December 22nd, 2024 (1446جمادى الثانية20)

نرم روی ,اسلامی تعلیمات کیا ہیں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ

نرمی اسلام میں نہایت پسندیدہ اخلاقی وصف ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس وصف کو مؤمنوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔ احادیث نبویؐ میں اس صفت کو ابھارا گیا ہے، کیونکہ یہ مسلمان کی انفرادی زندگی کو بھی مزیّن بناتی ہے اور اجتماعی زندگی پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ جس کو نرم خوئی حاصل ہوئی اسے اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت مل گئی، جو اس کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

نرمی کے لیے عربی زبان میں ’’الرفق‘‘ اور ’’اللین‘‘ اور ’’ھین‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں، جس کے معنی نرمی اور ایک جانب جھکاؤ کے ہیں، کام کو آسان بنانا اور دشواری سے بچانا بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے۔ ’’العنف‘‘ کا لفظ اس کا عکس اور متضاد ہے، جس کے معنی درشتی اور سخت روی کے ہیں۔ (دیکھیے؛ فتح الباری، لابن الحجر،۴۴۹۔۱۰) اس سے مراد رفقاء کی خاطر داری ہے، اور جھک کر معاملات کو اچھے انداز سے برتنا، اور آسانی کو اختیار کرنا ہے۔ (دیکھیے؛ مرقاۃ المفاتیح للقاری، ۳۱۷۰۔۸) وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھوناً واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً (الفرقان۔ ۶۳) ’’رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہم ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔) ھوناً سے مراد چال کی نرمی ہے، جیسے ایک شریف الطبع اور نیک مزاج آدمی کی چال ہوتی ہے۔‘‘

نرمی ایک قلبی وصف ہے جو تمام انسانوں کو میسر نہیں آتا اور بلکہ یہ انسانوں کے فرق کے لحاظ سے مختلف درجوں میں پایا جاتا ہے، جن لوگوں کو نرمی کی صفت ملی، انہیں بہت خوبصورت عطائے ربانی حاصل ہوئی۔ نرم دل انسان صرف انسانوں سے ہی نرمی نہیں برتتا بلکہ اللہ تعالی کی تمام مخلوقات کے لئے نرم دل ہوتا ہے۔

’’الرفق‘‘ کا متضاد ’’العنف‘‘ ہے، یعنی سخت روی، سنگ دلی اور قساوت، یہ صفت لوگوں کے دلوں میں دوری پیدا کرتی ہے، اوریہ تعمیر جگہ تخریب اور اصلاح کی جگہ فساد کی راہ ہموار کرتی ہے، انسانوں میں تند خو، سخت گیر اور متکبر لوگ جن کا دل قساوت اور شدت سے بھرا ہوتا ہے، تباہی، بربادی اور مسمار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن میں ان کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: واذا تولّی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنّسل، وااللہ لا یحب الفساد (البقرۃ۔ ۲۰۵) ’’جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘

سخت دل شخص نرمی کو ذلت اور رحم کو کمزوری سمجھتا ہے، وہ سختی کو مردانگی، قساوت کو قوت اور تشدد کو اصول پسندی سمجھتا ہے، حالانکہ کسی مسلمان کو خوف میں مبتلا کرنا، اذیت دینا اور رعب میں مبتلا کرنا درست نہیں۔ اور نرمی سے طبیعت قربت اور انس محسوس کرتی ہے، اور خشونت اور سختی سے دور بھاگتی ہے۔ اسلام باہمی معاملات میں نرم رویہ اختیار کرنے پر ابھارتا ہے۔ اس صفت کا ذکر اللہ تعالی سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ کی کیا صفت تھی جس نے مؤمنوں کے دلوں کو ان سے جوڑ دیا: فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولو کنت فظاً غلیظ القلب لانفظوا من حولک (آل عمران، ۱۵۹) ’’اے پیغمبرؐ! یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے بڑے نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد وپیش سے چھٹ جاتے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی کئی حقائق کی جانب اشارہ فرماتے ہیں، اس میں اللہ تعالی کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق میں پیدا کی، اور یہ ان میں نرم دلی، آسانی اور رحیمانہ صفات ہیں، جن کی بنا پر دل ان کی جانب لپکتے ہیں، اور لوگ ان سے الفت برتتے ہیں۔ (فی ظلال القرآن، ص۵۰۰)

