائے گا اگرچہ قرابت دار ہی ہو۔ (اے پیغمبرؐ!) تم ان لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہو جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو شخص پاک ہوتا ہے اپنے ہی لیے پاک ہوتا ہے اور (سب کو) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔


اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسان کو تزکیے کی تلقین کی ہے۔ جتنے بھی احکامات ہیں، جتنی بھی ہدایات ہیں، سب کی اساس تزکیہ ہے۔ جو انسانی زندگی کو اس طرح نکھارتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور محسنِ انسانیتؐ کی اطاعت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور دُنیوی و اُخروی فلاح کو پانے کی جدوجہد کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص عائلی مسئلے میں تزکیے کی برکت کا یوں اظہار کرتا ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo(البقرہ ۲:۲۳۲) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرتجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمھیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا اگرتم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ تمھارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ نے اس ناپسندیدہ عمل سے گریز کرنے کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس سے بچنا بھی تزکیے کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلآی اَھْلِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ oفَاِِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۲۷،۲۸) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دی جائے۔ اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ۔ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کس قدر ہمدرد، مصلح اور انسانوں کی مددگار ہے کہ وہ ان اسباب کا خاتمہ کرنے کی بھی فکر کرتی ہے جو کسی شخص کو اس بُرائی میں مبتلا ہونے پر اُکساتے ہوں ، اس کے لیے مواقع بہم پہنچاتے ہوں یا اس پر مجبور کردیتے ہوں۔
جاہلیت میں اہلِ عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ صبح بخیر، شام بخیر کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح کے لیے یہ اصول مقرر کیا کہ ہرشخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں تخلیے (privacy) کا حق ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے تخلیے میں اس کی مرضی اور اس کی اجازت کے بغیر دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخلیے کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا جس کی رُو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبیؐ کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: اذا دخل البصر فلا اذن ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کی اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا‘‘(ابوداؤد)۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناقاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے ہاں تشریف لے جاتے تو آپؐ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے (ابوداؤد)۔ ایسی اور بھی احادیث مختلف کتبِ حدیث میں منقول ہیں۔ اگر تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد صاحبِ خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہی پاکیزہ طریقہ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی تزکیہ ہے جو نفسانی خواہشات، بے راہ روی اور فحش اقدام سے بچاتا ہے۔
ان تعلیمات کے بعد پھر ربِ جلیل نے محسنِ انسانیتؐ کو اہلِ ایمان کے تزکیے کے لیے ایک انداز کا حکم فرمایا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ o(النور ۲۴:۳۰) اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھنے کو حلال نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے تمام حواس سے زنا کرتا ہے۔ بُری نظر سے دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے۔ لگاوٹ کی بات چیت زبان کا زنا ہے، آواز سے لذت لینا کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ لگانا اور ناجائز مقصد کے لیے چلنا ہاتھ اور پاؤں کا زنا ہے (بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ آں حضورؐ سے اس نظربازی کے سلسلے میں بہت سی احادیث منقول ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالی جائے، فوراً پھیر لی جائے یا نیچی کرلی جائے۔ مسلم، ابوداؤد اور احمد نے نبی کریمؐ کا ارشاد نقل کیا ہے: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے، کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو نہ دیکھے۔ الغرض جس شخص نے اپنی آنکھوں کی حفاظت کی اس نے تزکیہ کیا اور گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزگی کے عمل کو پسند فرمایا ہے۔
ستر کی حفاظت کے لیے محسنِ انسانیتؐ کے بہت سے ارشادات کتبِ سنن میں موجود ہیں۔ آپؐ نے تو یہاں تک فرما دیا: فاللّٰہ تبارک وتعالٰی احق ان یستحیا منہ ’’تو اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔(ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب نے کیا گل کھلائے ہیں۔ گھر، ٹی وی کی یلغار کی زد میں ہیں۔ کیا اشتہار، کیا ہوس ناکی سے لبریز ڈرامے اور کیا نغمہ و سُرود سب فحاشی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کو اہتمام سے دیکھا جاتا ہے۔ غضِّ بصر کا لحاظ کہاں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی نفس پرستی کے ارتکاب سے ربِ جلیل منع فرماتا ہے اور ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے غضِّ بصر کا حکم دیتا ہے بلکہ فرماتا ہے: ذٰلِکَ ازکٰی لھُم کہ ان کے لیے نظربازی سے بچنا اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنا پاکیزہ عمل ہے۔ یعنی یہی تو تزکیہ ہے۔ اسی طرح ہادیِ برحقؐ سے یہ بھی اسی سورہ میں فرمایا جارہا ہے: وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ ۔۔۔(النور ۲۴:۳۱) اور ’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤسنگھار نہ دکھائیں‘‘۔ اس کے بعد ان محرمان کا ذکر ہے جن کے سامنے بغیر پردہ جاسکتی ہیں۔