اسی نرمی اور شفقت کی صفت کا ذکر سورۃ التوبۃ میں فرمایا: لقد جاء کم رسول مّن انفسکم عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیکم بالمؤمنین رؤوف رّحیم (التوبہ۔ ۱۲۸) ’’دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘ یعنی جہاد جیسے مشکل کام کے لیے اس کا تمہیں بلانا بھی اس کی تم پر مہربانی اور شفقت ہے کیونکہ تمہارا ذلت اور پستی میں پڑنا اسے گوارا نہیں، اور وہ اس بڑے عمل کے ذریعے تمہاری مغفرت اور گناہوں کی معافی چاہتا ہے، وہ تمہاری آخرت کا نقصان نہیں چاہتا ، بلکہ تمہاری فلاح کا حریص ہے۔

سورۃ الشعراء میں رسول اللہ ﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: واخفض جناحک لمن اتّبعک من المؤمنین (الشعراء، ۲۱۵) ’’اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔‘‘ یعنی ان سے نرمی برتیے، اور اپنی باہوں کو ان کی جانب جھکا دیجیے۔ یہ نرمی، تواضع اور جھکنے کی حسّی تصویر ہے، بالکل اسی طرح جیسے پرندہ اپنے پر سمیٹ لیتا ہے تو زمین پر آ جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ تمام عمر اپنے اصحاب کے ساتھ اسی طرح رہے، یقیناً ان کا خلق قرآن تھا اور وہ قرآن ِ کریم کی اس آیات کا حقیقی مصداق تھے۔ (دیکھیے: فی ظلال القرآن، ص۲۶۲۰)

اور اللہ تعالی نے حضرت موسیؑ و ہارون ؑ کو فرعون کی جانب بھیجتے ہوئے خاص ہدایت کی: اذھبا الی فرعون انّہ طغی۔ فقولا لہ قولا لیّنا لّعلہ یتذکّر او یخشی (طہ۔۴۳،۴۴) ’’جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ یعنی نرم اور سہل کلام، نرمی اور الفاظ میں احترام سے پر، جس میں فحش کلامی یا تکبرنہ ہو،اس میں سختی اور شدّت نہ ہو تاکہ وہ نرم کلام ہی سے اسے سننے اور نصیحت قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے، کیونکہ نرم کلام سننے پر زیادہ آمادہ کرتا ہے، اور سخت کلام مخاطب کو فرار کا راستہ دکھا دیتا ہے۔

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ’’یہود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ ؐ سے کہا: السام علیکم تو عائشہؓ نے ان سے کہا: علیکم و لعنکم اللہ و غضب اللہ علیکم، قال: مہلاً یا عائشہؓ، علیک بالرّفق، وایّاک العنف والفحش، قالت: أولا سمعت ما قالوا، قال: أولا سمعت ما قلت؟ ردّدت علیھم فیستجاب لی فیھم، ولا یستجاب لھم فی۔ ‘‘ (۱۴۷۴، رواہ البخاری) ’’یہود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپؐ سے کہا: السام علیکم، تو حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا: تم پر، اور تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ آپؐ نے فرمایا: رک جاؤ عائشہؓ، نرمی اختیار کرو اور سختی اور فحش کلامی سے گریز کرو، وہ بولیں: آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ انہوں نے فرمایا: تم نے سنا نہیں کہ میں نے انھیں کیا جواب دیا، میں نے جو انھیں جواب دیا وہ ان کے حق میں قبول ہو گیا اور جو انھوں نے میرے بارے میں کہا وہ قبول نہ ہوگا۔‘‘

حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: من یحرم الرفق یحرم الخیر ’’جو نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم ہو گیا۔‘‘ (۱۴۷۵۔ رواہ مسلم) جو شخص اپنے نفس پر نرمی نہیں برتتا وہ دوسروں کے ساتھ بھی نرم خوئی سے پیش نہیں آتا، لہذا وہ بہت سے خیر سے محروم رہتا ہے، آدمی کی سختی اور ترش روی اسے دوسرے انسانوں سے دور کر دیتی ہے، اور وہ اس کے خیر سے محروم ہو جاتے ہیں، جبکہ نرمی حلیمی اور وسعت ِ دل آدمی کے لئے خیر کی راہیں کھول دیتے ہیں، اس لیے خو شخص خیر کا طالب ہے اسے اپنے اندر نرمی پیدا کرنی چاہیے، تاکہ وہ خیر حاصل کر سکے۔ (شرح الریاض الصالحین لابن عثیمین، ۵۹۲۔۳)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللھم من ولیّ من امر امّتی شیئاً، فشقّ علیھم، فاشقق علیہ، ومن ولی من امر امتی شیئاً فرفق بھم فارفق بہ ’’اے اللہ، جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا پھر اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس سے سختی برت، اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ولی (ذمہ دار یا صاحبِ امر) بنا پھر اس نے ان سے نرمی برتی تو تو بھی اس سے نرمی برت‘‘۔ (۱۴۷۷، رواہ مسلم)

بعض لوگ نرمی سے مراد یہ لیتے ہیں کہ معاملات کو لوگوں کی خواہش اور منشا کے مطابق چلانا اس سے مراد ہے، یہ درست نہیں۔ نرم دلی سے مراد یہی ہے کہ لوگوں کو اللہ کے احکام اور رسول ﷺ کی سنت کے مطابق چلایا جائے، اور اللہ کے احکام اور رسول کی سنت سے ہٹ کر ان سے کسی معاملے میں سختی نہ کی جائے۔ اگر دیگر معاملات میں ان پر سختی کی گئی تو یہ حقیقت میں سخت رویہ ہے جس پر حدیث میں ملامت کی گئی ہے، اور ایسے ولی کے حق میں وہ دعا ہے کہ ’’تو بھی ان سے سختی برت‘‘۔ (۱۴۷۸، شرح الریاض الصالحین، ابن عثیمیین)

حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من اعطی حظّہ من الرّفق فقد اعطی حظّہ من الخیر (۱۴۸۲، رواہ الترمذی) ’’جس شخص کو نرم روی میں حصّہ ملا اسے خیر میں حصّہ دیا گیا۔‘‘ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انّ الرّفق لا یکون فی شیء الا زانہ‘‘ (۱۴۷۹) ولا ینزع من شیء الا شانہ (۱۴۸۰) رواہ مسلم ’’نرمی جس چیز میں بھی ہو، اسے زینت عطا کرتی ہے اور جس چیز سے بھی نکال لی جائے اسے بدنما بناتی ہے۔‘‘

نرم روی کی صورتیں
٭ فرائض کی ادائیگی میں نفس پر نرمی: مومن اپنے نفس پر عبادات کا ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جس کی اس میں طاقت نہ ہو۔ اسلام آسانی اور سہولت کا دین ہے، اس میں داخل ہونے والا آسانی سے اس پر عمل کرتا ہے۔ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: انّ الدین یسر، ولن یشاد الدّین الا غلبہ فسددوا وقاربوا، وابشروا واستعینوا بالغدوۃ والروحۃ وشیء من الدلجۃ رواہ البخاری ’’دین آسان ہے، اور یہ ہرگز اس سے خوش نہ ہوگا جو اسے اپنے اوپر غالب نہ کر لے، پس اس پر اچھی طرح عمل کراؤ، لوگوں کو قریب کرو، اور خوشخبری دو، اور صبح اور چاشت کے وقت اور ابتدائے شب کے اوقات سے مدد لو‘‘۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’حولاء بنت تویت بن حبیب ان کے پاس سے گزریں، رسول اللہ ﷺ اس وقت حضرت عائشہؓ کے پاس تھے، وہ بتاتی ہیں کہ میں نے آپؐ سے کہا: یہ حولاء بنت تویت ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تمام رات نہیں سوتیں، آپؐ نے فرمایا: رات کو نہیں سوتی؟ اتنا ہی عمل کرو جس کی تم میں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ نہیں اکتاتا مگر تم اکتا جاؤ گے‘‘۔