سورۂ لیل کا مطالعہ کیجیے، جس میں زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کا انجام واضح کیا اور ان نتائج کو دل میں اُتارا گیا ہے، جن میں ایک بھلائی کا راستہ ہے اور دوسرا بُرائی کا راستہ۔ پہلی قسم کی خصوصیت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلی یہ کہ انسان مال دے، خداترسی اور پرہیزگاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری یہ کہ انسان بخل کرے۔ خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہوجائے اور بھلی بات کو جھٹلا دے۔ یہ دونوں راستے نتائج کے لحاظ سے ہرگز یکساں نہیں۔ پہلے طریقے میں بھلائی کرنے والے کے لیے بدی کرنا مشکل ہوجائے گا اور دوسرے طرزِعمل میں اللہ تعالیٰ اس کے عامل کے لیے زندگی کے بدی کے راستے کو سہل کردے گا۔
سورہ کے دوسرے حصے میں تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ نے انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا، اس نے یہ راستہ بتا دینا اپنے ذمے لیا ہے کہ زندگی میں انسان کے لیے سیدھا راستہ کون سا ہے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہے۔ دنیا مانگو تو دنیا دے گا۔ آخرت کی فلاح مانگو تو فلاح دے گا۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اس بھلائی کو جھٹلائے گا، جو رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے، اس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض رضاے الٰہی کے لیے اپنا مال راہِ خیر میں خرچ کرے گا، اس کا رب اس سے راضی ہوگا اور اسے اتنا کچھ دے گا تو وہ خوش ہوجائے گا۔
اس سورت کی آخری پانچ آیات تزکیہ اور اس کے انعامات کو بیان کرتی ہیں:
وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی oالَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی oوَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی oاِِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی o(اللیل ۹۲:۱۷۔۲۱) جو بڑا پرہیزگار ہے وہ بچا لیا جائے گا۔ جو اپنا مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو۔ وہ اس لیے نہیں دیتا کہ اس پر کسی کا احسان ہے، جس کا وہ بدلہ اُتارتا ہے، بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے اور وہ عنقریب خوش ہوجائے گا۔
یہی رضاے الٰہی کا حصول ہی تو حقیقی تزکیہ ہے، جو انسان کی متاعِ آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو واضح طور پر بتلا دیا ہے کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اس کی شیطنت صحرا بہ صحرا، دریا بہ دریا، کو بہ کو پھیلی ہوئی ہے۔ کیسے کیسے وساوس، کیسے کیسے حربے اور کیسے کیسے نفس پرستی کے ہچکولے اس کی سرشت میں جلا پاتے ہیں کہ ہرانسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے۔ حقیقتاً وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اسی لیے تو خالقِ بنی نوع انسان نے ہمیں متنبہ کیا ہے:
ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o(النور ۲۴:۲۱) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا۔ مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے،اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس آیت سے قبل اس سورت میں واقعۂ افک کا تذکرہ کیا ہے، جس میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی گئی تھی، مگر اس کے بارے میں ربِ علیم و خبیر نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم نے حُسنِ ظن کیوں نہ کیا، سوے ظن کیوں کیا۔ اس کے بعد اس آیت میں اہلِ ایمان کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو فحش اور بدی کی طرف بلاتا ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ کتنے افراد متاثر ہوتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کے نقصانات کتنے ہیں جو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں، بہت بڑی باتیں ہیں۔ شیطان کے ان حربوں سے بچو۔ ان وساوس کی زد میں آکر کوئی شخص بھی پاک صاف نہیں ہوسکتا۔
قرآنِ حکیم نے نفسِ انسانی کے تزکیے کے لیے رہنمائی دی ہے اور بتلا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا تزکیہ کرتا ہے۔ انبیاے کرام ؑ کو اہلِ ایمان کا تزکیہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اہلِ ایمان کو خود تزکیہ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت فرماتا ہے تاکہ اس کے بندے نیکی، خداخوفی اور فضائلِ اخلاق سے آراستہ ہوکر اس کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور دنیوی اور اُخروی کامیابی سے ہم کنار ہوں۔
قرآنِ کریم نے تزکیۂ نفس کے اور بھی عوامل کا ذکر کیا ہے۔ تقویٰ اختیار کریں، انفاق فی سبیل اللہ کو اپنی فائدہ مند تجارت بنائیں، باطنی صفات میں اخلاص کو کلیدِ تزکیہ بنائیں۔ ذکروفکر سے تزکیے میں مدد لیں اور خلوصِ دل سے استغفار کے لیے نماز، زکوٰۃ اور فریضۂ حج کو اپنی فلاح کا ذریعہ بنائیں۔ چنانچہ دل کی گہرائیوں میں اُتار لیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی oوَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o(الاعلٰی ۸۷:۱۴،۱۵) ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی‘‘