ابن القیم کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے دین میں تشدد سے منع فرمایا ہے کہ آدمی فرض سے زائد چیز کو اپنے اوپر لازم کر لے، اور بندے کا اپنے اوپر شدت اختیار کرنا اللہ کی اس پر شدت کا سبب بن جاتا ہے، کبھی تقدیر کے ذریعے اور کبھی شرع کے ذریعے۔ شرع کی شدت یہ ہے کہ وہ اپنے لئے بڑی بھاری نذریں مان لیتا ہے، جن کو پورا کرنا اس کے لئے بوجھل ہوتا ہے، اور انہیں پورا کرنا اس کے لئے لازم ہوتا ہے، اورتقدیر ان کو وسوسوں میں ڈال دیتی ہے،انہوں نے اپنے نفس پر شدت کی تو تقدیر نے ان پر سختی کر دی، اور یہ ان پر چپک کر رہ گئی۔

٭ لوگوں سے نرم خوئی: یعنی لوگوں سے نرم خوئی اختیار کرنا، اور تند خوئی اور سخت روی سے بچنا، اور لوگوں کو معاف کر دینا، ان سے درگزر کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انّ اللہ رفیق یحبّ الرفق فی الامر کلہ ’’اللہ تعالی نرم خو ہے اور وہ سب کاموں میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مومن نرم خو اور آسانی فراہم کرنے والے ہوتے ہیں، بالکل تابعدار اونٹ کی مانند،جسے باندھ دو تو بندھ جائے، اور کسی چٹان پر چھوڑ دو تو آرام کر لے‘‘۔

٭ رعایا سے نرم خوئی: راعی خواہ حاکم ہو یا ذمہ دار یا جوابدہ، اسے اپنی رعایا اور مامورین سے نرمی برتنی چاہیے، وہ ان کی ضروریات اور مصالح کو مدّنظر رکھتے ہوئے ان سے نرمی کا معاملہ کرے، ایسے نرم خو حاکم اور راعی کے حق میں نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شرّ الرعاء الحطمۃ ’’بدترین حکام رعایا کو توڑ ڈالنے والے ہیں۔‘‘ ایک جملے میں رسول اللہ ﷺ نے ہر تند خو راعی کی مثال بیان کر دی ہے خواہ وہ مملکت کا ذمہ دار ہو، کسی ایک محکمے اور شعبے کا یا وہ گھر کی ریاست کا راعی ہو۔ وہ ظالم ہو اور اپنی رعیت پر رحم نہ کرتا ہو، خواہ اس کی رعیت کا دائرہ وسیع ہو یا کمزور ہو، وہ ایک کنبے کا مالک ہو یا ایک سلطنت کاحکمران۔ پس انسانوں میں انسانوں پر سب سے برے حاکم وہ ہیں جو انہیں کچل ڈالتے ہیں، کبھی ان کی عزتِ نفس کو خاک میں ملاتے ہیں، کبھی انہیں ذہنی دباؤ کا شکار کرتے ہیں اور کبھی جسمانی طور پر انہیں ناقابلِ برداشت اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان کے ہاں نرمی کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہ بندوں پر رحم کرتے ہوئے سیاست اور قیادت کی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے۔ ایسے راعی اور حاکم ظالم ہیں، جو رعیت سے قساوت برتتے ہیں، اور ہر آن ان کی قساوت بڑھتی ہی رہتی ہے، وہ لوگوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا رکھتے ہیں، اور ان سے نرمی اورحکمت سے معاملہ نہیں کرتے۔

 

ابن عثیمیین کہتے ہیں: ’’جن کے ذمہ لوگوں کے معاملات ہوں انہیں رعیت سے نرم روی اختیار کرنی چاہیے، ان پر احسان کرنا اور ان کے مصالح کا خیال رکھنا چاہیے، اور ان مناصب پر انہیں افراد کو فائز ہونا چاہیے جو اس کے اہل ہوں، اور ان سے شر کو ہٹا سکیں، اور وہ اس پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔‘‘ مشہور مقولہ ہے: الرّفق رأس الحکمہ ’’نرم روی حکمت کی بنیاد ہے۔‘‘ سفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: تم جانتے ہو نرمی کیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ بتائیے ابومحمد۔ انہوں نے کہا: کہ تم ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھو، شدت کو اس کی جگہ پر اور نرمی کو اس کے مقام پر، تلوار کو اس کی جگہ پر اور کوڑے کو اس کے مقام پر۔

٭ دعوت ِدین میں نرمی: داعیان ِ دین کو دعوت الی اللہ میں نرمی اختیار کرنی چاہیے، اور انسانوں سے شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے، نہ کہ ایسی مخالفت کریں کہ لوگ ان سے دور بھاگ جائیں، انھیں اپنی گفتگو، کلام اور رویے سے شدت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، نہ ہی گنہگاروں سے نفرت کا۔ اللہ کے دین کے داعی اور علم سکھانے والے اساتذہ دونوں ہی کو خاص نرم روی اختیار کرنی چاہیے، کیونکہ اللہ کی جانب دعوت کا اسلوب نرمی اور محبت والا نہ ہو تو وہ لوگوں کو دین کے قریب نہیں کرتا، اسی طرح تعلیم بھی محبت اور نرمی سے گندھی ہوئی ہو تو وہ جلد اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن (النحل، ۱۲۵)

پس حکمت اور عمدہ نصیحت اور گنہگار کے ساتھ نرمی اور شفقت کا رویہ اس کے دل کو نرم کرتا ہے اور اسے شیطان کی مدد سے دور ہٹاتا ہے، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں: ’’جب تم دیکھو کہ تمہارا بھائی گناہ میں آلودہ ہے، تو اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بنو، کہ کہنے لگو: اے اللہ اسے رسوا کر، اے اللہ اس پر لعنت کر، بلکہ اس کے لیے اللہ سے عافیت مانگو۔ ہم اصحاب ِ محمدﷺ کسی شخص کے بارے میں کچھ نہ کہتے تھے، کیونکہ ہم نہ جانتے تھے کہ اسے موت کس حال میں آئے گی؟ اگر اس کا خاتمہ خیر پر ہوتا تو ہم اس خیر کو جان لیتے، اور اگراس کا خاتمہ شر پر ہوتا ہم اس کے بارے میں احتیاط برتتے۔‘‘

ذرا ابراہیم ؑ کا معاملہ ہی دیکھ لیجیے، وہ اپنے باپ سے کس نرمی سے کلام کرتے ہیں: قال اراغب انت عن الھتی یآبراہیم، لئن لم تنتہ لارجمنک واھجرنی ملیّا قال سلام علیک، ساستغفرلک ربی، انّہ کان بی حفیّاً (مریم۔ ۴۶۔۴۷) ’’باپ نے کہا، ابراہیم، کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیاتو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ بس تو مجھ سے ہمیشہ کے لیے الگ ہو جا۔ ابراہیمؑ نے کہا: سلام ہے آپ کو، میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔‘‘ ان آیات میں اللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ ابراہیمؑ نے اپنے مشرک باپ کو بھی کس نرمی سے نصیحت کی ہے، اور باپ کے غصّے کے جواب میں بھی نرم روی کو ترک نہ کیا، اور رب سے بخشش کی دعا کا وعدہ کر لیا۔

٭ خادم اور زیر دست سے نرمی: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’غلام کا کھانا اور کپڑا معروف طریقے سے ادا کرو، اور اسے ایسے کام پر نہ لگاؤ جس کی اس میں طاقت نہیں‘‘۔

٭ حیوانات سے نرمی: حیوانات سے تکلیف کو دور کرنا اور ان کی ضروریات؛ کھانا ، پینا، سایہ، اور آرام کا اہتمام کرنا، ان کے مرض کا علاج کروانا اور زیادہ بوجھ نہ ڈالنا ان سے نرم روی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس اونٹ کی فریاد بھی سنی جس کا مالک اس کے بڑھاپے کے سبب اسے قصاب کو دینا چاہتا تھا، اور کہا کہ اسے یونہی چھوڑ دو۔ اس کتیا کو باہر نکالنے سے منع کیا جس نے وہاں بچے دے دیے تھے، اور ایک صحابی نے چڑیا کے بچے گھونسلے سے نکالے تو اس کی بے چینی دیکھ کر بچے واپس اس کے گھونسلے میں رکھوا دیے۔
معاملات میں نرم روی اور اور لوگوں سے نرمی آسانی اور سہولت سے معاملہ کرنااسلامی اخلاق کا بہترین جوہر ہے، اور یہ کمال کی صفات ہیں، اللہ تعالی خود نرم خو ہے اور وہ بندوں سے نرمی پسند فرماتا ہے، وہ انہیں نرمی کی تلقین کرتا اور اس صفت پر ابھارتا ہے، اور وہ نرمی سے وہ کچھ عطا کر دیتا ہے جو کسی اور طرح نہیں دیتا، اور سختی اس کے ہاں بری عادت ہے، اور وہ اس قبیح عادت کو مؤمنوں کے لیے پسند نہیں کرتا۔

آج دنیا سختی اور شدت کی وجہ سے خائف ہے اور نرمی کی خواہاں ہے، مگر ہر جانب طبیعتوں کی قساوت معاشرے کا حسن گہنا رہی ہے، انسانوں کے باہمی تعلقات میں سختی اور سنگ دلی بڑھتی چلی جا رہی ہے، اخلاق میں نرمی اور آسانی غائب ہوتی جاتی ہے، ہر ایک دوسرے کی سختی اور خشونت پر شکایت کناں ہے؛ استاد شکوہ کرتا ہے، طلبا کی شکایتوں کے انبار ہیں، باپ اولاد سے شاکی ہیں اور اولاد باپوں سے، میاں بیوی بھی ایک دوسرے سے گلے پالے ہوئے ہیں، پڑوسی کو پڑوسی سے شکایت ہے، تاجر اور عمال بھی شکایت کناں ہیں، سب کو ایک دوسرے کے سخت ، خشک اور تند خو رویوں کی شکایت ہے ۔۔ تو پھر نرمی کہاں رخصت ہوئی؟ آسانیاں بانٹنے کی عادت کہاں چلی گئی؟ صبر کہاں غائب ہو گیا؟ اور معاملات کو حکمت سے چلانے کی تدبیر کہاں کھو گئی؟ ۔

نرم خوئی کتنا خوبصورت رویہ ہے! اور نرم خو لوگ کتنے پیارے انسان ہیں! اور زندگی کے ہر گوشے میں نرمی کی کس قدر ضرورت ہے۔ نرم روی کو زندگی کے کسی ایک گوشے میں قید نہیں کیا جا سکتا، یہ ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔’’اللہ تعالی نرم خو ہے اور ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔ (الحدیث) دین، تعلیم اور تربیت میں نرمی کی تلقین کرتا ہے، وہ بروں کے ساتھ بھی نرم روی کی تلقین کرتا ہے، (فرعون جیسے جابروں سے بھی!) وہ عزیر و اقارب سے نرم رویہ اختیارکرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور اجنبیوں سے بھی! وہ انسانوں سے ہی نہیں حیوانات سے بھی نرم روی کی ہدایت دیتا ہے!